جین مندر اور فرید کوٹ ہاؤس کا تعلق ہماری تاریخ کے ایسے حصے سے ہے جسے ہم تقریباً بھول چکے ہیں۔ فرید کوٹ انڈیا کا حصہ بن چکا ہے اور جین مذہب کے پیروکار ہمارے ہاں سے ختم ہو چکے ہیں۔ لیکن ان دونوں جگہوں کو ملانے والی چھوٹی سی سڑک پر موجود ہر چیز میں آج کے لاہور کی روائتی گہما گہمی ، بدنظمی اور قاعدے قانون سے لاپرواہی اپنی پوری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ موجود ہے ۔
سڑک کے دونوں اطراف جہاں فٹ پاتھ ہونا چاہئے وہاں لا تعداد موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں اور کپڑے سے بنے چھجوں کے نیچے اسٹام فروش ، نمبر پلیٹس بنانے والے اور گاڑیاں رجسٹرڈ کروانے والے درجنوں کی تعداد میں بیٹھے ہیں۔ ان میں سے اکثر آتے جاتے لوگوں کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں: 'گاڑی رجسٹرڈ کروانی ہے؟، ٹوکن لگوانا ہے ؟، گاڑی ٹرانسفر کروانی ہے؟' ۔
سڑک کے اختتام سے ذرا پہلے دائیں جانب ایک دروازہ ہے جس کی دیوار کے ساتھ سبز رنگ کا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے ' ٹاؤٹ و ایجنٹ مافیا سے ہوشیار رہیں'- اس بورڈ کے ساتھ سفید شرٹ اور نیلی جینز میں ملبوس پچیس سال کا ایک نوجوان کھڑا ہے جو لوگوں سے دریافت کر رہا ہے کہ انہیں کیا کام کروانا ہے۔ وہ ہر کسی کو پیش کش کر رہا ہے کہ موٹر سائیکل کی رجسٹریشن منتقل کرانے کے عوض 2500 روپے جبکہ سرکاری دفتر سے اس کے لیے وقت نہ طے ہونے کی صورت میں 5700 روپے لے کر وہ سارا کام خود ہی کروا دے گا۔ اس سے پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک چالیس سالہ شخص کسی گاہک سے گاڑی کی رجسٹریشن کے لئے معاملات طے کر رہا ہے چونکہ گاہک کے پاس ٹیکس ریٹرن موجود نہیں اس لئے وہ اس سے اضافی پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ دروازہ فرید کوٹ ہاؤس میں کھلتا ہے جس کی لال رنگ کی پرانی عمارت میں آج کل پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ماتحت کام کرنے والی موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کا مرکزی دفتر واقع ہے۔
اس عمارت کے اندر داخل ہوں تو آپ خود کو ایک بڑے ہال میں پاتے ہیں جسے سہولت مرکز کا نام دیا گیا ہے یہاں گاڑیوں کی اقسام کے حساب سے کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے لوگوں کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں لگی ہوئی ہیں ۔
ایک کاؤنٹر پر نئی موٹر سائیکل رجسٹریشن اور ٹوکن ٹیکس کی تختی لگی ہوئی ہے۔ اس کے سامنے تین افراد لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک چالیس سالہ شخص کاؤنٹر کے دوسری طرف ایک دفتری کمرے میں بیٹھے نوجوان سے بحث کر رہا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے بڑی مشکل سے دفتر کے آن لائن سسٹم کے ذریعے وقت لیا لیکن جب وہ یہاں پہنچا تو اسے کہا گیا وہ اس کمپنی کا خط لے کر آئے جس سے اس نے موٹر سائیکل خریدی ہے ۔ اب جبکہ وہ خط لے آیا ہے اور ایک بار پھر آن لائن سسٹم کے ذریعے وقت لے کر یہاں پہنچا ہے تو اب اسے کہا جارہا ہے کہ کمپیوٹر سسٹم نہیں چل رہا ۔
لیکن اسی دفتری کمرے میں دوسری طرف سے لوگ داخل ہوتے جا رہے ہیں ان کے پاس فائلیں ہیں ان میں سے ایک شخص کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے نوجوان کو سفید رنگ کی ایک فائل پکڑاتا ہے جسے وہ نوجوان سارے کام روک کر دیکھتا ہے اور اس میں موجود مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے میں لگ جاتا ہے ۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لاہور کے کار ڈیلر سجاد بٹ* کہتے ہیں کہ کاؤنٹر کے بجائے دوسری طرف سے آنے والے لوگ دراصل ایجنٹ ہیں جنہیں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹرانسفر وغیرہ کروانے والے لوگوں نے پیسے دے کر بھیجا ہوا ہے ۔وہ کہتے ہیں 'اگر آپ ایجنٹ کے بغیر دفتر جاتے ہیں تو وہاں آپ کی باری دیر سے آتی ہے' لیکن لوگ اپنا کام جلدی کروانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں گاڑیوں کے کاغذات گم ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ 'جتنے کاغذات کم ہوتے جائیں گے دفتر کے اندر بیٹھے لوگ اتنے پیسے بڑھاتے جائیں گے '۔
2017 میں محکمہ ایکسائز کے اہلکاروں نے حکومتی فیس اور ٹیکس سے بچنے کے لیے دفاعی اداروں کی گاڑیوں کے جعلی نیلام کی رسیدیں بنا کر ان پر مقامی تیار کردہ بسیں اور ٹرک رجسٹرڈ کرا لیے۔ اس وقت پنجاب میں 30 ہزار سے زیادہ بسیں اور ٹرک ایسی ہی جعلی رجسٹریشن پر چل رہے ہیں۔
سجاد بٹ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے دفتر میں ہر قدم پر رشوت طلب کی جاتی ہے اور یہ رشوت ایجنٹوں کے ذریعے ہی محکمے کہ اہل کاروں تک پہنچتی ہے ۔ ' فروخت شدہ گاڑی کی ملکیت منتقل کرانے کے لیے گاڑی کی پرانی فائل ریکارڈ روم سے نکلوانے کے لئے بھی پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے - پہلے اس کام کے لئے دو سو روپے مانگتے تھے جبکہ اب ایک ہزار روپے کا مطالبہ ہوتا ہے' ۔ وہ محکمے کی طرف سے ویب سائٹ اور ڈیجیٹل ایپلی کیشن کے اجرا کو بھی بدعنوانی کا حل قرار نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی سے رشوت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔' دفتر سے وقت لینے کے ڈیجیٹل سسٹم سے کرپشن ڈبل ہو گئی ہے ۔ پہلے ملکیت منتقل کروانے کے لئے اڑھائی سے تین ہزار اضافی دیتے تھے اب پانچ ہزار دے رہے ہیں ۔
فرید کوٹ ہاؤس کے اندر کام کرنے والے عملے اور ایجنٹوں کا یہ گٹھ جوڑ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔
ابوبکر* دو سال سے زائد عرصہ ایکسائز انسپکٹر رہے ہیں لیکن اب وہ ایک دوسرے سرکاری ادارے میں کام کر رہے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ ایجنٹوں نے محکمے کے عملے کے ساتھ زبانی معاہدے کر رکھے ہیں کہ کون ایک ہفتے یا ایک مہینے میں کتنی گاڑیاں رجسٹرڈ یا ٹرانسفر کرا سکے گا اور اس میں کس کو کتنے پیسے ملیں گے ۔ ' اس لئے لوگوں کو ایجنٹوں کے ذریعے کام کروانے پر مجبور کیا جاتا ہے ' ۔
ابو بکر کہتے ہیں کہ موٹروہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کے دفتر میں لوگوں کے سامنے ایسی مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں جن کا حل وہ خود سے کر ہی نہیں پاتے ۔ ' لوگوں کی فائلز پر ایسے ایسے اعتراض لگائے جاتے ہیں کہ وہ تھک کر ایجنٹوں کے پاس جانے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں'۔
ابوبکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایجنٹ دراصل عملے کے فرنٹ مین ہوتے ہیں ۔' اس لئے محکمہ ایجنٹ کو کمزور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ایجنٹ اگر کمزور ہو گا تو محمکہ کے عملے کو رشوت لینے کے لیے خود سامنے آنا پڑے گا جو ان کی ملازمت کے لئے نقصان دہ ہے' ۔
فرید کوٹ ہاؤس لاہورکے باہر واقع ایک کمرشل عمارت میں واقع اپنے دفتر میں بیٹھے چالیس سال سے زائد عمر کے محمد زبیر* کافی عرصے سے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کہ ہم ایجنٹ ہیں مافیا نہیں۔ ' ہم اپنی خدمات کے پیسے لیتے ہیں اور بتا کر لیتے ہیں ۔ اصل مافیا محکمے کے وہ اہلکار ہیں جو عام آدمی سے لیکر ایجنٹ تک سب سے پیسے لیکر کام کرتے ہیں ' ۔
محمد زبیر اپنا اصل نام اس لئے نہیں بتانا چاہتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا نام خبروں میں آنے کی وجہ سے محکمے کے افسران ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں۔
محکمے میں بدعنوانی کی کہانیاں آئے روز سامنے آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر حکومتی خزانے کو مبینہ طور پر اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا ایک سیکنڈل 2017 میں سامنے آیا جب دفاعی اداروں کی طرف سے کی گئی نیلامی کی جعلی رسیدوں کے ذریعے ہزاروں گاڑیاں رجسٹرڈ کرا لی گئیں۔ اس واقعے کی تحقیقات کے بعد پچھلے مہینے پنجاب کے صوبائی محکمہ انسداد رشوت ستانی نےایک مبینہ ایجنٹ خرم گجر اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے تین افسران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ۔
اس مقدمے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر قاری غلام رسول اور ایکسائز انسپکٹر وحید مئیو نے خرم گجر کے ساتھ مل کر دفاعی اداروں کی گاڑیوں کے جعلی نیلام کی رسیدیں بنائیں اور مقامی طور پر تیار کردہ بسیں اور ٹرک اس طرح رجسٹرڈ کروا لیے جیسے وہ دفاعی اداروں سے ہی خریدے گئے ہوں کیونکہ اس طرح ان گاڑیوں پر حکومت کی طرف سے عائد فیس اور ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔
میڈیا میں شائع ہونے والی محکمہ انسداد رشوت ستانی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت صوبے بھر میں اس طرح رجسٹرڈ کئے گئے 30 ہزار سے زائد جعلی بسیں اور ٹرک موجود ہیں ۔
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ڈائریکٹر رانا قمرالحسن سجاد کہتے ہیں کہ ایجنٹوں کی دخل اندازی کو روکنے کے لئے ان کے محکمے نے کافی اقدامات کیے ہیں۔ جن میں سب سے اہم ای پے منٹ ہے۔ ' ہماری سالانہ آمدن کا 40 سے 47 فیصد ٹوکن ٹیکس سے آتا ہے ۔ جولائی میں ہم یہ ٹیکس زیادہ تر نقد رقم کی صورت میں وصول کر رہے تھے لیکن اگست میں ہم نے نقد رقم کی وصولی بالکل ختم کر دی ہے' ۔ ان کے مطابق اب تک پنجاب میں چار لاکھ گاڑی مالکان نے ای پےمنٹ کے ذریعے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی کی ہے ۔
قمر الحسن سجاد یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے دفتر سے وقت لینے کا آن لائن سسٹم کورونا وائرس کی وجہ سے بنایا گیا تھا تا کہ دفتر میں آنے والے لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے کو برقرار رکھا جا سکے لیکن 'ہم نے اس کو جاری رکھا ہوا ہے'۔ اس سسٹم میں ایجنٹوں کی مداخلت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایجنٹوں کا اس میں کوئی کردار نہیں – ' لوگ گھر بیٹھے آن لائن وقت لے سکتے ہیں ان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ رجسٹریشن کے لیے خود آئیں ،وہ اپنا نمائندہ بھی بھیج سکتے ہیں لیکن وقت طے ان کے نام پر ہونا چاہئے ' ۔
ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ' اگر کوئی ایجنٹ یا کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ وہ رجسٹریشن کے عمل کی رفتار کو تیز کر سکتا ہے تو یہ بات غلط ہے۔ ' محکمے کی ویب سائٹ پر رجسٹریشن اور ٹرانسفر کے عمل کے ہر مرحلے کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے بھی اس کا پتا چلا سکتے ہیں ' ۔
لیکن محمد زبیر کہتے ہیں کہ وہ پندرہ سال سے زائد عرصے سے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لئے بطور ایجنٹ کام کر رہے ہیں مگر اس دوران گاڑیوں کی رجسٹریشن کے عمل میں کوئی بہتری نہیں آئی ۔' ٹیکنالوجی کے استعمال کے دعوے اور اقدامات زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ،پہلے بھی آپ کو سرکاری فیس سے زائد پیسے دینے پڑتے تھے اب بھی اس فیس سے زائد پیسے دینے پڑتے ہیں ' ۔
ان کے مطابق محکمےکی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ 2019 کے شروع سے اب تک گاڑیوں کے مالکان کو محکمے کی طرف سے ایک بھی نمبر پلیٹ نہیں ملی۔ ان نمبر پلیٹس کے بارے میں افسران سے پوچھیں تو کبھی جواب ملتا ہے کہ ' امریکہ سے مشینری آ رہی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ نمبر پلیٹس بنانے والی کمپنی کا ٹھیکہ کینسل ہو گیا ہے ' ۔
محکمے کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے ابھی تک تقریبا اٹھارہ لاکھ سے زائد نمبر پلیٹس کا اجراء التواء کا شکار ہے ۔محکمہ پہلے نجی ٹھکیداروں سے نمبر پلیٹس بنواتا تھا ۔ 2006 سے 2019 تک مختلف کمپنیوں کو اس کام کا ٹھیکہ دیا جاتا رہا لیکن چونکہ ان میں سے کسی کا کام بھی تسلی بخش نہیں تھا تو اب حکومت یہ کام اپنے ہی دوسرے ادارے سے کروانے کا سوچ رہی ہے ۔
رانا قمرالحسن سجاد کہتے ہیں کہ نمبر پلیٹس کا اجراء نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے جو طریقہ کار چل رہا تھا اس میں مختلف رکاوٹیں آتی رہیں۔' مختلف مراحل پر نمبر پلیٹس بنانے والی کمپنیوں نے عدالت سے سٹے لیا اور سٹے کے بعد جب نمبر پلیٹس کے اجراء کا دوبارہ آغاز ہونے لگا تو ڈالر کا ریٹ بہت زیادہ بڑھ گیا جس کی وجہ سے اس عمل میں شامل چار کمپنیوں میں سے تین کمپنیاں دستبردار ہو گئیں لہذا محکمے نے یہ سلسلہ وہیں ختم کر دیا ۔ ان کے مطابق محکمے نے حکومت سے خصوصی اجازت لینے کے بعد فوج کے ایک ذیلی ادارے این آر ٹی (نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمونیکیشن کارپوریشن ) سے بات چیت کا آغاز کیا اور اب یہ معاملات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں ۔ اور دس سے بارہ ہفتے میں فزیکل نمبر پلیٹس جاری ہو جائیں گی '۔
٭سجاگ سے بات کرنے والوں کی شناخت اخفا میں رکھنے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفع 3 اکتوبر2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2022