پسماندہ آبادیوں میں ماں کا دودھ میسر نہ آنے سے زچہ بچہ کی صحت اور زندگی کو خطرات

postImg

عریج فاطمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پسماندہ آبادیوں میں ماں کا دودھ میسر نہ آنے سے زچہ بچہ کی صحت اور زندگی کو خطرات

عریج فاطمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

چار بچوں کی ماں سکینہ بی بی کندیاں ریلوے جنکشن کے قریب کچی آبادی میں گزشتہ 10 سال سے مقیم ہیں۔ ان کی عمر 30 سال ہے اور وہ دن بھر اپنے شوہر کے ساتھ کچرا اور کاٹھ کباڑ اکھٹا کرتی ہیں تاکہ اسے بیچ کر کچھ کما سکیں۔ مناسب خوراک نہ ملنے اور کام کی زیادتی سے ان کی صحت دن بدن گر رہی ہے۔

سکینہ کا کہنا ہے کہ چھ ماہ قبل اپنی بچی کی پیدائش سے پہلے ہی وہ خون کی کمی کا شکار تھیں۔ مناسب مقدار میں ماں کا دودھ نہ ملنے سے ان کی بیٹی لاغر ہوتی جا رہی ہے اور اس کا وزن بھی گر رہا ہے۔ سکینہ کے مطابق ان کے ہاں اتنا دودھ نہیں اترتا کہ بچی کا پیٹ بھر سکے۔

ماہرین صحت کے مطابق حاملہ ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش اور دودھ پلانے تک عورت کو مناسب خوراک اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مائیں کمزور ہوں تو نحیف اور لاغر بچے پیدا ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

قومی غذائی سروے 2018ء کے مطابق پاکستان میں ماں بننے کی عمر میں تقریباً ساڑھے 41 فیصد عورتیں انیمیا یا خون کی کمی کا شکار ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ یہ بچے کو متعدی بیماریوں اور انفیکشن سے بچانے کے ساتھ نظام انہظام کو درست رکھتا ہے۔ اس سے دست اور قے سے بچاؤ میں بھی مدد ملتی ہے۔ ادارے کے مطابق چھ ماہ تک کے بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلایا جائے۔

 قومی غذائی سروے کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد مائیں ہی بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں اور صوبہ پنجاب میں یہ شرح سب سے کم ہے۔

غیر سائنسی اور سنی سنائی باتوں کے باعث بھی بعض مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں۔

25 سالہ نوراں بی بی اسی علاقے میں رہتی ہیں جہاں سکینہ کی رہائش ہے۔ پچھلے سال انہیں چھاتی کا سرطان ہوا جس کا انہوں نے آپریشن کروایا ہے۔

نوراں کا کہنا ہے کہ جنوری 2022ء میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ ابتدا میں اسے دودھ پینے میں دقت ہوتی تھی لیکن بعدازاں اس نے ایک چھاتی سے دودھ پینا شروع کر دیا۔ انہیں کسی خاتون نے کہا کہ تمہارا دودھ کڑوا ہے اس لیے بچہ نہیں پیتا۔

نوراں نے بتایا کہ کے بیٹے کی عمر دو ماہ تھی جب انہوں نے خاتون کی بات مانتے ہوئے اسے بھینس کا دودھ دینا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں محسوس ہوا کہ انہیں چھاتی میں سختی محسوس ہوئی اور پھر درد اور بخار رہنے لگا۔ ابتدا میں انہوں نے گھریلو ٹوٹکے استعمال کیے لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔

ستمبر 2022 میں انہوں نے کندیاں کے گھنڈی ہسپتال میں چیک اپ کرایا جہاں سے انہیں میانوالی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ریفر کیا گیا۔ وہاں گائناکالوجسٹ نے بتایا کہ انہیں چھاتی کا کینسر لاحق ہے جو پھیل رہا ہے اور آپریشن کر کے اسے ختم کرنا ہو گا۔

نوراں سمجھتی ہیں کہ اپنا دودھ نہ پلانے کے سبب نہ صرف ان کا بچہ بلکہ وہ خود بھی متاثر ہوئیں۔

اس ہسپتال کی ڈاکٹر آمنہ شفیق کہتی ہیں کہ ان کے پاس کچی آبادیوں سے آنے والی بیشتر خواتین انیمیا یا خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں مناسب خوراک اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا۔ان پر کام کا بوجھ بھی عام عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ بچے کو ٹھیک سے اپنا دودھ پلا سکیں جس کا اثر بچے کی صحت پر پڑتا ہے۔ غذائی قلت کی شکار ایسی بہت سی خواتین زچگی کے دوران انتقال کر جاتی ہیں۔

مسز طاہر کندیاں کے ایک نجی کالج میں پڑھاتی ہیں۔ وہ اپنے نومولود بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہیں اور بعض اوقات نقاہت کے باوجود اس میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مناسب اور متوازن خوراک نہ ملنے سے ماں کا دودھ کم پیدا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'مہنگا علاج ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا': بلوچستان میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی مسیحائی کون کرے گا؟

ڈاکٹر آمنہ شفیق کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دودھ پلانے کے معاملے میں ماں پر مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس عمل کے لیے خاندان کی طرف سے تعاون، ذاتی آرام اور مناسب خوراک کا ہونا لازمی ہے۔

ان کے مطابق مسلسل چھ ماہ تک دودھ پلانے سے رحم کے کینسر کا خطرہ 11 فیصد کم ہو جاتا۔ چھاتی کے سرطان کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ انفیکشن سے بچانے والی ویکیسین اور دیگر پروٹین سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دودھ میں موجود فیٹی ایسڈ بچے کے دماغ کی نشوونما میں بھی مدد دیتے ہیں۔

2 ستمبر کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کندیاں میں بھی 'گلوبل بریسٹ فیڈنگ ویک' منایا گیا۔ اس موقع پر لیڈی ہیلتھ ورکر فرزانہ کوثر نے بتایا کہ بریسٹ فیڈنگ ویک میں عورتوں کو ماں کی صحت اور متوازن غذا کے استعمال اور بچے کو دودھ پلانے کے درست طریقوں سے متعلق آگاہی دی گئی۔ ان کا کہنا تھا پسماندہ علاقوں کی خواتین روایتی جھجھک کے باعث ایسے مسائل میں رہنمائی لینے سے کتراتی اور اپنا مرض چھپاتی ہیں جس سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

تاریخ اشاعت 28 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عریج فاطمہ کا تعلق کندیاں، ضلع میانوالی سے ہے۔ عریج نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ تعلیم، خواتین اور دیہی ترقی ان کے دلچسپی کے شعبے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.