رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کی بستی ملھ میں آج کل ہر گھر میں خوف اور پریشانی کا راج ہے۔ اسّی گھروں پر مشتمل اس بستی میں ایک مہینے کے اندر نو بچوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔
ان تمام بچوں کو پہلے نزلہ زکام اور چھینکوں کی شکایت ہوئی، اس کے بعد تیز بخار اور اسہال کی کیفیت رہی جس کے بعد انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ایک ہفتے کے اندر انتقال کر گئے۔ جاں بحق ہونے والے تمام بچوں میں بیماری کی یکساں علامات پائی گئیں۔
یونین کونسل الہ آباد کی یہ بستی الہ آباد خان بیلہ روڈ سے تین کلومیٹر دور موضع رئیس پٹھان کا حصہ ہے۔ یہاں تقریباً 1200 لوگ رہتے ہیں جن میں زیادہ تر چھوٹے کسان، دیہاڑی دار کھیت مزدور اور بعض سرکاری ملازم ہیں۔
بستی کے مکین بتاتے ہیں کہ اب تک ایک سے گیارہ سال تک عمر کے نو بچے جاں بحق ہو چکے ہیں اور 15 سے زیادہ بہاول پور اور رحیم یار خان کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ تاہم محکمہ صحت کا دعویٰ ہے کہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد چھ ہے۔ انتقال کر جانے والوں میں دو گھرانوں کے دو دو بچے بھی شامل ہیں۔
محکمہ صحت نے بستی ملھ میں ایک طبی کیمپ لگایا ہے جہاں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر قاضی میمد یوسف اور ڈاکٹر عبدالرحمان دو شفٹوں میں مریضوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر قاضی یوسف نے بتایا کہ 14 بچوں کے بلڈ سیمپل لئے گئے ہیں اور بستی و ملحقہ آبادیوں کے ایک ہزار سے زیادہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگا دیے گئے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد اقبال رانا کی رائے میں ممکنہ طور پر اس بستی کو خسرے کی وبا کا سامنا ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بستی ملھ کی صورتحال کے پیش نظر ہسپتال میں ہائی الرٹ ہے جہاں بچوں کے لئے ایک وارڈ مختص کر کے وہاں ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے تاہم ابھی تک ہسپتال میں اس بستی کا کوئی بچہ نہیں لایا گیا۔
بستی میں قائم کئے گئے میڈیکل کیمپ کے ڈاکٹر عبدالرحمٰن کی رائے میں بھی ان بچوں کی اموات خسرہ بگڑنے سے ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب حالات کنٹرول میں ہیں اور مزید کسی بچے کی جان کو سنگین خطرہ نہیں ہے۔
بہاولپور کے ڈائریکٹر ہیلتھ اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم نے بھی بستی کا دورہ کر کے صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ رحیم یار خان سے بھی سرویلیئنس افسر موقع پر پہنچے ہیں۔ محکمہ صحت نے بچوں کی اموات کے بعد ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر غلام شبیر لاکھو کو تبدیل کر دیا ہے۔ ان کے پاس اس عہدے کا اضافی چارج تھا۔
بستی ملھ میں بیشتر بچے غذائی قلت کا شکار اور لاغر ہونے کی وجہ سے بیماریوں کا آسان ہدف ہیں۔غربت عام ہونے، تعلیم کی کمی اور خاندانی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی کے باعث بچوں کی صحت کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا۔ یہ حالات اس بستی سے ہی مخصوص نہیں بلکہ گردونواح کے دیگر علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔
ملک بھر میں جاری ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے قومی پروگرام اس علاقے میں چھ سال سے بند پڑا ہے۔یہاں کوئی لیڈی ہیلتھ ورکر تعینات نہیں جو گھر گھر جا کر ماں اور بچے کی صحت بارے آگاہی دے سکے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو فوری طور پر نیشنل ہیلتھ پروگرام میں شامل کیا جائے اور بستی و قرب و جوار کے نحیف و کمزور بچوں میں غذائیت کی کمی دور کرنے کی ہنگامی مہم شروع کی جائے۔
ڈاکٹر منیر اقبال بولان میڈیکل میں بطور سینئیر کنسلٹنٹ کام کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کووڈ 19 کے دو تین سالوں میں بہت سے بچوں کی سالانہ ویکسین نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ان بچوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کم ہوگئی۔
"خسرہ ایک متعدی مرض ہے اور اس کے دانے پانچ روز تک ظاہر نہیں ہوتے۔ والدین بچوں کو بخار، نزلہ اور چھینکوں کے علاج کے لیے عام ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عطائیوں کے پاس چلے جاتے ہیں جو ان کو اینٹی بائیوٹک اور دیگر دوائیں دے دیتے ہیں جس سے بچے کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ اگر شروع میں درست تشخیص ہو تو بچے کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
"والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہونے والے عام بخار کو بھی نظر انداز نہ کریں اور فوراً بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
نیشنل پروگرام تحصیل لیاقت پور کی ایک لیڈی ہیلتھ سپروائزر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ "پوری بستی ویکسینیشن کے حوالے سے بہت غیر محتاط اور لاپروا ہے یہاں کے بیشتر لوگ اپنے بچوں کی ویکسینیشن نہیں کرواتے"۔
بستی میں تعینات رہنے والے محکمہ صحت کے ویکسینیٹر محمد ساجد کا کہنا ہے کہ مرنے والے بچوں میں سے صرف دو کی ویکسینیشن ہوئی تھی مگر وہ بھی باقاعدگی سے نہیں ہوئی تھی۔
"اگر والدین کو سمجھانے اور ویکسین کی افادیت بتانے کی کوشش کی جائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں بستی کے لوگوں نے یہاں آنے والے صوبائی سطح کے ایک آفیسر سے بھی بدکلامی کی تھی"۔
یہ بھی پڑھیں
سپائنا بائیفڈا: نوزائیدہ بچوں کی یہ جان لیوا بیماری رحیم یار خان کے دیہات میں کیوں بڑھ رہی ہے؟
ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس لیاقت پور میں تعینات اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ (حفاظتی ٹیکہ جات) نذیر رحمانی بتاتے ہیں کہ دو سال قبل 9 ماہ سے 10 سال کے بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کی مہم چلائی گئی تھی اس دوران تحصیل بھر کی طرح اس بستی میں بھی ٹیمیں بھیجی گئیں۔ مگر بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔
مگر بستی ملھ اور گردونواح کے لوگ کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں بچوں کی ویکسینیشن کے لیے صرف ایک ویکسینیٹر تعینات ہے جو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے مسجد میں اعلان کروا کر کسی جگہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس لیے بیشتر لوگ اپنے بچوں کو ٹیکے لگوانے نہیں لاتے۔
نذیر رحمانی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویکسین متعلقہ بیماری کے مقابلے میں قوت مدافعت بڑھاتی تو ہے تاہم یہ اس بیماری کے لاحق ہونے کے امکانات کو کم تو کر دیتی ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کر دیتی۔
تاریخ اشاعت 18 مئی 2023