قلعہ عبداللہ اور چمن میں فاتح کون ہو گا اچکزئی خاندان، اے این پی یا جے یو آئی ؟

postImg

حضرت علی

postImg

قلعہ عبداللہ اور چمن میں فاتح کون ہو گا اچکزئی خاندان، اے این پی یا جے یو آئی ؟

حضرت علی

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ میں آٹھ فروری کو ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں پر الیکشن ہو گا۔

ضلع قلعہ عبداللہ اور چمن کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی مشترکہ نشست برقرار ہے جس کو این اے 266 قلعہ عبداللہ- کم- چمن کا نام دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی ترتیب کے لحاظ سے قومی اسمبلی کے اس آخری حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں ووٹوں کی کل تعداد تین لاکھ 57 ہزار 834 ہے جن میں دو لاکھ 30 ہزار 306 مرد اور ایک لاکھ 27 ہزار 528 خاتون ووٹرز ہیں۔

2018ء کے عام انتخابات میں اس نشست پر جے یو آئی کے مرکزی رہنما مولانا صلاح الدین ایوبی منتخب ہوئے اور  اے این پی کے اصغر خان اچکزئی رنر اپ تھے پشتونخوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی تیسری پوزیشن پر آئے تھے۔

 اب اس نشست پر 20 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پشتونخوا میپ کے محمود خان اچکزئی، جے یو آئی کے مولانا صلاح الدین ایوبی، اے این پی کے محیب خان کاکڑ اور پیپلز پارٹی کے نظر محمد کاکڑ نمایاں ہیں۔

صحافت سے وابستہ چمن کے رہائشی عمران اچکزئی بتاتے ہیں کہ ضلع قلعہ عبداللہ اور چمن میں پانچ بڑے قبائل آباد ہیں جن میں اچکزئی، کاکڑ، نورزئی، سید اور ترین شامل ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق اچکزئی قبیلے کی آبادی لگ بھگ 50 فیصد، کاکڑ 25 اور نورزئی 10  فیصد ہوں گے۔اس کے بعد سید اور ترین قابل ذکر آبادیاں ہیں اندازے کے مطابق سادات ترین برادری سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ دو تین فیصد دیگر قبائل اور برادریاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ قلعہ عبداللہ میں اچکزئی قبیلے کی دو بڑی شاخیں، کوجن اور بادین آباد ہیں جبکہ ضلع چمن میں صرف کوجن رہتے ہیں جن کی ذیلی شاخوں میں عشیزئی، ملیزئی، حمیدزئی، نصرت زئی وغیرہ شامل ہیں۔ اس حلقے میں سب سے مضبوط امیدوار محمود خان کا تعلق اچکزئی کی ذیلی شاخ کوجن حمیدزئی سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قلعہ عبداللہ میں حمیدزئی شاخ کے رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے اور پی میپ پرانی سیاسی جماعت بھی ہے جس میں مختلف قبائل کے لوگ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس بار حمیدزئی قبیلے سے کوئی اور امیدوار نہ ہونے کا محمود خان کو فائدہ ہو گا۔

عمران اچکزئی کے مطابق محمود خان کے مقابلے میں چمن سے مولانا صلاح الدین ایوبی بھی مضبوط امیدوار ہیں جن کا تعلق اچکزئی کی نصرت زئی شاخ سے ہے۔ نصرت زئی قبیلے کے 12 ہزار ووٹ ہیں۔ تاہم مولانا کا انحصار قبیلے پر نہیں بلکہ مذہبی ووٹ اور پارٹی پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں تیسرے اہم امیدوار قلعہ عبداللہ سے اے این پی کے محیب اللہ کاکڑ ہیں جو قبیلے پر نہیں بلکہ پارٹی پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ کاکڑ قبیلہ یہاں مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہے۔

انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بلال احمد بتاتے ہیں کہ اس حلقے سے محمود خان اچکزئی تین بار منتخب ہو چکے ہیں۔ پچھلی بار یہاں سے صلاح الدین ایوبی جیت گئے تھے جبکہ اے این پی کے امیدوار دوسرے نمبر آئے تھے۔ اس بار یہاں تینوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ گا۔

2018ء میں چمن ضلع الگ نہیں ہوا تھا اور اس وقت یہاں تین صوبائی نشستیں تھیں جن میں سے قلعہ عبداللہ کی نشست پر اے این پی کے انجنیئر زمرک خان، قلعہ عبداللہ چمن کی مشترکہ نشست پر جے یو آئی کے محمد نواز اور چمن سے اے این پی کے اصغر خان اچکزئی منتخب ہوئے تھے۔
چمن کے ضلع بننے کے بعد نئی حلقہ بندی میں قلعہ عبداللہ اور چمن دونوں اضلاع کے حصے میں ایک ایک صوبائی نشست آئی ہے۔

قلعہ عبداللہ کی صوبائی نشست پی بی 50 میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 63 ہزار 753 ہے جن میں ایک لاکھ چار ہزار161 مرد اور 59 ہزار 592 خاتون ووٹرز ہیں۔

اس حلقے سے اے این پی کے انجنئیر زمرک خان اچکزئی مسلسل تین بار الیکشن جیت چکے ہیں۔ پچھلی بار جے یو آئی کے مولانا محمد حنیف دوسرے اور بی اے پی کے امیدوار تیسرے نمبر پر تھے۔

اب اس نشست پر 23 امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں جن میں اے این پی کے زمرک خان اچکزئی اور جے یو آئی کے حاجی نواز خان کاکڑ کے علاوہ پشتونخوا میپ کے میر وائس خان اچکزئی بھی شامل ہیں۔

میر وائس اچکزئی کا تعلق حمیدزئی قبیلے سے ہے اور وہ محمود خان اچکزئی کے بھتیجے ہیں جنہیں قبیلے کے ساتھ پارٹی کی بھی سپورٹ حاصل ہے۔ مدمقابل انجنئیر زمرک اچکزئی کا تعلق بادین علیزئی سے ہے اور انہیں بادین شمشوزئی، بادین کاکوزئی کے علاوہ کاکڑ سید اور ترین قبائل کے لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

عمران اچکزئی کا خیال ہے کہ فائنل ریس میر وائس اچکزئی اور انجنئیر زمرک خان کے درمیان ہو گی لیکن اس بار یہاں زمرک خان کے دو کزن بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نئی حلقہ بندیاں: بلوچستان کا ضلع چمن کیوں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہا؟

 پی بی 51 چمن میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 94 ہزار 81 ہے جن میں ایک لاکھ 26 ہزار145 مرد اور 67 ہزار 936 خاتون ووٹرز ہیں۔

اس نشست پر 29 امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں اے این پی کے اصغر خان اچکزئی، پشتونخوا میپ کی اباسین خان اچکزئی، بلوچستان عوامی پارٹی کے کپیٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی، جے یو آئی کے غوث اللہ اچکزئی اور پیپلز پارٹی کے اکبر خان اچکزئی نمایاں ہیں۔

قلعہ عبداللہ کے برعکس چمن میں اچکزئی کوجن کی تین شاخیں آباد ہیں جن میں عشیزئی، نصرت زئی اور ملیزئی شامل ہیں۔ پچھلی بار یہاں سے اصغر خان اچکزئی کامیاب ہوئے تھے تاہم اب کی بار اس حلقے میں زبردست مقابلہ متوقع ہے۔

اصغر خان کے عشیزئی قبیلے کے چمن میں 20 ہزار ووٹ ہیں جو چمن شہر کی آبادی کا 37 فیصد ہیں۔ انہیں اپنے قبیلے اور دیگر قبائل سے بھی ووٹ پڑتے ہیں لیکن اس بار اس حلقے میں ان کا مقابلہ دیگر کے علاوہ اپنے بھائی اکبر خان سے بھی ہے جو پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔

یہاں دوسرے مضبوط امیدوار اباسین خان اچکزئی (حمید زئی) ہیں جو سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی کے صاحبزادے اور محمود خان اچکزئی کے بھتیجے ہیں۔

اسی طرح جے یو آئی امیدوار غوث اللہ کا قبیلہ اچکزئی ملیزئی چمن شہر کا 32 فیصد بنتا ہے تاہم ان کا انحصار قبیلے پر کم اور پارٹی پر زیادہ ہو گا جبکہ عبدالخالق کا بھروسا اپنے قبیلے اچکزئی نصرت زئی پر ہے جو شہر کی آبادی کا 20 فیصد بنتا ہے۔

ڈاکٹر حامد خان کزئی نے یہاں کئی بڑے کام کرائے تھے جبکہ اصغر خان کے کریڈٹ پر بھی چمن کو الگ ضلع بنوانے کے علاوہ کئی ترقیاتی کام ہیں۔ اس لیے اصغر خان اچکزئی اور اباسین خان اچکزئی کے درمیان زبردست مقابلہ متوقع ہے۔

بلال احمد کا خیال ہے کہ کہ اگر مزید سیاسی جوڑ توڑ نہ ہوا تو چمن سے اب تک سابقہ ایم پی اے اصغر خان آگے ہیں اور قلعہ عبداللہ میں سخت مقابلے کے باوجود میر وائس خان کی پوزیشن مستحکم ہے۔

تاریخ اشاعت 26 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حضرت علی عطار کا تعلق بلوچستان کے ضلع چمن سے ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے مختلف نیوز ایجنسز اور پاکستان کے بڑے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.