موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اور وسائل: کیا امیر ممالک اپنے وعدے پورے کریں گے؟

postImg

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اور وسائل: کیا امیر ممالک اپنے وعدے پورے کریں گے؟

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

دنیا بھر سے حکومتوں کے سربراہ اور نمائندے ان دنوں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں جمع ہیں جہاں وہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی) کے نام سے معروف اس اجتماع کا آغاز 31 اکتوبر کو ہوا تھا اور یہ 12 نومبر تک جاری رہے گا۔ 

یہ اس طرح کا چھبیسواں سالانہ اجلاس ہے اس لیے اسے 'سی او پی 26' کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کے وہ تمام ممالک شرکت کر رہے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی پر بنائے گئے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کا حصہ ہیں۔ اس کا انعقاد بھی اقوام متحدہ نے کرایا ہے۔ 

یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں سخت ترین الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں نے کرہ ارض کو خطرناک حد تک گرم کر دیا ہے اور موسمیاتی تبدیلی اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو اس صدی کے آخر تک زمین انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔  

اس اجلاس کے درجِ ذیل چار بنیادی مقاصد ہیں:

1۔ اس صدی کے نصف یعنی 2050 تک دنیا بھر میں خارج ہونے والی تمام ماحول دشمن کاربن کو فضا سے پاک کرنے کی صلاحیت (نیٹ زیرو) کا حصول اور عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد پار کرنے سے روکنے کے اقدامات اٹھانا۔ 

2۔ دنیا بھر کی انسانی آبادیوں اور قدرتی مساکن کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے مقابلے میں اپنا تحفظ کرنے کے قابل بنانا۔

3۔ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے مالی وسائل مختص کرنا اور اس سلسلے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا، اور 

4۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی میں اتفاق رائے پیدا کرنا اور انہیں مشترکہ اقدامات پر تیار کرنا۔ 
یہ مقاصد کم و بیش وہی ہیں جو 2015 میں موسمیاتی تبدیلی پر پیرس میں ہونے والے عالمی معاہدے میں طے کیے گئے تھے۔ مثال کے طور پر عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد میں رکھنے کا ہدف اسی معاہدے میں ہی طے کیا گیا تھا۔ 

بظاہر اس معاہدے میں وہ سب کچھ موجود ہے جو موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں حکومتوں کو کسی اقدام کا پابند نہیں کیا گیا اور انہیں ایسی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھی گئیں جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

اسی طرح موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا ہدف بھی پورا نہیں کیا گیا۔ یہ ہدف پیرس معاہدے کا بہت اہم نکتہ ہے جس کے تحت دنیا کے ترقی یافتہ/امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے 2020 تک ہر سال 100 ارب ڈالر خرچ کیا کریں گے۔ اس رقم کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو مہیا کیا جانا تھا۔

لیکن اس حوالے سے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2019 میں امیر ممالک نے غریب ممالک کو اس مد میں 79.6 ارب ڈالر دیے تھے جو تاحال ایک سال میں دی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ 2020 کے اعدادوشمار ابھی دستیاب نہیں تاہم ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پچھلے سال بھی یہ ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ خدشہ ہے کورونا کی وجہ سے اس میں پہلے کی نسبت مزید کمی ہو گئی ہو گی۔    

کون کتنے پیسے دے رہا ہے؟

پیرس معاہدے میں یہ طے نہیں پایا تھا کہ 100 ارب ڈالر میں سے کون سا ملک کتنی رقم دے گا۔ اگر مختلف ملکوں کی آبادی، ان کی دولت اور ان کی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے ان گیسوں کے اخراج کو جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی ذمہ دار ہیں مدِنظر رکھا جائے تو اس رقم کا 40 فیصد سے لے کر 47 فیصد امریکہ کو دینا چاہیے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی اور دیگر متعلقہ امور پر اعدادوشمار جاری کرنے والے معروف ادارے ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2016 سے 2018 تک امریکہ نے ہر سال اوسطاً صرف 7.6 ارب ڈالر دیے۔ اسی طرح آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک بھی اپنا ہدف پورا نہ کر سکے۔

اگرچہ جاپان اور فرانس نے اس رقم میں مقررہ حد سے زیادہ حصہ ڈالا ہے لیکن یہ مالی امداد کے بجائے قرضوں کی صورت میں ہے۔ 

عالمی امدادی ادارے آکسفیم کے مطابق ان قرضوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے امیر ملکوں کی طرف سے غریب ممالک کو دی جانے والی رقوم بظاہر جتنی دکھائی دیتی ہے حقیقت میں اس سے کہیں کم ہے کیونکہ ایسی بیشتر رقوم نقد مالی امداد کے بجائے ایسے قرضوں کی صورت میں دی جا رہی ہے جو وصول کنندہ ملک کے مالی بوجھ میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

وصول کنندہ ممالک کا یہ بھی کہنا ہے کہ 100 ارب ڈالر سالانہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ 8 جولائی 2021 کو ایسے ممالک کے وزرائے خزانہ کا ایک آن لائن اجلاس ہوا جس میں کہا گیا کہ امیر ممالک اپنا سابقہ وعدہ پورا نہیں کر سکے اس لیے بہتر ہو گا کہ وہ 2025 تک مجموعی طور پر 500 ارب ڈالر دینے کا عہد کریں اور اس میں زیادہ تر رقم نقد امداد کی صورت میں رکھیں۔

دوسری طرف کچھ امیر ممالک سی او پی 26 سے پہلے ہی یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ آئندہ اپنی اہداف پورے کریں گے۔ مثال کے طور پر اس سال جون میں کینیڈا، جاپان اور جرمنی نے جی-7 ممالک کے اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ 2025 تک ہر سال غریب ممالک کو 100 ارب ڈالر سالانہ کی ترسیل یقینی بنائیں گے۔ اسی سال ستمبر میں یورپی یونین نے 2027 تک ہر سال رقم کی فراہمی کا مقررہ ہدف پورا کرنے کے علاوہ 5 ارب ڈالر اضافی دینے کا وعدہ کیا جبکہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک 2024 تک ہر سال اس مد میں 11.4 ارب ڈالر دے گا۔

سوال یہ ہے کہ سابقہ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا غریب ممالک ان وعدوں پر اعتبار کر لیں گے۔ ماہرین کے مطابق اس کا اندازہ سی او پی 26 میں ہو گا جہاں نہ صرف سابقہ تشنہِ تکمیل وعدوں پر بات ہو گی بلکہ امیر ممالک یہ بھی بتائیں گے کہ وہ 2025 کے بعد اس سلسلے میں کس قدر مالی وسائل بہم پہنچائیں گے۔ 

موسمیاتی اہداف کے حصول میں کون سی رکاوٹیں ہیں؟

موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے طے شدہ اہداف حاصل نہ ہونے کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں تاہم بہت سے ماہرین کے مطابق اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ 'ماحولیاتی انصاف' اب تک ہونے والی بات چیت کا مرکزی نکتہ نہیں بن سکا۔ اس لیے ان کے مطابق سی او پی 26 کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اس میں موسمیاتی نابرابری کے معاملے پر کوئی سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے یا نہیں۔

ابھی تک اس موضوع کو سنجیدگی سے زیرِ بحث نہ لائے جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر ہونے والی عالمی گفت و شنید میں وہی ممالک مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جو خود سب سے زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں مگر اس سے جنم لینے والے نتائج سے نسبتاً بچے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً وہ کرہِ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے معاملے میں زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

اس کے برعکس جو ممالک موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں مگر اس کا باعث بننے والے عوامل کے بہت کم ذمہ دار ہیں وہ اس مسئلے پر ہونے والے عالمی مذاکرات میں اتنے اہم نہیں سمجھے جاتے کیونکہ ان میں سے اکثر معاشی اعتبار سے چھوٹے اور پسماندہ ہیں۔  

اس عدم مساوات پر بات کرتے ہوئے سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں کام کرنے والے موسمیاتی محقق آئزک سٹوڈرڈ کہتے ہیں کہ ''دنیا کی آبادی کا ایک فیصد امیر ترین حصہ کرہ ارض کی نصف آبادی کے مقابلے میں دو گنا زیادہ کاربن خارج کرتا ہے اور 10 فیصد امیر ترین آبادی دنیا بھر میں خارج ہونے والی مجموعی کاربن کے نصف سے زیادہ کی ذمہ دار ہے''۔

آئزک سٹوڈرڈ اور کئی دیگر محققین نے 'ماحول اور وسائل کے سالانہ جائزے' نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دراصل ایک ایسے ماحولیاتی اور سماجی بحران کی محض ایک علامت ہے جس نے ایک غیرمنصفانہ اور ناپائیدار سیاسی اور معاشی نظام سے جنم لیا ہے۔ ان کے مطابق معاشی طاقت اور سیاسی اختیار کا بالادست طبقات کے ہاتھوں میں مرتکز ہونا ہمیں پوری دنیا اور اپنے اپنے معاشروں کو اس انداز میں تبدیل کرنے سے روکتا ہے جس سے ہم کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لا سکتے ہیں۔ 

انڈیا سے تعلق رکھنے والی ماہر ماحولیات انجو شرما بھی ان محققین میں شامل ہیں۔ انہوں نے 1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی پہلی سربراہی کانفرنس میں انڈیا کی نمائندگی بھی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ بالادست طبقات کے طاقت اور اختیار پر قبضے اور ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنانے میں ان کی ناکامی اس بات سے بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ اب اقوام متحدہ کے زیراہتمام اس مسئلے پر بات چیت کرنا پڑ رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کیوٹو میں ہونے والی کانفرنس میں ہی ماحولیاتی عدم مساوات کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور اس ضمن میں انہوں نے نہایت سنجیدہ تجاویز بھی دی تھیں۔ لیکن امریکہ کی جانب سے ان تجاویز کی مخالفت کی جاتی رہی۔ ان کےمطابق ''ہمیں کہا جاتا رہا کہ اگر ہم نے مساوات کی بات کی تو ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری نہیں لیں گے''۔

لیکن ترقی پزیر ممالک کے پرزور اصرار پر بالاخر کانفرنس کے اختتامی ایام میں امریکہ کے اس وقت کے نائب صدر الگور نے ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وہ اپنی ٹیم سےکہیں گے کہ وہ اس معاملے میں لچک دکھائیں۔ انجو شرما کے بقول اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمگیر موسمیاتی مسائل پر لیے جانے والے فیصلے دنیا کی بڑی طاقتوں کی منشا کے تابع ہوتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی بات چیت میں عدم مساوات کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امیر ممالک کی طرف سے ان میں حصہ لینے والے لوگ اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اور انتہائی تجربہ کار ہوتے ہیں جبکہ غریب ممالک کو ایسے لوگ دستیاب نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کوئلے کے صنعتی استعمال سے ماحول دشمن گیسوں کا اخراج: کون سا شعبہ کتنا ذمہ دار ہے؟

مثال کے طور پر کیوٹو کانفرنس میں شامل امریکی وفد میں بہت سے ماہرین موجود تھے۔ انہیں مخصوص مہارتوں کے حامل وکلا اور اقتصادی ماہرین کا ساتھ بھی میسر تھا۔ دوسری طرف انڈیا کی نمائندگی صرف تین لوگوں نے کی جبکہ بہت سے افریقی ممالک کا ایک ایک نمائندہ ہی اس انتہائی تکنیکی نوعیت کی بات چیت کا حصہ بن سکا۔ اس طرح امریکہ اور دیگر امیر ممالک کے غالب کردار کی بدولت متعدد ایسی تجاویز مسترد کر دی گئیں جو ماحولیاتی انصاف سے متعلق بعض سنگین مسائل کو حل کرنے میں معاون ہو سکتی تھیں۔

انجو شرما کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے انڈین حکومت کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ امیر ممالک کے مطالبات کے سامنے مزاحمت کرے اور اس مسئلے پر ترقی پذیر ممالک کا بلاک بنا کر اس کی قیادت کرے۔  تاہم آخر میں امیر ممالک ہی حاوی رہے اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے انڈیا کے وزیر ماحولیات اور وزیراعظم سے براہ راست بات کر کے انہیں اپنے موقف سے دستبردار ہونے کو کہا۔

آئزک سٹوڈرڈ اور انجو شرما جیسے ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی انصاف کے معاملے پر ابتدائی دور میں کوئی پیش رفت ہو جاتی تو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کوئی بامعنی کام کیا جا سکتا تھا۔ کیوٹو اجلاس کو بنیاد بناتے ہوئے یہ ماہرین نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے دنیا بھر کے معاشروں کو مزید جمہوری ہونا پڑے گا۔ ان کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے شہریوں کی اسمبلیوں اور کونسلوں کا قیام بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 

کچھ ممالک میں یہ تجربہ ہو بھی چکا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں 160 عام شہریوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے تجاویز پیش کریں۔ ان شہریوں نے ماحولیاتی مسئلے سے آگاہی رکھنے والے پیشہ ور ماہرین کے ساتھ 12 ملاقاتیں کیں اور ان کے نتیجے میں 84 تفصیلی سفارشات تیار کیں جن میں گوشت اور ڈیری مصنوعات کے استعمال میں کمی لانا اور کوئلے سے توانائی کے حصول کا عمل ختم کرنا شامل ہیں۔

اگرچہ جرمن حکومت ان سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے لیکن اس سے عام لوگوں کی جانب سے حکمرانوں کو ایک واضح پیغام چلا گیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے تیز تر اور موثر اقدامات چاہتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 9 نومبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فیصل صحافی، محقق اور مترجم ہیں اور ملک کے نمایاں اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.