گجرات میں بچوں سے ملازمت کرانے والوں کی گرفتاریاں: نوعمر محنت کشوں کے والدین فیصلے سے ناخوش کیوں؟

postImg

فاروق سہیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گجرات میں بچوں سے ملازمت کرانے والوں کی گرفتاریاں: نوعمر محنت کشوں کے والدین فیصلے سے ناخوش کیوں؟

فاروق سہیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

محمد عاصم کا تعلق گجرات شہر کے قریبی قصبے مدینہ سیداں سے ہے۔ وہ شہر میں اپنے چچا محمد فیصل کی دکان پر پچھلے چند سال سے موٹر سائیکل  مکینک کے طور پر کام کر رہے تھے۔ رواں برس وسط ستمبر کی ایک صبح وہ موٹر سائیکل کو پنکچر لگا رہے تھے کہ محکمہ لیبر پنجاب کے دو اہلکار  آئے اور ان سے کچھ معلومات لے کر چلے گئے۔ اگلے دن فیصل کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔

محمد عاصم کے بقول "انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ چچا کو کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پھر ایک پولیس والے نے بتایا کہ انہیں کم عمر فرد سے دکان پر کام کرانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔"

سماجی کارکن آصف حسین سلیمی بتاتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ سے گجرات میں ایسے دکان مالکان کو گرفتار کیا جا رہا ہے جنہوں نے بچوں کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں غریب گھرانوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے بہت سے خاندان نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کام کرانے یا کم عمری میں ہنر سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

محمد عاصم کے والد محمد قاسم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کا پڑھائی کی طرف رجحان نہیں تھا۔ سکول چھوڑنے کے بعد یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ بری صحبت میں بیٹھنا نہ شروع کر دے۔ اسی لیے انہوں نے اسے اپنے چھوٹے بھائی (فیصل) کے پاس ہنر سیکھنے کے لیے بھجوا دیا۔

مرغی کا گوشت بیچنے کی ایک دکان کے مالک کو بھی اسی طرح گرفتار کیا گیا جنہوں ںے عدنان نامی ایک کم عمر لڑکے کو ملازم رکھا ہوا تھا۔ اس بچے کے والد خادم حسین دیہاڑی دار مزدور ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا پڑھائی کی طرف رحجان نہیں تھا۔ انہوں ںے اسے مدرسے بھیجا تو وہاں بھی اس نے پڑھنے پر توجہ نہ دی۔ چنانچہ اسے بری صحبت سے بچانے کے لیے انہوں نے اسے دکان پر بھیج دیا جہاں سے روز ملنے والے دو تین سو روپے سے گھریلو اخراجات میں مدد ملنے لگی۔

عاصم اور عدنان چاہتے ہیں کہ ایسے بچوں کے لیے حکومت وظائف مقرر کرے اور انہیں ہنر سکھلائے تاکہ مستقبل میں وہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 کی شق تین یہ کہتی ہے کہ "14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو فیکٹری، کان یا کسی بھی خطرناک مقام پر ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔"

ماہر قانون خاور شہزاد کے مطابق پاکستان میں بچوں کی مزدوری کے حوالے سے قوانین میں پانچ سے 14 سال کی عمر کو بچہ اور 14 سے 17 سال والوں کو نوعمر قرار دیا گیا ہے۔

"بچوں سے کسی بھی طرح کا کام لیا جانا جرم ہے لیکن نوعمر افراد کو خاندان کے معاش کی خاطر چند ایک آسان کام کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ گھریلو صنعت میں وہ اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں، کسی رشتہ دار کے ساتھ ایسے کام کر سکتے ہیں جن سے ان کی صحت و زندگی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔"

عاصم کے والد محمد قاسم دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بچے کی عمر ساڑھے 14 سال ہے۔ ان کا بیٹا جبری مشقت نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے چچا کے کام میں ہاتھ بٹا رہا تھا اور اس سے کوئی سخت کام بھی نہیں لیا جاتا تھا۔

بچوں کی ملازمت سے متعلق 1991 کے قانون کے مطابق ایسے بچوں کی عمر کے حوالے سے کوئی تنازع سامنے آنے پر مجوزہ میڈیکل اتھارٹی کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ ہی حتمی ثبوت ہو گا۔

لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ گجرات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اظہر محمود کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مزدور 14 سال سے زیادہ عمر کا ہے تو عدالت میں برتھ سرٹیفکیٹ دکھا کر اپنا کیس ختم کروا سکتا ہے۔

"ہمارے اہلکار ہر اُس جگہ جاتے ہیں جہاں انہیں شک ہو کہ بچوں سے مزدوری لی جا رہی ہے۔ وہ چھان بین کرنے کے بعد حاصل شدہ معلومات محکمہ پولیس کو دیتے ہیں جو کارروائی کر کے ملوث افراد کو گرفتار کرتی ہے۔"

محمد حسین وٹو بھٹہ مزدور یونین کے متحرک رہنما ہیں۔ ان کے مطابق جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے قوانین زیادہ تر بھٹہ خشت کی لیبر یا پھر کام کی ان جگہوں پر لاگو ہوتے ہیں جہاں جبری مشقت لی جاتی ہے اور بچوں پر تشدد ہوتا ہے۔ مگر محکمہ لیبر والے بھٹوں پر کم اور شہروں میں دکانوں اور اداروں پر زیادہ چھاپے مارتے ہیں۔

عنصر اقبال عرف بھولا گجرات میں جلالپور روڈ پر ایک پیٹرول پمپ پر پنکچر لگانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں نہ کوئی بچہ مزدوری کرتا ہے اور نہ ہی انھوں نے ماضی میں کبھی ایسا کیا ہے لیکن ایک دن جب ان کی دکان بند تھی تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار آئے، وہاں پر موجود ایک آٹھ سالہ بچے سے پوچھا کہ کیا تم یہاں کام کرتے ہو؟ اس نے نہ جانے کیوں ہاں کہہ دیا، اگلے دن پولیس والے مجھے گرفتار کر کے لے گئے۔

"چار دن جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی ملی۔ پتا نہیں اب کتنے عرصے تک عدالتوں کے چکر لگانا پڑیں گے۔"

1996ء کے بعد پاکستان میں قومی چائلڈ لیبر سروے منعقد نہیں کرایا گیا البتہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق اس کے بعد پاکستان میں بچوں میں مزدوری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016ء تک اندازاً پاکستان میں پانچ سے 14 سال کے ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مزدوری کرتے ہیں۔

آئی ایل او کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 سے 17 سال کی عمر کے 13.7 فیصد بچے اور نوعمر افراد کسی نہ کسی طرح کی مزدوری کرتے ہیں اور ان میں سے 5.4 فیصد خطرناک قسم کی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ عام طور پر ان بچوں کو بہت ہی قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بھوک چہروں پر لیے چاند سے پیارے بچے: آجروں کے تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟

پاکستان میں سماجی مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'آواز دو' نے کچھ عرصہ پہلے برٹش کونسل کے تعاون سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مزدوری و مشقت بچوں کی جسمانی صحت، ذہنی بالیدگی اور ان کے مستقبل پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ کام کرنے والے بچے اکثر خطرناک حالات کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ تفریح سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں اور انہیں جنسی زیادتی کا سنگین خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔

گجرات میں بطور ماہر نفسیات کام کرنے والی ڈاکٹر فاطمہ طاہر کہتی ہیں کہ چائلڈ لیبر بہت بڑا ظلم ہے جس سے بچے کا پچپن چھن جاتا ہے اور اس کی ساری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق دکانوں، اڈوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے بیشتر بچوں میں بڑے ہو کر منشیات اور جرائم کی طرف راغب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

پنجاب ڈسٹرکٹ پروفائل سروے رپورٹ 2022ء کے مطابق صوبہ پنجاب میں 10 سے 17 سال کے 13.4  فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 16.6 اور لڑکیوں میں 10.1 فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ضلع گجرات میں بچوں میں مزدوری کی شرح 12 فیصد ہے۔

تاریخ اشاعت 23 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فاروق سہیل عرصہ 30 سال سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں، اور مختلف علاقائی اخبارات کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے حقوق، علاقائی اور سماجی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- رومانہ بشیر

آنند کارج شادی ایکٹ: کیا سکھ برادری کے بنیادی حقوق کو تحفظ مل جائے گا؟

پنجاب: سکھ میرج ایکٹ، آغاز سے نفاذ تک

thumb
سٹوری

"ستھرا پنجاب" کے ورکروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا ذمہ دار کون ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

سندھ: 'سب کچھ ثابت کر سکتے مگر اپنی بیوی کا شوہر ہونا ثابت نہیں کر سکے'

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

نمائندے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں، اقلیت راہ دیکھتی رہتی ہے

سندھ: ہندو میرج ایکٹ تو پاس ہو گیا مگر پنڈتوں کی رجسٹریشن کب ہو گی؟ نکاح نامہ کب تیار ہو گا؟

thumb
سٹوری

آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 4، وسیم نذیر

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 3، طلحہ سعید

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 2، میاں سلطان محمود

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.