مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی: گلگت کی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی ہراس کا سامنا۔

postImg

عروج اورنگزیب

postImg

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی: گلگت کی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی ہراس کا سامنا۔

عروج اورنگزیب

نومبر 2020 کے دوسرے ہفتے میں گلگت میں قائم قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنے وائس چانسلر کو خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے سکالرشپ افیئرز آفس کے ایک مرد اہل کار نے انہیں نا مناسب طریقے سے چھوا ہے اور جنسی طور پر ہراساں بھی کیا ہے۔  

خط لکھنے والی طالبہ شعبہ معاشیات میں پڑھتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ اپنی بہن کے یونیورسٹی میں داخلے کے سلسلے میں سکالرشپ افیئرز آفس گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہراساں کیے جانے پر اس قدر دہشت زدہ ہو گئیں کہ ہراساں کرنے والے مرد کو فوری طور پر کچھ بھی نہ کہہ سکیں

بلکہ اس کے بجائے روتے ہوئے یونیورسٹی میں ہی موجود اپنے بھائی کے پاس چلی گئیں۔

بعد ازاں اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر انہوں نے وائس چانسلر کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے خط میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ہراساں کرنے والے اہل کار کو یونیورسٹی سے نکالا جائے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر خط بھیجنے کے بعد انہیں کسی منفی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ہوگی۔

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ انتظامیہ کے کمروں میں کیمرے کیوں نہیں لگائے جاتے حالانکہ یونیورسٹی میں باقی ہر جگہ طلبا کی نگرانی کے لیے کیمرے موجود ہیں۔ ان کیمروں کی غیر موجودگی میں، ان کے بقول، اگر کوئی یونیورسٹی اہل کار اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر طالبات کو ہراساں کرے تو وہ اس کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتیں۔ 

خط کے بھیجے جانے کے اگلے ہی روز یونیورسٹی کیمپس میں موجود طلبا نے بڑی تعداد میں جمع ہو کر اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ طالبہ کو ہراساں کرنے والے اہل کار کے خلاف فوری طور پر انتظامی اور قانونی کارروائی کی جائے تا کہ مستقبل کے لئے ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

احتجاج کرنے والی بہت سی اور طالبات کو بھی سکالرشپ افئیرز آفس کے اسی اہل کار کے بارے میں شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا رویہ خواتین کے ساتھ عام طور پر نازیبا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس معاملے سے بذریعہ ای میل آگاہ کر چکی ہیں اگرچہ ان کی شکایات پر کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

کئی دیگر طالبات نے بھی دورانِ احتجاج کہا کہ انہیں بھی یونیورسٹی کی اندر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے لیکن وہ اس خوف سے خاموش رہی ہیں کہ اس کے بارے میں بات کرنے پر کہیں انہیں ایسی بدنامی کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کے نتیجے میں انہیں پڑھائی چھوڑنے پر ہی مجبور نہ ہونا پڑے۔ 

اسی یونیورسٹی کے ایک مرد طالب علم، محمد نوید* ، کا کہنا ہے کہ احتجاج سے پہلے ان سمیت کئی  طلبا وائس چانسلر سے ملے جنہوں نے انہیں یونیورسٹی کی جنسی خوف و ہراس کے بارے میں بنائی گئی کمیٹی سے رجوع کرنے کا کہا۔ لیکن جب طلبا اس کمیٹی کے ممبران سے ملے تو وہ خود الجھن کا شکار تھے کہ وہ اس معاملے میں کیا کارروائی کر سکتے ہیں لہٰذا وہ طلبہ سے پوچھنے لگے کہ آیا اس معاملے کی تحقیق اور تفتیش ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد کے تحت کی جائے یا ملزم کے خلاف کوئی عدالتی مقدمہ چلایا جائے۔ 

کمیٹی کی یہ الجھن حیران کن معلوم ہوتی ہے کیونکہ کام کی جگہوں پر جنسی خوف و ہراس کو روکنے کے لئے 2010 میں بنائے گئے ایک قانون کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس طرح کے معاملات میں باقاعدہ قواعد بنا رکھے ہیں جن میں ہر یونیورسٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ جنسی خوف و ہراس کی شکایتوں کو سننے اور ان کا ازالہ کرنے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی بنائے گی جس کے پاس تحقیق، تفتیش اور سزا متعین کرنے کے تمام اختیارات موجود ہوں۔ اس کمیٹی کے ارکان میں کم از کم ایک خاتون کا ہونا بھی لازمی ہے۔

ان ضوابط کی موجودگی کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہ اٹھائے جانے کا فوری نتیجہ، محمد نوید کے بقول، یہ نکلا کہ کچھ بیرونی عناصر – جنہیں یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کی حمایت بھی حاصل تھی – منگل ہی کے روز یونیورسٹی میں گھس آئے اور احتجاج کرنے والے طلبہ پر پِل پڑے۔ ان کے حملے کے نتیجے میں متاثرہ طالبہ کے ایک کزن شدید زخمی ہو گئے۔

اس مار پیٹ کے ردِ عمل کے طور پر دو احتجاجی طلبا نے اسی روز ہراساں کرنے کے ملزم اہل کار کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس تمام ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں یونیورسٹی تین روز کے لیے بند کر دی گئی۔

اسی دوران کچھ طلبا نے گلگت پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے سکالرشپ افیئرز آفس کے اہل کار پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر جلد از جلد کارروائی کرے تا کہ ملزم اپنے اوپر لگائے گئے الزام کو غلط ثابت کر کے با عزت زندگی گزار سکے۔

محمد نوید کا کہنا ہے کہ اہل کار کے حامی افراد معاملے کو ایک شیعہ-سنی اختلاف کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اصل مسئلے سے دھیان ہٹایا جا سکے۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ متاثرہ طالبہ کی تصویر اور دوسری ذاتی معلومات پچھلے چند روز سے سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں جس کی وجہ سے ان پر ہر طرح کی تنقید کی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں بنائی گئی متعدد سوشل میڈیا پوسٹس میں سے ایک میں طالبہ کی تصویر کے ساتھ  لکھا گیا ہے کہ 'یہ وہ جھوٹی ۔۔۔ لڑکی ہے جس نے KIU میں ایک ایماندار افسر پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے اس لڑکی کے خلاف کاروائی کریں۔ بصورت دیگر گلگت کے حالات کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہو گی'۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ترجمان میر تعظیم اختر اس سارے قضیے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس معاملے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بنائے گئے ضابطوں کے تحت کاروائی کر رہی ہے اور الزام ثابت ہونے یا نہ ثابت ہونے کی صورت میں مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ایسے طلبا اس معاملے کو ہوا دے رہے ہیں جنہیں فیسوں کی ادائیگی اور دیگر تعلیمی وجوہات کی بنا پر یونیورسٹی کی طرف سے تادیبی کارروائی کا سامنا ہے۔ وہ ایسے طلبا کو اپنی تعلیم پر دھیان دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ایسے عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچنا چاہئے جو پاکستان اور گلگت بلتستان کے دشمن ہیں۔ اگرچہ وہ ان دشمنوں کی نشاندہی نہیں کرتے لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ اس پورے معاملے کو جنسی خوف و ہراس کی ایک ذاتی شکایت کے بجائے کسی گروہی یا فرقہ وارانہ اختلاف کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔ 

ایک نہیں، دو نہیں، بیسیوں شکایات

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں 11 نومبر 2020 کو ایک طلبہ تنظیم نے طالبات کو پیش آنے والے جنسی خوف و ہراس کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں مختلف مقامی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔

احتجاج کے شرکا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا طالبات کو جنسی خوف و ہراس سے محفوظ رکھنے کے لئے اس ضمن میں بنائے گئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جنسی ہراس کے زیرِ التوا کیسوں پر کارروائی کو تیز کیا جائے۔

ان میں سے ایک اہم کیس میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ یہ معاملہ ایک سال سے چل رہا ہے مگر اس پر ابھی تک کوئی عملی قدم منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔ اسی طرح احتجاج سے دو روز قبل یونیورسٹی انتطامیہ کو بتایا گیا کہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے بھی ایک طالبہ کو ہراساں کیا ہے لیکن انتظامیہ نے اس شکایت پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی۔

اس کے برعکس، ایک طالبہ کے بقول، یونیورسٹی کے اساتذہ کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں اساتذہ کے خلاف جنسی خوف و ہراس پیدا کرنے کے الزامات کو ان پر 'حملہ' قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک استاد پر 'حملے' کو تمام اساتذہ پر 'حملہ' تصور کیا جائے گا۔

یونیورسٹی طالبات محض ان اساتذہ کی طرف سے ہی دباؤ کا شکار نہیں بلکہ، ان کے مطابق، زیادہ تر لڑکیاں اس معاملے پر اس لئے آواز نہیں اٹھاتیں کیونکہ انہیں یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کے علاوہ اپنے خاندان اور گلی محلے کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ ایک طالبہ کا کہنا ہے: 'اس طرح کے واقعات پر چپ سادھ لینا ہی اس پدر شاہانہ معاشرے میں مناسب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اگر کوئی لڑکی آواز اٹھائے بھی تو اسے فکر رہتی ہے کہ کہیں اس کے گھر والے اس کی پڑھائی نہ بند کر دیں'۔

تاہم طالبات کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں جنسی خوف و ہراس کے سلسلے میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے جو طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ کا نقطہ نظر ریکارڈ کرنے کے بعد اپنے نتائج گورنر کو پیش کرے گی۔ شاہ فرمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کے حوالے سے جنسی خوف و ہراس  کی شکایت ان کے شکایات سیل میں بذریعہ کال درج کرائی جا سکتی ہے۔

قانونی نقطہِ نظر

نوجوان قانون دان حبا اکبر کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے ان قواعد و ضوابط کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جو ہائرایجوکیشن کمیشن نے اس ضمن میں وضع کر رکھے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'اس طرح کی شکایات کو یونیورسٹیاں اپنی عزت اور نام پر حملہ سمجھتی ہے لہٰذا وہ متاثرہ طالبات کو خاموش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں'۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر تعلیمی اداروں میں جنسی خوف و ہراس سے نمٹنے کے لئے کوئی کمیٹی موجود ہی نہیں اور جہاں یہ کمیٹی موجود ہے وہاں اس کے ارکان کو معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے فرائض کیسے ادا کرنے ہیں۔ 'لیکن اس حوالے سے کوئی آگاہی پروگرام یا مہم منعقد کروانا بھی یونیورسٹیاں اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں'۔

٭فرضی نام

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 24 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 18 مئی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.