''کتابیں دی جائیں ہمیں پڑھنا ہے''، آواران میں سکول کے بچوں کا احتجاج

postImg

شبیر رخشانی

postImg

''کتابیں دی جائیں ہمیں پڑھنا ہے''، آواران میں سکول کے بچوں کا احتجاج

شبیر رخشانی

اِس مہینے کی 6 تاریخ کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے آبائی علاقے جھاؤ میں سکولوں کے بچوں نے احتجاجی جلوس نکالا۔ ان بچوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر کچھ ایسے نعرے درج تھے:

"ہمیں کتابیں چاہئیں''

"سکولوں میں بچے ہیں مگر کتابیں نہیں"

"نیا تعلیمی سال آ گیا مگر کتابیں نہیں آئیں"

جھاؤ ضلع آواران سے 54 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں اس احتجاج میں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان بچوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ انہیں کتابوں کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جائے۔

بلوچستان بھر میں نئے تعلیمی سال کا آغاز یکم مارچ سے ہوتا ہے۔  10 فروری کو محکمہ ثانوی تعلیم نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام 35 اضلاع کے ایجوکیشن  افسروں کو احکامات جاری کیے کہ وہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اپنے اپنے علاقوں کے سکولوں کے لیے کتابیں وصول کر لیں۔

اس شیڈول کے مطابق آواران کے سکولوں کے لیے کتابوں کی وصولی 21 فروری کو ہونا تھی لیکن یکم مارچ کو بیشتر سکولوں میں بچوں نے نئی جماعتوں میں قدم رکھا تو پتا چلا کہ ان کے لیے کتابیں تاحال نہیں پہنچ سکیں۔

محکمے کے ڈائریکٹر واحد شاکر بلوچ کا کہنا ہے کہ سکولوں میں کتابیں فراہم کرنا آواران کے ضلعی ایجوکیشن آفیسر کی ذمہ داری ہے جنہیں ڈائریکٹوریٹ سے کتابیں وصول کرکے سکولوں کو پہنچانا تھیں لیکن وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں سستی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

گورنمنٹ ہائی سکول لعل بازار جھاؤ کے ہیڈماسٹر محمد ظریف کا کہنا ہے کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر سکولوں میں کتابیں نہ ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا تھا اور بہت کم تعداد میں کتابیں دی گئی تھیں۔ تیسری اور پانچویں جماعت کے لیے کوئی کتاب نہ پہنچ سکی جبکہ دیگر جماعتوں کے متعدد مضامین کی کتابیں بھی دستیاب نہیں تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی زبانی اطلاع آواران کے ضلعی ایجوکیشن آفیسر کو دے دی گئی تھی لیکن انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔

ظریف بتاتے ہیں کہ رواں سال انہوں نے 28 فروری کو کتابوں کی ڈیمانڈ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو تحریری طور پر ارسال کر دی تھی جس کے بعد امید تھی کہ اس سال کتابیں بروقت ملیں گی اور نئے تعلیمی سال کا آغاز بہتر طریقے سے ہو گا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

"ہم نے امتحانی نتیجے کا اعلان کرکے بچوں کو بتایا تھا کہ یکم مارچ کو کتابیں تقسیم کریں گے۔ اب بچوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں کتابیں فراہم کی جائیں اور انہیں مطمئن کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔"

محمد ظریف بتاتے ہیں  کہ کتابوں کی عدم دستیابی کے سبب تعلیم میں بچوں کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے جس کا اندازہ سکول میں آنے والے طلبہ کی تعداد میں مسلسل کمی سے لگایا جا سکتا ہے۔

گورنمنٹ ہائی سکول لعل بازار میں آٹھویں جماعت کے طالب علم نواز احمد کتابیں نہ ملنے پر سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ پچھلے سال انہیں اردو اور سائنس کی کتابیں نہیں ملی تھیں۔ انتظار کے بعد انہوں نے سائنس کی کتاب تو دوسرے سکول سے منگوا لی مگر اردو کی کتاب دستیاب نہ ہو پانے کے باعث وہ اس کے امتحان کی اچھی تیاری بھی نہ کر سکے۔

تاہم آواران کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محمد ابراہیم مہر کتابوں کی عدم دستیابی کی ذمہ داری بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے سر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سال سے انہیں ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے بروقت کتابیں نہیں مل رہیں۔ کہیں ریاضی، کہیں اردو تو کہیں انگریزی کی کتاب میسر نہیں ہے جس سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

حکومتِ بلوچستان کتابوں کی مد میں ہر سال ایک مقررہ گرانٹ کالجوں اور سکولوں کے ڈائریکٹوریٹ کو جاری کرتی ہے۔ یہ رقم کتابوں کے لیے کاغذ کی خریداری، ان کی اشاعت اور جلد بندی وغیرہ پر خرچ ہوتی ہے۔ اس سال محکمہ خزانہ کی جانب سے ڈائریکٹر سکولز بلوچستان کو اس مد میں ایک ارب چھ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ بلوچستان یحییٰ مینگل نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ادارے کو محکمہ خزانہ کی طرف سے سالانہ گرانٹ تاخیر سے ملتی ہے جس کی وجہ سے کتابوں کی چھپائی کا کام لیٹ ہو جاتا ہے۔

"رواں مالی سال کے لیے کتابوں کی اشاعت کا کام اکتوبر 2022 میں شروع کیا گیا تھا مگر اس کے لیے مختص رقم فروری 2023 میں جاری کی گئی جس کا اثر کتابوں کی چھپائی پر اور فراہمی پر بھی پڑا"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کتابیں جمنیزیم میں ڈھیر اور عمارت پر تالا: کیا تربت پبلک لائبریری پر قبضہ ہو چکا ہے؟

یحییٰ مینگل کے مطابق ادارے کی جانب سے ڈائریکٹر ثانوی تعلیم کو 65 فیصد کتابیں فراہم کی جا چکی ہیں اور باقی 35 فیصد کی چھپائی کا کام جاری ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آواران کے سکولوں میں کتابیں نہ پہنچنے کا معاملہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

محکمہ خزانہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کتابوں کی فراہمی میں تاخیر کے ذمہ دار ناشر ہیں۔ ٹیکسٹ بک بورڈ بلوچستان نے جس ناشر کے ساتھ معاہدہ کیا ہو اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ کتابیں بروقت شائع کر کے پہنچائے گا۔ لیکن ناشر کبھی وقت پر کتابیں نہیں چھاپتے جبکہ محکمہ خزانہ نے ناشروں کو معاوضے کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہیں کی۔

تاریخ اشاعت 13 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.