پنجاب کے محکمہ تحفظِ ماحولیات کے لاہور میں واقع مرکزی دفتر میں کام کرنے والے اہل کاروں کو معلوم ہی نہیں کہ پاکستان کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی اور ماحول دشمن گیسں کہاں سے خارج ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسے کوئی ذرائع یا آلات نہیِں ہیں جن کی مدد سے وہ اس کے اخراج کی وجوہات کا کھوج لگا سکیں اور فضا میں اس کی مقدار جانچ سکیں۔
دوسری طرف ماحول دوست توانائی اور صاف ہوا پر کام کرنے والے ایک یورپی ادارے، سینٹر فار ریسرچ آن کلین انرجی اینڈ ائیر (سی آر ای اے)، نے 30 جولائی 2021 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 20-2019 میں پاکستان کی فضا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہر دس یونٹوں میں سے نو کوئلے، قدرتی گیس اور تیل کے استعمال سے پیدا ہوئے جبکہ ان نو یونٹوں میں سے 8.1 صرف کوئلے کے استعمال کا نتیجہ تھے۔
اگرچہ سرکاری سطح پر ایسے کوئی اعداد و شمار اکٹھے نہیں کیے جاتے جن سے پتہ چل سکے کہ پاکستانی معیشت کا کون سا حصہ کتنا کوئلہ استعمال کرتا ہے لیکن عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کوئلے کے سب سے بڑی مقدار بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم سی آر ای اے کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ 20-2019 میں کوئلے کے استعمال سے پیدا ہونے والی تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا صرف 15 فیصد بجلی بنانے والے کارخانوں سے خارج ہوا جبکہ اس کا 45 فیصد سیمنٹ بنانے والی فیکٹریاں خارج کر رہی تھیں۔
سی آر ای اے کے محققین نے یہ اعداد و شمار مختلف صنعتی اداروں کی شائع کردہ ماہانہ رپورٹوں اور بِجلی کے شعبے کے نگران ریاستی ادارے، نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، کے سالانہ جائزوں سے اخذ کیے ہیں کیونکہ کسی ایک سرکاری محکمے کے پاس اس حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات موجود ہی نہیں۔
پنجاب کے محکمہ تحفظِ ماحولیات میں ان معلومات کی عدم موجودگی بہت عیاں ہے۔ اگرچہ اس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمران میو کہتے ہیں کہ ایک سیمنٹ فیکٹری کے قیام سے پہلے ان کا محکمہ اس کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرتا ہے جس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سے خارج ہونے والا دھواں اور پانی آلودگی کا باعث نہ بنیں لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ محکمے کو یہ معلوم نہیں کہ سیمنٹ فیکٹریوں میں استعمال ہونے والا کوئلہ کس قدر آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ درحقیقت یہ محکمہ فیکٹری مالکان سے پوچھتا ہی نہیں کہ وہ کتنا کوئلہ استعمال کرتے ہیں اور اس کے استعمال کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
عمران میو کے مطابق یہ سوالات نہ پوچھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب ایک سیمنٹ فیکٹری کام شروع کر دیتی ہے تو اس سے پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام صرف انہی کے محکمے کا کام نہیں بلکہ محکمہ معدنیات پنجاب اور صوبائی وزارتِ صنعت کی بھی ذمہ داری ہے۔ تاہم محکمہ معدنیات کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ ان کے "محکمے کے پاس بھی ایسی کوئی معلومات یا اعداد و شمار نہیں ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ سیمنٹ فیکٹریوں میں کتنا کوئلہ کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے"۔
سیمنٹ بنانے والے کارخانوں میں کوئلہ دراصل دو مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک چونے کے پتھر (CaCO3) کو آگ کے ذریعے پگھلا کر ذرات (clinker) میں تبدیل کرنا ہے اور دوسرا مشینری کو چلانے کے لیے بجلی پیدا کرنا ہے۔
اگرچہ ان دونوں عملوں کے دوران کوئلے کے جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے لیکن انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) نامی بین الحکومتی ادارے کے مطابق کوئلے سے بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی میں حالیہ برسوں میں بہت بہتری آئی ہے جس کے باعث اس کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کافی کم ہو گیا ہے۔ لیکن کلنکر بنانے میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ابھی بھی ماضی کی طرح شدید ماحول دشمن ہے۔ اس لیے سیمنٹ کے کارخانوں سے خارج ہونے والی تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 60 فیصد حصہ اسی عمل کے دوران پیدا ہوتا ہے۔
سیمنٹ کی صنعت میں کوئلے کا استعمال
انیسویں صدی کے نصف آخر میں سیمنٹ کی ایجاد کے بعد سے ہی اس کی پیداوار میں کوئلہ استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیمنٹ بنانے والی فیکٹریاں 1950 کی دہائی کے وسط میں اس کے بجائے گیس اور تیل کو بطور ایندھن استعمال کرنے لگی تھیں۔ سیمنٹ کی صنعت میں نئی ٹیکنالوجی اور کاروبار کے نئے طریقوں پر تحقیق کرنے والے جریدے انٹرنیشنل سیمنٹ ریویو کے مطابق 1955 اور 1970 کے درمیان زیادہ تر سیمنٹ فیکٹریاں فرنس آئل کو بطور ایندھن استعمال کر رہی تھیں۔ اس عرصے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریاں مقامی طور پر پائی جانے والی قدرتی گیس استعمال کرنے لگی تھیں کیونکہ اس کی قیمت فرنس آئل کی نسبت بہت کم تھی۔
1974 میں جب عرب ممالک نے مغربی دنیا کو تیل بیچنا بند کر دیا تو فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا اور دنیا کے بیشتر علاقوں میں سیمنٹ کی فیکٹریاں دوبارہ کوئلہ استعمال کرنے لگیں۔ تاہم پاکستان کی زیادہ تر سیمنٹ فیکٹریاں اس دوران بھی قدرتی گیس ہی استعمال کرتی رہیں۔
رورل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ نامی غیر سرکاری ادارے میں توانائی کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں اور پالیسیوں پر تحقیق کرنے والی محقق ہنیا اسعاد کا کہنا ہے کہ ایک حتمی دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی کے باوجود بھی ایسی شہادتیں موجود ہیں جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ "پاکستان میں سیمنٹ کی صنعت نے 02-2001 میں قدرتی گیس کی بجائے کوئلے کو بطور ایندھن استعمال کرنا شروع کیا تھا"۔ ان کے مطابق اس تبدیلی کی وجہ اس زمانے میں قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تھیں۔
ڈان اخبار میں 7 اکتوبر 2002 کو چھپنے والا ایک اداریہ ان کی بات کی تائید کرتا ہے۔ اس کے مطابق "2001 میں قدرتی گیس اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں موجود سیمنٹ فیکٹریوں نے تیزی سے کوئلے کو بطور ایندھن اپنانا شروع کیا"۔
لیکن حکومت نے اس تبدیلی کے مضر اثرات کا تدارک کرنے کے لیے کوئی انتظامات نہ کیے۔ ہنیا اسعاد کہتی ہیں کہ حکومت نے سیمنٹ فیکٹریوں میں کوئلے کے استعمال سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ماحولیاتی اثرات کو چانچنے کے لیے نہ تو کوئی آلات خریدے اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی کی۔
زین مولوی بھی ان سے متفق ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور آلٹرنیٹو لا کلیکٹو نامی غیر سرکاری ادارے سے منسلک ہیں۔ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے قواعد و ضوابط پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جو سیمنٹ کی پیداوار سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اور اس کے مضر اثرات کو ایک خاص حد سے نہیں بڑھنے دیتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "کچھ ممالک میں صنعتی اداروں پر ٹیکس لگا کر بھی اس گیس کے اخراج کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں"۔
پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
زین مولوی کہتے ہیں کہ یہاں نہ صرف کوئلے کے استعمال سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کوئلے کے جلنے سے بننے والی راکھ سے پھیلنے والی آلودگی کی روک تھام اور اس کو جانچنے کےلیے کوئی قانون یا طریقہ کار موجود نہیں ہے بلکہ ایسے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جن سے صنعتی سرگرمیوں میں کوئلے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
ماحول دشمن صنعت کو دی جانے والی حکومتی مراعات
کچھ سیمنٹ کمپنیاں نہ صرف سیمنٹ بنانے کے لیے کوئلہ استعمال کر رہی ہیں بلکہ وہ اس سے بجلی بنا کر حکومت کو فروخت بھی کر رہی ہیں۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق اس وقت میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کوئلے سے چلنے والا 40 میگا واٹ بجلی کا پلانٹ اور ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری میں کوئلے سے چلنے والا 30 میگا واٹ بجلی کا پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ جبکہ کوہاٹ سیمنٹ فیکٹری میں کوئلے سے چلنے والا 25 میگا واٹ کا پلانٹ زیر تعمیر ہے۔
اب جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کر دیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی عالمی کوششوں میں حصہ ڈالنے کے لیے پاکستان کوئلے کی مدد سے بجلی بنانے کے کسی نئے منصوبے کا آغاز نہیں کرے گا تو کیا سیمنٹ کی فیکٹریوں میں کوئلے کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام کے لیے بھی کچھ اقدامات کیے جائیں گے؟
نعمان داور بٹ کہتے ہیں کہ اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ سی آر ای اے کی رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں اور فضائی آلودگی پر باقاعدگی سے تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے حکومت سیمنٹ کی صنعت اور تعمیراتی شعبے کو مختلف ٹیکسوں میں چھوٹ اور نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت 30 ارب روپے کی براہِ راست مالی امداد دے رہی ہے جس سے کوئلے کا استعمال کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس نامی حکومتی ادارے کے شائع کردہ اعداد و شمار سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سیمنٹ کی صنعت میں کوئلے کا استعمال ہر سال بڑھ رہا ہے۔ اس ادارے کے مطابق مالی سال 2020 میں سیمنٹ فیکٹریوں نے اس سے پچھلے سال کی نسبت پانچ فیصد زیادہ کوئلہ درآمد کیا۔
اسی طرح انٹرنیشنل سیمنٹ ریویو کا کہنا ہے کہ 2020 میں تعمیراتی شعبے کو دی گئی حکومتی مراعات کے اعلان کے بعد محکمہ معدنیات پنجاب نے نہ صرف کوئلے کی نئی کانیں کھودنے پر پانچ سال سے عائد پابندی ختم کر دی ہے بلکہ سیمنٹ کی صنعت کو کوئلے سمیت خام مال کی کان کنی کے لیے مزید مراعات دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ریویو کا دعویٰ ہے کہ ان مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے 26 درخواستیں اس وقت محکمے میں زیر غور ہیں۔
انہی مراعات کی وجہ سے آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے رواں برس مئی میں اعلان کیا کہ آئندہ چند برس میں پاکستان کی سیمنٹ کی سالانہ پیداوار 69 ملین ٹن سے بڑھا کر 99 ملین ٹن کر دی جائے گی۔
نعمان داور بٹ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "کوئلے کی کان کنی میں اضافہ، سیمنٹ فیکٹریوں میں کوئلے سے چلنے والی مشینری کی مزید تنصیب اور بیرونی ممالک سے منگوائے جانے والے کوئلے کی بڑھتی ہوئی مقدار اس بات کا ثبوت ہیں کہ مستقبل قریب میں کوئلے کے استعمال سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سیمنٹ کے کارخانوں کا حصہ مزید بڑھ جائے گا"۔
انہی عوامل کی بنیاد پر ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مجموعی مقدار میں بھی شدید اضافہ ہو جائے گا۔
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے استاد اور ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں باقاعدگی سے تحقیق کرنے والے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر سانول نسیم کو اس صورتِ حال کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان کو کئی طرح کی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں موسموں میں غیر متوقع اتار چڑھاؤ، گرمی کی شدت میں میں ریکارڈ اضافہ اور بے وقت بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "اگر اس حوالے سے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو ان تبدیلیوں کے نہ صرف پاکستانی معیشت بلکہ اس کی آبادی اور قدرتی ذرائع پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے"۔
تاریخ اشاعت 9 ستمبر 2021