پاکستان میں صنعتیں کلین انرجی پر چلانا کیوں مشکل ہے؟

postImg

نعیم احمد

postImg

پاکستان میں صنعتیں کلین انرجی پر چلانا کیوں مشکل ہے؟

نعیم احمد

پاکستان میں ہوزری کے سب سے بڑے صنعتی ادارے 'انٹرلوپ لمٹیڈ' کا آغاز 1992ء میں فیصل آباد سے 10 نٹنگ مشینوں کے ساتھ ہوا تھا جس کے اب 30 ہزار سے زائد ورکر کئی ممالک میں مختلف نوعیت کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

 یہ ادارہ دنیا بھر میں اپنے کاروباری شراکت داروں کے لیے ہوزری (جرابیں، موزے، بنیان، لیگنگ، زیر جامے وغیرہ)، ڈینم (موٹا سوتی کپڑا، جینز وغیرہ)، اپیرل (ملبوسات)، ایکٹو وئیر (کھیلوں یا ایکسر سائز کے دوران استعمال ہونے والا لباس) جیسی ٹیکسٹائل مصنوعات اور یارن (سوتی دھاگا) تیار کرتا ہے۔

پاکستان کے ٹاپ ٹین ٹیکس پیئرز میں شامل اس ادارے کے زیر انتظام سات پروڈکشن یونٹس کام کر رہے ہیں جن میں سے پانچ فیصل آباد، ایک لاہور اور ایک سری لنکا میں قائم کیا گیا ہے۔ ان یونٹس میں چھ ہزار سے زیادہ نٹنگ مشینیں اور سپننگ کے 46 ہزار 704 سپنڈلز لگائے گئے ہیں۔

انٹرلوپ مجموعی طور پر سالانہ 85 کروڑ جوڑے جرابیں، 75 لاکھ ڈینم گارمنٹس، ساڑھے چار کروڑ اپیرل، 40 لاکھ ایکٹووئیر گارمنٹس اور 14 ہزار 515 ٹن (32 ملین پاؤنڈ) یارن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس ادارے نے پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کرنے کے ساتھ توانائی کی بڑھتی لاگت اور ایندھن کی دستیابی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے لگ بھگ ایک دہائی قبل ہی شمسی توانائی کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

چیف ایگزیکٹیو افسر انٹرلوپ لمٹیڈ، نوید فاضل بتاتے ہیں کہ ان کی تیار کردہ زیادہ تر مصنوعات عالمی برانڈز، ریٹیلرز اور دنیا بھر میں قائم مخصوص سٹورز کو فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ہوزری، ڈینم، اپیرل اور نٹنگ کی صنعت کیلیے معیاری دھاگا بھی ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انٹر لوپ نے ڈینم گارمنٹس کے لیے ایک اور یونٹ بھی لگایا ہے جس کی تکمیل گزشتہ سال ہونا تھی تاہم یورپ اور پاکستان میں کساد بازاری کے باعث اس پراجیکٹ پر عمل درآمد عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اب نئے یونٹ کی تکمیل سے ڈینم کی ماہانہ پیداوار ایک کروڑ گارمنٹس ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرلوپ نے گرین انرجی میں پہلا سنگ میل 2015ء میں 40.8 کلو واٹ کے سولر سسٹم کی تنصیب کے ساتھ عبور کیا تھا۔ تاہم اب یہ انسٹالڈ کیپسٹی 12.6 میگاواٹ سے بڑھ چکی ہے جسے 26-2025ء میں 25 میگاواٹ تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

نوید فاضل بتاتے ہیں کہ ان کا ادارہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کی اس پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے لیے سائنس بیسڈ ٹارگٹ انشیٹو کے تحت اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔

"یہ اہداف تازہ ترین موسمیاتی سائنس پر مبنی ہیں جن کے تحت انٹرلوپ نے جون 2032ء تک گرین ہاؤس گیسز سکوپ ون اور ٹو کے تحت ادارے سے کاربن کے براہ راست اور بلواسطہ اخراج  کو 51 فیصد اور سکوپ تھری  کے تحت خام مال یا سپلائی سے اخراج کو 30 فیصد کم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔"

واضح رہے کہ سائنس بیسڈ ٹارگٹ انشیٹو(ایس بی ٹی آئی) صنعتی اداروں کو اہداف مقرر کرنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے جو پیرس معاہدے کے اہداف سے ہم آہنگ ہیں اور ان اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف بامعنی اقدامات کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

ایس بی ٹی آئی، کاربن ڈسکلوزر پراجیکٹ، اقوام متحدہ گلوبل کمپیکٹ (یو این جی سی)، ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے اشتراک سے کام کرتا ہے۔

صنعتی شعبے میں انٹرلوپ کے قائدانہ کردار پر اس کے چیئرمین، مصدق ذوالقرنین کو رواں سال حکومت پاکستان نے ملک کا تیسرا سب سے بڑے سول اعزاز 'ستارہ امتیاز' دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ادارے نے پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کلین انرجی پر سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

"کاربن کے اخراج میں کمی کے وعدوں کی تکمیل ہماری ترجیح ہے جس کے لیے ہم اپنے ویلیو چین پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ طویل مدتی کاروباری شراکت کو یقینی بناتے ہوئے صنعت کو ڈی کاربنائز کیا جا سکے۔"

وہ کہتے ہیں کہ انٹرلوپ میں کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو اپنایا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت سولر انرجی پر انحصار کے علاوہ بجلی کی پیداوار کے لیے بائیوماس کو بڑھا کر کوئلے کا استعمال مکمل ختم کیا جائے گا۔

 "توانائی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ہم نے فنشنگ اور یارن سٹورز میں موشن سینسرز، سکشن بلورز اور ائیر ہینڈلنگ یونٹس پر انورٹرز لگانے کے علاوہ کولنگ ٹاورز کی آٹومیشن جیسے اقدامات کیے ہیں۔"

مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ انٹرلوپ نے پچھلے سال کے دوران بائیو ماس کے ذریعے مجموعی طور پر کاربن کے اخراج میں 12 ہزار 712 ٹن کمی کی ہے جو 2022ء میں کی جانے والی چار ہزار 965 ٹن کمی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

"ہم انٹرلوپ اپیرل پارک میں دو بائیو ماس بوائلر ( لکڑی سے جلنے والے)  لگا رہے ہیں جن میں سے ہر ایک کی کھپت ساڑھے 27 ٹن فی گھنٹہ ہے۔ اس سے کاربن کے اخراج میں سالانہ 50 ہزار ٹن سے زیادہ کمی ہو گی۔"

چیئرمین انٹرلوپ لمیٹڈ کے مطابق ٹیکسٹائل کے خام مال کی پیداوار (کاٹن کی کاشت) کاربن کے اخراج کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے انہوں نے کھیت سے براہ راست کپاس لینے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

پنجاب میں کاٹن کی کاشت میں زمین کی تیاری سے بوائی، آبپاشی ، گوڈی، چنائی اور ٹرانسپورٹیشن تک کے لیے مشینری،ایندھن، کھادیں، ہربی سائیڈز (جڑی بوٹی مار دوا) اور کیڑے مار دوائیں استعمال ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان سب کاموں پر جو انرجی (توانائی) خرچ ہوتی ہے اس سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہوتا ہے۔

جرنل آف سعودی سوسائٹی برائے ایگریکلچر کی تحقیقاتی رپورٹ  کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کل 58 ہزار 374 میگا جول فی ہیکٹر توانائی استعمال (ان پٹ) کی گئی جبکہ حاصل ہونے والی توانائی (آؤٹ پٹ انرجی) کا اندازہ 33 ہزار 134 میگا جول فی ہیکٹر لگا یا گیا۔

اس رپورٹ کے مطابق تقریباً ڈھائی ایکڑ اراضی سے ایک ہزار 928 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج شمار کیا گیا۔

تحقیق کار کہتے ہیں کہ کاٹن کی کاشت میں توانائی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 34 ہزار 883 میگا جول فی ہیکٹر تھی۔ سفارشات پر عمل کیا جائے تو 22 فیصد سے زیادہ توانائی (ان پٹ ) کو بچایا جا سکتا ہے جس سے گرین ہاؤس گیس کا اخراج اتنا ہی کم ہو گا۔

مصدق ذوالقرنین بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں انٹرلوپ آرگینک کاٹن پراجیکٹ کے تحت کسانوں کو پانچ ہزار ایکڑ پر 'آئی سی-2 سرٹیفیکیشن' کی حامل (نامیاتی) کپاس کی پیداوارکے لیے مدد دی جا رہی ہے۔ 2025ء تک یہ کاشت 10 ہزار ایکڑ تک بڑھائی جائے گی جس سے دو ہزار کسانوں کو فائدہ ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ انٹرلوپ ایسے صنعتی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے جو ملک میں سماجی اور ماحولیاتی کارکردگی کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترتا ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں کوئی انڈسٹری مکمل طور قابل تجدید توانائی پر منتقل نہیں ہو سکتی ہے جس کی بڑی وجہ ریگولیٹری مسائل ہیں۔

"ہمارے پاس 12 میگاواٹ سولر بجلی پیدا کرنے کی استعداد ہے لیکن درحقیقت یہاں سے تین میگاواٹ بجلی ہی حاصل ہوتی ہے جبکہ ہماری مجموعی ضرورت 30 سے 35 میگاواٹ ہے۔ یعنی ہم اپنی ضرورت کا ایک چھوٹا حصہ سولر انرجی سے پورا کر پا رہے ہیں۔"

چیئرمین کے مطابق انٹرلوپ میں بجلی اور بھاپ بنانے کے لیے گیس، ڈیزل اور فرنس آئل استعمال ہوتا ہے جبکہ باقی ضرورت لیسکو اور فیسکو سے بجلی خرید کر پوری کی جاتی ہے۔

"پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باوجود ہم نے توانائی کی کھپت کم کی ہے۔ ہم نئی ٹیکنالوجی، کلین انرجی اور موثر آپریشنل مینجمنٹ کے ذریعے توانائی کی کھپت کو مزید کم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بقا سولر انرجی پر منتقل ہونے میں ہی ہے

 ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انڈسٹری لگانے والے کو اس کے لیے بجلی، گیس، توانائی کے متبادل ذرائع اورسٹینڈ بائی انرجی ارینجمنٹ بھی خود کرنا پڑتا ہے۔ صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور اس کا ریٹرن 50فیصد تک کم ہو چکا ہے۔
"ماضی میں ویلیو ایڈڈ انڈسٹری کم از کم دوگنا ٹرن اوور حاصل کر لیتی تھی لیکن اب نئی فیکٹریوں کے لیے مہنگی زمین کی خریداری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ گارمنٹس کی تیاری میں ہائی ٹیک الیکٹرانک مشینری کا استعمال لازمی ہو گیا ہے جو بہت مہنگی ہے۔"

انٹرلوپ لمیٹڈ  پاکستان، سری لنکا اور چین میں اپنی مصنوعات کی تیاری کے ساتھ امریکا، نیدرلینڈ، جاپان اور چین میں اپنی سروسز فراہم کر رہی ہے جہاں نائیکے، ایڈیڈاس، ٹارگٹ، پوما، ہیوگو باس، ایچ اینڈ ایم، لیویز، گیس جینز جیسے بڑے عالمی برانڈ ان کے گاہک ہیں۔

مصدق ذوالقرنین نے بتایا کہ عالمی ریٹیل برانڈز کو براہ راست برآمدات بڑھانے کے لیے انڈسٹری میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے، سیوریج کا نظام بہتر کرنے، گیس اور پانی کی ترسیل، بجلی کی پیداوار اور متبادل ایندھن پر بیک اپ پاور یونٹس پر اضافی سرمایہ کاری کرنا پڑ رہی ہے جس کے لیے حکومت کو آگے آنا چاہیے۔

"ماحولیاتی، سماجی اور گورننس (ای ایس جی) پر مبنی ایجنڈا کے تحت عالمی برانڈز یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ ان کے سپلائر زیرو کاربن اخراج کے طریقے اپنائیں جس میں انرجی ایفیشینسی کی بہتری اور سولر توانائی کی پیداوار بھی شامل ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز عالمی برانڈز کو سپلائی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ان اقدامات کو فوری اپنانے کی ضرورت ہے۔

"ہم نے عالمی معیارات کو پورا کر کے پاکستان میں ایک ایسا کاروباری ماڈل فراہم کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر دیگر صنعتی ادارے بھی پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔"

مصدق ذوالقرنین نےاس عہد کو دہرایا کہ انٹرلوپ نے جون 2026ء تک اپنا ٹرن اوور 700 ملین ڈالر تک لانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جس کے بعد کمپنی اگلے پانچ سال میں اپنا برانڈ لانچ کرنے اور آن لائن سیلز کی طرف جائے گی۔

تاریخ اشاعت 13 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

اٹک خورد، دریائے سندھ ہر سال درجنوں افراد کو نگل جاتا ہے ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceندیم حیدر

تھر پارکر سے کوئلہ تو نکل آئے گا لیکن پانی ختم ہو جائے گا

تتلیوں کا گھر: شہد کی مکھیوں کی کالونی

مردوں کا باتیں کرنا آسان: عورتوں کا بائیک چلانا مشکل

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلی، شہد کی پیداور اور مگس بان خواتین کے روزگار کو کیسے تباہ کر رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

تھانوں، کچہریوں میں ڈیوٹی کرتی خواتین پولیس اہلکار اپنے شیرخوار بچوں کے لیے کیا سہولت چاہتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

مرد کے لیےطلاق آسان لیکن عورت کے لیےخلع مشکل کیوں ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر
thumb
سٹوری

بھنبھور: ہاتھی دانت کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد فیصل
thumb
سٹوری

وادی سندھ کی قدیم تہذیب کی خوش خوراکی: 'وہ لوگ گوشت کھاتے اور دودھ سے بنی اشیا استعمال کرتے تھے'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد فیصل
thumb
سٹوری

میدان جنگ میں عید: ایک وزیرستانی کا عید کے لیے اپنے گھر جانے کا سفرنامہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

بلوچستان: عالمی مقابلے کے لیے منتخب باکسر سبزی منڈی میں مزدوری کر رہا ہے

thumb
سٹوری

پاکستان میں صنعتیں کلین انرجی پر چلانا کیوں مشکل ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.