چالیس سالہ گوہر خان کا تعلق بلوچستان کے شمال مشرقی ضلع ژوب سے ہے۔ وہ ایک میڈیکل سٹور چلاتے ہیں۔ ان کی پینتیس سالہ اہلیہ اور پانچ بچوں کی ماں کو تین سال پہلے چھاتی کا سرطان لاحق ہو گیا تھا۔ گوہر خان نے کا کوئٹہ کے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے ان کا علاج کرایا جس کے بعد وہ صحت مند زندگی گزار رہی ہیں۔
گوہر خان کہتے ہیں کہ پشتون اور بلوچ اقوام پر مشمتل بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں چھاتی کے سرطان پر بات کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض منفی معاشرتی رویوں، غفلت اور طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اس بیماری کے چوتھے مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں اس کا علاج نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
"اس غریب صوبے میں طبی سہولیات کا فقدان اور غربت کی انتہا ہے جس کے باعث یہاں خواتین چھاتی میں درد اور تکلیف کو عام بیماری سمجھ لیتی ہیں۔ جب سرطان کی تشخیص ہوجاتی ہے تو ان میں سے بیشتر کے لیے ہسپتال تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی طرح ہسپتال پہنچ بھی جائیں تو مہنگا علاج ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا"۔
کوئٹہ کے علاقے بروری میں قائم صوبے کے واحد کینسر ہسپتال "سینار" میں ناصرف بلوچستان بلکہ سرحد پارسے مریض بھی اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔ بلوچستان کی سرحدیں ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔
سینار پرائیویٹ ہسپتال ہے جہاں تشخیص سے لے کر ٹیسٹ، علاج اور ادویات تک ہر چیز کی قیمت مریضوں سے وصول کی جاتی ہے۔ کینسر کے ایک مریض کے علاج پر 30 سے 70 لاکھ روپے تک خرچہ آتا ہے۔
جو مریض علاج کی سکت نہیں رکھتے انہیں مفت علاج کے لیے محکمہ سوشل ویلیفئر کو درخواست دینا پڑتی ہے مگر یہ اتنا طویل اور پیچیدہ عمل ہے کہ بیشتر صورتوں میں مریض مفت علاج کا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔
کوئٹہ میں صوبے کے واحد کینسر ہسپتال "سینار" میں سرحد پار سے بھی مریض اپنا علاج کرانے آتے ہیں
چالیس سالہ بی بی زہرہ کا تعلق افغانستان کے علاقے نیمروز سے ہے۔ دو سال قبل وہ اپنے شوہر کے ہمراہ افغان صوبے قندھار اور پھر چمن اور کوئٹہ کے راستے 800 کلومیٹر سفر کرکے کراچی پہنچیں جہاں ایک نجی اسپتال میں ان کی دائیں چھاتی میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔کراچی میں ابتدائی علاج سے ان کی تکیلیف کم نہیں ہوئی تو انھوں نے کوئٹہ کا رخ کیا۔ اب وہ گزشتہ 20 ماہ سے کوئٹہ کے سینار ہسپتال سے علاج کرا رہی ہیں اور سفری مشکلات کے باوجود ہر چھ ماہ بعد ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرواتی ہیں۔
بی بی زہرہ کا شمار ان ہزاروں مریضوں میں ہوتا ہے، جو وقتاً فوقتاً اس ہسپتال میں آتے رہتے ہیں۔
بی بی زہرہ کو اپنے علاج سے زیادہ سرحد بند ہو جانے کی فکر رہتی ہے۔ پاک افغان سرحد بند ہو جانے کے باعث ان کا علاج کئی بار تعطل کا شکار رہا اور انھیں سرحد کھلنے کے انتظار میں کئی دن تک انتظار کرنا پڑا۔ اگرچہ وہ نیمروز سے 10 سے 12 گھنٹے دشوار گزار سفر کرکے کوئٹہ پہنچتی ہیں، تاہم انہیں یہاں ضروری سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔
سینار ہسپتال میں پاکستانی مریضوں کےٓ ساتھ افغان مریضوں کا علاج بھی "انسانی ہمدردی" کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اس ہسپتال میں گزشتہ چھ سال سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر فیروزخان اچکزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے اس واحد سرطان ہسپتال میں سالانہ سات سے آٹھ ہزار نئے مریض آتے ہیں جبکہ بارہ ہزار زیر علاج مریضوں کا فالواپ یا روٹین کا چیک اپ ہوتا ہے۔
"ہسپتال میں بلوچستان کے تمام اضلاع سمیت افغانستان، ایران اور سندھ سے تعلق رکھنے والے مریض علاج کرانے کے لیے اتا۔ مردوں میں خوراک کی نالی کا کینسر جبکہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح زیادہ ہے۔افغان مریضوں میں معدے کے کینسر اور خون کے سرطان کے مریض زیادہ ہوتے ہیں"۔
سینار ہسپتال میں کینسر کے ایک مریض کے علاج پر 30 سے 70 لاکھ روپے تک خرچہ آتا ہے
ڈاکٹر فیروز کے مطابق اس وقت ہسپتال میں صرف بلوچستان سے تعلق رکھنے والی چھاتی کے سرطان کی ڈھائی ہزار کے لگ بھگ مریض رجسٹرڈ ہیں۔ عمر رسیدہ خواتین ہی نہیں بلکہ نوجوان عورتیں اور اب غیر شدہ شدہ لڑکیاں بھی اس مرض میں مبتلا ہونے لگی ہیں۔
چھاتی کے سرطان کی علامات
چھاتی کا کینسر کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے لیکن 40 سال یا اس سے زیادہ عمر میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ چھاتی میں درد، گلٹی محسوس ہونے، چھاتیوں کی جلد سرخ ہوجانے، یا نپل سے رطوبت بہنے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر فیروز اچکزئی نے بتایا کہ بلوچستان میں چھاتی کے سرطان کی اکثر مریض کینسر کے چوتھے مرحلے میں ہسپتال سے رجوع کرتی ہیں جن میں 80 فیصد جانبر نہیں ہو پاتیں۔ اکثر لوگ گھریلو ٹوٹکوں یا دم کے ذریعے علاج پر انحصار کرتے ہیں۔ بعض مریض اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مرض لاعلاج شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ڈاکٹر فیروز کے مطابق بلوچستان میں چھاتی کے سرطان کے سب سے زیادہ مریض کوئٹہ سے آتے ہیں۔ اس کے بعد ژوب، چمن، خضدار، تربت اور خاران کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔
سینار کے بالمقابل صوبے کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال بلوچستان میڈیکل کمپلیکس میں کینسر کے ہر طرح کے مریضوں کے لیے 40 بستروں کا صرف ایک وارڈ موجود ہے۔
بولان میڈیکل کمپلیکس کے کینسر وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر زاہد محمود کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے کینسر کا علاج کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ہر سال تین ہزار نئے مریض آتے ہیں۔وسائل نہ ہونے کی وجہ سےبہت سے مریضوں کو سینار ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال بریسٹ کینسر کی مریضوں کی تعداد 26 ہزار کے لگھ بھگ ہوتی ہے
انہوں ںے بتایا کہ صحت یاب ہونے تک کینسر کے مریض پر 30 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں، بی ایم سی کے کینسر یونٹ کو سالانہ ایک کروڑ کا فنڈ فراہم کیا جاتا ہے جس سے صرف چار مریضوں کا بمشکل علاج ہو سکتا ہے۔ بیشتر مریض ادویات خریدنے کی استطاعت بھی تک نہیں رکھتے۔ یہی وجہ سے کہ چھاتی کےسرطان کی بیشتر مریض خواتین مہنگے علاج کی بجائے گھریلو ٹوٹکوں اور روایتی علاج کو ترجیح دیتی ہیں۔
ہر روز 109 اموات
پنک ربن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو 2004 سے ملک بھر میں چھاتی کے کینسرکی روک تھام اور لوگوں میں اس بیماری کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
اس تنظیم کے جاری کردہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز 1400 خواتین بریسٹ کینسر سے انتقال کر جاتی ہی۔ پاکستان میں یہ تعداد 109 ہے جو ان اموات کا آٹھ فیصد ہے۔
دنیا میں کینسر کے مریضوں کے اعدادو شمار پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل کینسر آبزرویٹری کے مطابق پاکستان میں ہر سال کینسر کے ایک لاکھ 78 ہزار سے زیادہ نئے مریض سامنے آتے ہیں جن میں بریسٹ کینسر کی مریضوں کی تعداد 26 ہزار کے لگھ بھگ ہوتی ہے جو کینسر کے کُل مریضوں کا ساڑھے چودہ فیصد بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
اپنا شریکِ درد بنائیں کسی کو کیا: چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کیسے گھٹ گھٹ کر مر رہی ہیں۔
نومبر 2021ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دل کے مریضوں کیلئے سٹنٹ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ چھاتی کا کینسر خواتین کو نہایت سرعت سے متاثر کر رہا ہے۔ ملک کے کسی سرکاری ہسپتال میں میمو گرافی (چھاتی میں گلٹی دیکھنے کا ٹیسٹ) اور بریسٹ کینسر کے علاج کی سہولت موجود نہیں۔
بیشتر خواتین مریض نجی ہسپتالوں سے چھاتی کے سرطان کا مہنگا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ اس ضمن میں چیف جسٹس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تمام ہسپتالوں میں بریسٹ کینسر کا علاج اور سرطان کے ٹیسٹ کا انتظام یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم ان ہدایات پر آج تک عمل نہیں ہوا۔
تاریخ اشاعت 31 مارچ 2023