وسط ستمبر 2022 کی ایک دوپہر کو 23 سالہ گُل محمد کی آنکھیں گرمی کی وجہ سے پوری نہیں کھل رہیں۔ ان کا جسم پسینے میں بھیگا ہوا ہے اور وہ ایک کچے کمرے میں بیٹھے ہیں جو موسم کی حدت سے تپ رہا ہے۔ ان کے لباس پر سیاہ راکھ کی ایک ہلکی تہہ جمی ہے۔ ایسی ہی راکھ ان کے کمرے کی بیرونی دیواروں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک قریبی شاہراہ سے ان کے کمرے تک آنے والے راستے پر کئی طرح کی لکڑیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اس راستے کے اختتام پر مٹی سے بنے پانچ بڑے گنبد موجود ہیں جن کے نچلے حصوں میں سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ ان سوراخوں سے مسلسل دھواں نکل رہا ہے جس سے کسی چیز کے جلنے کی ناگوار بو آ رہی ہے۔
یہ دھواں چھوڑتے گنبد پنجاب کے مغربی شہر لیہ سے 20 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہیں اور مقامی قصبے چوک اعظم کو جانے والی شاہراہ سے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل یہ ایسی بھٹیاں ہیں جن میں لکڑی سے کوئلہ تیار کیا جاتا ہے۔
گُل محمد کوئلہ بنانے کے اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ان بھٹیوں میں لکڑی کو اس انداز میں جلایا جاتا ہے کہ وہ راکھ میں تبدیل نہ ہو۔ اس کے بعد جلی ہوئی لکڑی کو ٹھنڈا کر کے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیے جاتے ہیں۔ اس طرح بنایا جانے والا کوئلہ کھانا پکانے، سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے اور مشینیں وغیرہ چلانے کے کام آتا ہے"۔
اُن کی ہر بھٹی میں ہر آٹھ روز میں چھ ہزار کلو گرام لکڑی سے بارہ سو کلو گرام کوئلہ تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں ایک کلو گرام لکڑی دس روپے میں ملتی ہے جبکہ وہ اس سے بنائے گئے کوئلے کو تقریباً 63 روپے فی کلو گرام کے حساب سے بیچتے ہیں۔ اس طرح ہر بھٹی پر آٹھ روز میں 60 ہزار روپے مالیت کی لکڑی جلا کر وہ 76 ہزار چھ سو روپے کا کوئلہ بناتے ہیں۔ اگر اس کوئلے کی مجموعی قیمت سے لکڑی کی قیمت منہا کر دی جائے تو انہیں اپنی ہر بھٹی سے ہر ہفتے 15 ہزار روپے اور ہر مہینے 60 ہزار چھ سو روپے آمدنی ہوتی ہے۔
اس حساب سے گل محمد کی بھٹیوں پر ایک سال میں 13 لاکھ 68 ہزار سات سو 50 کلو گرام لکڑی جلائی جاتی ہے جس کے حصول کے لیے 17 ایکڑ پر پھیلا ایک ایسا جنگل چاہیے جس کے ہر ایکڑ سے 80 ہزار پانچ سو کلوگرام لکڑی پیدا ہوتی ہو۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تمام لکڑی وہ انفرادی طور پر درخت اگانے والوں، مقامی زمینداروں اور لکڑی کے تاجروں سے خریدتے ہیں۔
ضلع لیہ کے علاقے کروڑ لعل عیسن میں ایک بھٹی پر کام کرنے والے ایک شخص کا اسی بنا پر کہنا ہے کہ "اس علاقے میں درختوں اور لکڑیوں کی خریدوفروخت ایک عام کاروبار ہے"۔
چوکیدار یا چور؟
چوک اعظم کے رہنے والے 33 سالہ صحافی ناصر حیات دعویٰ کرتے ہیں کہ لیہ میں کوئلہ بنانے والی تقریباً ایک ہزار بھٹیاں ہیں جن میں سے بیشتر حکومت کے زیرانتظام جنگلات سے چوری کی گئی لکڑی استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے استعمال کر کے بھٹی مالکان زیادہ منافع کما سکتے ہیں کیونکہ یہ اُس لکڑی کی نسبت بہت سستی پڑتی ہے جو وہ انفرادی طور پر لکڑی بیچنے والوں سے یا منڈی سے خریدتے ہیں۔
لیکن ناصر حیات کا کہنا ہے کہ ان جنگلوں کی حفاظت پر مامور سرکاری حکام کی مدد کے بغیر کوئی وہاں سے لکڑی چوری نہیں کر سکتا۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان حکام اور لکڑی چوروں کا گٹھ جوڑ اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ اگر لکڑی چوروں کے خلاف مقدمہ درج بھی ہو جائے تو یہ حکام انہیں قانونی کارروائی سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے مطابق "ایسی صورتحال میں اگر ایک ہزار درختوں کی چوری کا معاملہ ہو تو ان کی تعداد دو سو ظاہر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لکڑی چور معمولی جرمانہ ادا کر کے سزا سے بچ نکلتے ہیں"۔
یہ الزام کم از کم جزوی طور پر ضرور درست دکھائی دیتا ہے کیونکہ لیہ میں متعین پنجاب کے محکمہ جنگلات کے حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے زیرنگرانی جنگلات سے لکڑی واقعی چرائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف 22-2021 میں چرائی جانے والی لکڑی کی مالیت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی۔ اگرچہ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہوں نے اس سال لکڑی چوری کے پانچ سو 37 مقدمات درج کرائے ہیں تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ چوری شدہ لکڑی کا ایک کلوگرام بھی واپس نہیں لے سکے۔
لیہ میں پڑھانے والے کالج کے استاد اور تحفظ ماحول کے کارکن مہر ظہور عالم اس ضمن میں سرکاری حکام کی پیدا کردہ ایک رکاوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "بعض اوقات ضلعی انتظامیہ جنگل کی لکڑی چرا کر کوئلہ بنانے والے کچھ بھٹی مالکان کو حراست میں بھی لے لیتی ہے لیکن انہیں معمولی جرمانے کی ادائیگی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ جرمانہ اتنا ناکافی ہوتا ہے کہ اس سے انہیں یہی جرم دوبارہ کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی"۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بھٹی مالکان کو بعض مقامی سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مقامی پختون برادری کے سرکردہ ارکان ہونے کی بنا پر اِن مالکان کا اِس برادری کے اندر خاصا اثرورسوخ حاصل ہے۔ اگرچہ وہ اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے لیکن 2017 میں ہونے والی تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ضلع لیہ میں 41 ہزار آٹھ سو 28 پشتو بولنے والے ضرور موجود ہیں جو 18 لاکھ 23 ہزار نو سو 95 نفوس پر مشتمل اس کی کل آبادی کا 2.3 فیصد ہیں۔
کوئلہ بنانے والی بھٹیوں اور جنگلات سے لکڑی کی چوری میں پائے جانے والے گہرے ربط کے بارے میں کچھ اور شواہد بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی بھٹیاں جنگلوں کے قریب قائم کی جاتی ہیں تاکہ ان میں جلانے کے لیے لکڑی آسانی سے چوری کی جا سکے۔
اگرچہ 2013 سے محکمہ جنگلات پنجاب نے سرکاری جنگلوں کے اردگرد آٹھ کلومیٹر کے دائرے میں کوئلے کی بھٹیاں قائم کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس پابندی کا عملی اطلاق کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کروڑ لعل عیسن کے رہنے ولے 22 سالہ طالب علم نوید بلوچ اس کی کھلی خلاف ورزی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "لیہ میں سبھی جانتے ہیں کہ اس ضلعے کے ہر حصے میں جنگلات کے بالکل قریب ایسی کئی بھٹیاں واقع ہیں"۔
کروڑ لعل عیسن کے قریب ہی ایک گاؤں میں سنگترے بیچنے والے 40 سالہ محمد اسلم کا اس صورتِ حال کے بارے میں کہنا ہے کہ اس علاقے میں نہروں کے کنارے ہر آبادی میں 60 ایکڑ رقبے پر جنگل ہوا کرتے تھے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں یہ رقبے جنگلوں سے خالی ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق "یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مقامی لوگوں اور متعلقہ سرکاری حکام نے کوئلہ بنانے کی بھٹیاں چلانے والوں کو لکڑی کے غیرقانونی استعمال کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے"۔
دوسری جانب لیہ میں متعین تحفظ ماحول کے افسر محمد ارشد چغتائی کا دعویٰ ہے کہ ان کا محکمہ جنگلات کی لکڑی کی چوری روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم کوئلے کی بھٹیوں میں استعمال ہونے والی تمام لکڑی کی خریداری کی رسیدیں باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور جو شخص سرکاری لکڑی چوری کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے''۔
لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ بھیو راکھ
زمین کا درجہ حرارت بڑھانے والی گیسوں کے اخراج میں اضافے کی روک تھام کے لیے چلائے جانے والے اقوام متحدہ کے پروگرام، یو این آر ای ڈی ڈی+، نے افریقہ کے ملک زیمبیا میں درختوں کی کٹائی اور جنگلات کے رقبے میں کمی کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کوئلے کی تیاری ترقی پذیر ممالک میں درختوں کے کاٹے جانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے انکشاف کیا ہے کہ "دنیا بھر میں جنگلوں سے کاٹی جانے والی تقریباً 50 فیصد لکڑی ایندھن کے طور پر یا کوئلہ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے"۔
ایف اے او کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئلہ بنانے کے لیے لکڑی کا استعمال منفی موسمیاتی تبدیلیوں میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق "لکڑی کے بےدریغ کٹاؤ اور اس سے کوئلے کی تیاری کے نتیجے میں جنگلوں کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے جو ان کے انحطاط کا ایک بڑا سبب بن رہا ہے"۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں دنیا کے موسم میں آنے والی غیرمعمولی تبدیلیوں کے پیچھے بھی یہی وجہ کارفرما ہے۔
ضلع لیہ میں آفات سے بچاؤ کے محکمے میں کام کرنے والے محمد جنید کا کہنا ہے کہ لکڑی سے کوئلہ بنانے کے عمل کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے انہی منفی اثرات کے باعث حکومت نے یہاں کوئلے کی بھٹیوں پر مکمل پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "گزشتہ برس ہم نے بہت سی چلتی بھٹیوں پر پانی ڈال کر انہیں غیرفعال بھی کیا تھا"۔
محمد ارشد چغتائی بھی اسی طرح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 20-2019 میں ان کے محکمے نے بھی ایک سو 25 ایسی بھٹیوں کو منہدم کیا تھا جو کروڑ لعل عیسن میں سرکاری جنگلوں کے قریب بنائی گئی تھیں۔
تاہم گُل محمد ایسی کسی پابندی سے آگاہ نہیں۔ اس کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ ''ان بھٹیوں کو موسم سرما میں صرف اس وقت عارضی طور پر بند کیا جاتا ہے جب اس علاقے کی فضا میں دھول اور دھوئیں سے لیس دھند، یعنی سموگ، چھائی ہوتی ہے"۔
لیہ شہر سے باہر واقع پانچ بھٹیوں کے مالک نصیر خان کہتے ہیں کہ وہ موسم سرما میں بھی انہیں بند نہیں کرتے۔ تاہم وہ ہر وقت فکرمند رہتے ہیں کہ سرکاری حکام کہیں چھاپہ مار کر انہیں منہدم ہی نہ کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ 16 ستمبر 2022 کی صبح جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ کچھ اجنبی لوگ ان کی بھٹیوں پر آئے ہیں تو وہ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر تیزی سے موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے عمل کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "مجھے اپنے بچوں کے لیے روزی کمانا ہے اسی لیے اس کاروبار کے بند ہو جانے کا تصور ہی میرے لیے بہت ہولناک ہے"۔
تاریخ اشاعت 22 اکتوبر 2022