بچیکی ،ضلع ننکانہ صاحب کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ علی اکبر بھی اپنے چار بچوں کاپیٹ، مزدوری کر کے پال رہے ہیں۔
ان کی سب سے بڑی بیٹی آمنہ میٹرک کے بعد ایف ایس سی کرنا چاہتی تھی، لیکن علی اکبر کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی بچی کو کسی نجی کالج میں بھیج سکیں تاہم انہوں نے آمنہ کو بچیکی گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین میں ایف ایس سی سال اول میں داخلہ دلوا دیا۔
آمنہ ایک مہینے تک اسی انتظار میں کالج جاتی رہی کہ کسی دن تو پڑھائی کا آغاز ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، کیونکہ کالج میں سائنس پڑھانے کیلئے اساتذہ ہی موجود نہیں تھیں۔
علی اکبر بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی اس قدر مایوس ہوئی کہ اس نے کالج جانا چھوڑ دیا اور والدین سے کسی نجی کالج میں داخلے کیلئے ضد بھی کی لیکن وہ نجی کالج کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نتیجتاَ ان کی بیٹی گھر میں ہی پرائیویٹ ایف اے کی تیاری کر رہی ہے۔
علی اکبر کا کہنا ہے کہ حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کر کے کالج تو بنا دیا مگر یہاں سائنس مضامین کے لئے اساتذہ کو تعینات ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے میری بیٹی کی طرح علاقے کی سیکڑوں بچیاں پریشان ہیں اور وہ اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بتول نے جولائی 2023ء میں دوسری بار بچیکی گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین کو بطور پرنسپل جوائن کیا، وہ اس سے پہلے 2019ء سے 2021ء تک اسی کالج میں بطور پرنسپل خدمات سر انجام دی چکی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ 2018ء میں اس کالج کی عمارت کا افتتاح تو کر دیا گیا مگر تب سے اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔
ہم نے عارضی بنیادوں پر 11 اساتذہ سی ٹی آئی پروگرام (کالج ٹیچنگ انٹرنز)کے تحت بھرتی کئے۔ جس کے نتیجے میں 2021-22ء کے سیشن میں طالبات کی تعداد 700 تک پہنچ گئی، لیکن تعلیمی سال 2023ء میں یہ تعداد کم ہو کر 250 طالبات تک پہنچ چکی ہے۔
کالج میں بی ایس سی کی کلاسز شروع کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت کالج میں منظور شدہ 19سیٹوں میں سے صرف 8 اساتذہ موجود ہیں جن میں ایک بھی سائنس ٹیچر نہیں ہے۔
سی ٹی آئی پروگرام کے تحت حکومت پنجاب کا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، ایسے کالجز جہاں اساتذہ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو، وہاں عارضی بنیادوں پر اساتذہ کو پانچ ماہ کی عارضی مدت کیلئے بھرتی کرتا ہے ۔ ان اساتذہ کو 45 ہزار ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ تعلیمی سال 2021-22ء کیلئے حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں 1700سی ٹی آئی اساتذہ کو بھرتی کیا تھا۔
بچیکی کالج کے سنیئر کلرک جو کالج کی داخلہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ کالج میں بیشتر مضامین، جیسا کہ فزکس، کیمسٹری ، بائیولوجی، ریاضی، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن اورلائبری سائنس سمیت آٹھ سیٹیں خالی ہیں جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف کی بھی 6 سیٹیں عرصہ دراز سے خالی ہیں۔
سیماب زہرہ اسی کالج میں فارسی زبان پڑھاتی ہیں، وہ اس کالج کی پہلی مستقل ٹیچر ہیں جن کا تبادلہ راولپنڈی سے دسمبر 2020 میں یہاں کیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلے ہی زیادہ نمبر حاصل کرنے والی طالبات قریبی شہروں، ننکانہ صاحب، جڑانوالہ اور موڑ کھنڈا کے نجی کالجز میں چلی جاتی ہیں، رہی سہی کسر یہاں اساتذہ کی عدم دستیابی نے پوری کر دی جس کی وجہ سے کالج میں طالبات کی تعداد کم ہوتی گئی۔
مبرہ مقبول بچیکی کالج میں بطور سربراہ برائے سی ٹی آئی کام کرتی رہی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ 2019 میں، مجھ سمیت 11 عارضی اساتذہ نے اس کالج میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا، پہلے ہی سال میں یہاں 430 سے زائد طالبات نے داخلہ لیا۔
یہ بھی پڑھیں
ننکانہ صاحب کے ووکیشنل ٹریننگ ادارے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث بند ہونے لگے
لیکن ایک سال کے بعد ہماری تنخواہیں روک لی گئیں، حتیٰ کہ کچھ عارضی بنیادوں پر کام کرنے والی اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کئے بغیر ہی فارغ کر دیا گیا۔ اگر شروع میں ہی سائنس سمیت تمام مضامین کیلئے مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی تعیناتی کر دی جاتی تو کالج اتنے مسائل کا شکار نہ ہوتا اور آج یہاں طالبات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہوتی۔
ضلع ننکانہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز پروفیسر ڈاکٹر ملک مختار احمد نے سجا گ کو بتایا کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بچیکی کالج میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل نہیں کر سکے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بچیکی ایک پسماندہ علاقہ ہے، ننکانہ صاحب کے قرب و جوار کے اضلاع جیسا کہ فیصل آباد اور شیخوپورہ سے یہاں تعینات ہونے والی اساتذہ موقع ملتے ہی اپنے علاقوں میں تبادلہ کروا لیتی ہیں۔ مقامی اساتذہ کی تعیناتی تک اس مسئلے کا مستقل حل مشکل ہی نظر آتا ہے۔
تاریخ اشاعت 23 نومبر 2023