گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار گرلز بچیکی: پانچ سال بعد بھی بی ایس کی کلاسز شروع نہ ہو سکیں، طالبات کی تعداد 700 سے کم ہو کر 250 تک رہ گئی

postImg

جاوید احمد معاویہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار گرلز بچیکی: پانچ سال بعد بھی بی ایس کی کلاسز شروع نہ ہو سکیں، طالبات کی تعداد 700 سے کم ہو کر 250 تک رہ گئی

جاوید احمد معاویہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

بچیکی ،ضلع ننکانہ صاحب کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ علی اکبر بھی اپنے چار بچوں کاپیٹ، مزدوری کر کے پال رہے ہیں۔

ان کی سب سے بڑی بیٹی آمنہ میٹرک کے بعد ایف ایس سی کرنا چاہتی تھی، لیکن علی اکبر کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی بچی کو کسی نجی کالج میں بھیج سکیں تاہم انہوں نے آمنہ کو بچیکی گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین میں ایف ایس سی سال اول میں داخلہ دلوا دیا۔

آمنہ ایک مہینے تک اسی انتظار میں کالج جاتی رہی کہ کسی دن تو پڑھائی کا آغاز ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، کیونکہ کالج میں سائنس پڑھانے کیلئے اساتذہ ہی موجود نہیں تھیں۔

علی اکبر بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی اس قدر مایوس ہوئی کہ اس نے کالج جانا چھوڑ دیا اور والدین سے کسی نجی کالج میں داخلے کیلئے ضد بھی کی لیکن وہ  نجی کالج کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نتیجتاَ ان کی بیٹی  گھر میں ہی پرائیویٹ ایف اے کی تیاری کر  رہی ہے۔

علی اکبر کا کہنا ہے کہ حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کر  کے کالج تو بنا دیا مگر یہاں سائنس مضامین کے لئے اساتذہ کو تعینات  ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے میری بیٹی کی طرح علاقے کی سیکڑوں بچیاں پریشان ہیں اور وہ اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کرنے پر مجبور  ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بتول نے جولائی 2023ء میں دوسری بار بچیکی گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین کو بطور پرنسپل جوائن کیا،  وہ اس سے پہلے 2019ء سے 2021ء تک اسی کالج میں بطور پرنسپل خدمات سر انجام دی چکی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ 2018ء میں اس کالج کی عمارت کا افتتاح تو کر دیا گیا مگر تب سے اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔

ہم نے  عارضی بنیادوں پر 11 اساتذہ سی ٹی آئی پروگرام (کالج ٹیچنگ انٹرنز)کے تحت  بھرتی کئے۔ جس کے نتیجے میں  2021-22ء  کے سیشن میں طالبات کی تعداد 700 تک پہنچ گئی، لیکن تعلیمی سال 2023ء میں یہ تعداد کم ہو کر 250 طالبات تک پہنچ چکی ہے۔

کالج میں بی ایس سی کی کلاسز شروع کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت کالج میں منظور شدہ 19سیٹوں میں سے صرف 8 اساتذہ موجود ہیں جن میں ایک بھی سائنس ٹیچر نہیں ہے۔

سی ٹی آئی  پروگرام کے تحت  حکومت پنجاب کا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، ایسے کالجز جہاں اساتذہ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو، وہاں عارضی بنیادوں پر اساتذہ کو پانچ ماہ کی عارضی مدت کیلئے بھرتی کرتا ہے ۔ ان اساتذہ کو 45 ہزار ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ تعلیمی سال 2021-22ء کیلئے حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں 1700سی ٹی آئی اساتذہ کو بھرتی کیا تھا۔

بچیکی کالج کے سنیئر کلرک جو کالج کی داخلہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ کالج میں بیشتر مضامین، جیسا کہ  فزکس، کیمسٹری ، بائیولوجی، ریاضی، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن اورلائبری سائنس سمیت آٹھ سیٹیں خالی ہیں جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف کی بھی 6 سیٹیں عرصہ دراز سے خالی ہیں۔

سیماب زہرہ  اسی کالج میں فارسی زبان پڑھاتی ہیں، وہ اس کالج کی پہلی مستقل ٹیچر ہیں جن کا تبادلہ راولپنڈی سے دسمبر 2020 میں یہاں کیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلے ہی زیادہ نمبر حاصل کرنے والی طالبات قریبی شہروں، ننکانہ صاحب، جڑانوالہ اور موڑ کھنڈا کے نجی کالجز میں چلی جاتی ہیں، رہی سہی کسر یہاں اساتذہ کی عدم دستیابی نے پوری کر دی جس کی وجہ سے کالج میں طالبات کی تعداد کم ہوتی گئی۔

مبرہ مقبول بچیکی کالج میں بطور سربراہ برائے سی ٹی آئی کام کرتی رہی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ 2019 میں، مجھ سمیت 11 عارضی اساتذہ نے اس کالج میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا، پہلے ہی سال میں یہاں 430 سے زائد طالبات  نے داخلہ لیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ننکانہ صاحب کے ووکیشنل ٹریننگ ادارے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث بند ہونے لگے

لیکن ایک سال کے بعد ہماری تنخواہیں روک لی گئیں، حتیٰ کہ کچھ عارضی بنیادوں پر کام کرنے والی اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کئے بغیر ہی فارغ کر دیا گیا۔ اگر شروع میں ہی سائنس سمیت تمام مضامین کیلئے مستقل  بنیادوں پر اساتذہ کی تعیناتی کر دی جاتی تو کالج اتنے مسائل کا شکار نہ ہوتا اور آج  یہاں طالبات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہوتی۔

ضلع ننکانہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز پروفیسر ڈاکٹر ملک مختار احمد نے سجا گ کو بتایا کہ  وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بچیکی کالج میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل نہیں کر سکے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بچیکی ایک پسماندہ علاقہ ہے، ننکانہ صاحب کے قرب و جوار کے اضلاع جیسا کہ  فیصل آباد اور شیخوپورہ  سے یہاں تعینات ہونے والی اساتذہ موقع ملتے ہی اپنے علاقوں میں تبادلہ کروا لیتی ہیں۔ مقامی اساتذہ کی تعیناتی تک اس مسئلے کا مستقل حل مشکل ہی نظر آتا ہے۔

تاریخ اشاعت 23 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جاوید احمد معاویہ کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے۔ عرصہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.