توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد محمد اقبال (فرضی نام) اور ان کا خاندان گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس دوران ان کے ایک بیٹے نے خودکشی کر لی، دو بیٹوں کی نوکری چلی گئی، ایک بیٹے کو سکول چھوڑنا پڑا اور رشتہ داروں نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی۔
اقبال ساڑھے چار سال جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا ہو کر آئے ہیں اور آج کل لاہور کے علاقے مغلپورہ میں ڈھائی مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ اقبال کی اہلیہ فوزیہ بی بی کے بقول اس واقعے کے بعد ان کے گھرانے کی سماجی اور معاشی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ ان کے شوہر نہ تو گھر میں کسی سے زیادہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی باہر نکلتے ہیں۔
اس واقعے سے پہلے محمد اقبال اپنے علاقے میں سیاسی طور پر سرگرم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ فوزیہ بی بی کے بقول تقریباً پانچ سال پہلے 10 محرم کو جب ان کے گھر میں ختم قرآن پاک کی تقریب جاری تھی تو ان کے شوہر نے اپنے موبائل فون پر موصول ہونے والی ایک متنازع مذہبی پوسٹ غلطی سے شیئر کر دی۔
کچھ دیر کے بعد پولیس ان کے گھر آگئی اور دروازے پر لوگوں کا مجمع لگ گیا جو مذہبی نعرے لگا رہے تھے۔ اس دوران مشتعل ہجوم کو دیکھ کر اقبال روپوش ہو گئے۔
فوزیہ بی بی کے مطابق ان کے شوہر کی نادانستہ غلطی پر ان کے خلاف درج کرائے جانے والے توہین مذہب کے مقدمے کے پیچھے دراصل سیاسی مخالفت تھی۔ جس شخص نے یہ مقدمہ درج کرایا اس سے ان کے شوہر کی تلخ کلامی ہو چکی تھی جس کا اسے رنج تھا۔
اقبال کی روپوشی عرصہ میں اسی شخص نے انہیں ایک پیغام بھیجا جس میں انہیں بے گناہ تسلیم کرتے ہوئے معافی کی درخواست کی گئی تھی اور لکھا تھا کہ اگر وہ اس سے مل لیں تو وہ ان کی بے گناہی کے حق میں فتویٰ لے کر دے گا۔
یہ پیغام دیکھ کر اقبال اس شخص کے پاس چلے گئے جہاں پولیس ان کی گرفتاری کے لئے موجود تھی۔
فوزیہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کی عبوری ضمانت ہو چکی تھی اس کے باوجود پولیس نے اٹھارہ روز تک انہیں حراست میں رکھا جس کے بعد ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ ساڑھے چار سال قید کاٹنے کے بعد اقبال کو ضمانت پر رہائی ملی جس کے بعد ان کا خاندان علاقہ چھوڑ کر مغل پورہ منتقل ہو گیا۔
فوزیہ بی بی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد خوف اور سماجی مقاطع نے ان کے ایک جواں سال بیٹے کے ذہن پر شدید منفی اثرات مرتب کئے جس نے ایک دن پھندا لے کر خودکشی کر لی۔ ان کے دو بیٹے ایک کمپنی میں کام کرتے تھے جہاں ان کے والد پر عائد ہونے والے الزام کی خبر پہنچی تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ سب سے چھوٹا بیٹا آٹھویں جماعت میں زیرتعلیم تھا جس نے اس واقعے کے بعد ساتھی طلبہ کے ناروا رویے سے تنگ آ کر پڑھائی چھوڑ کر مزدوری شروع کر دی۔
فوزیہ بی بی بتاتی ہیں کہ جس شخص نے ان کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا اس نے انہیں دس لاکھ روپے کے عوض کیس واپس لینے کی پیشکش بھی کی لیکن ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے۔ اس واقعے کے بعد اقبال کا گھرانہ متواتر عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے اور مستقل اذیت میں مبتلا ہے۔ فوزیہ کو خوف ہے کہ کہیں ان کے شوہر کو دوبارہ گرفتار نہ کر لیا جائے۔
توہین مذہب کے خلاف پہلی مرتبہ 1860 میں قانون سازی کی گئی تھی جس کا مقصد مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کو روکنا تھا۔ اس قانون کے تحت کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے قبرستان میں بلا اجازت داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا یا کسی کی عبادت گاہ یا مقدس چیز کی دانستہ توہین کرنا جرم قرار دیا گیا۔ ایسے جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔
تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں یہی قانون برقرار رہا۔ 1980 میں ضیاالحق کی حکومت نے اس میں ایک نئی شق شامل کی جس کے تحت اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات جرم قرار پائے۔ اس کے بعد 1982 میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کرنے اور 1986 میں پیغمبر اسلام کی توہین پر موت یا عمر قید کی سزاؤں کو اس قانون کا حصہ بنایا گیا۔
غیرسرکاری تنظیم 'سنٹر فار سوشل جسٹس'کے مطابق اس ترمیم کے بعد 1987 سے 2022 تک پاکستان میں توہین مذہب کے 2,120 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان میں 1,590 صوبہ پنجاب، 393 سندھ، 67 خیبر پختونخوا، 35 اسلام آباد، 18 آزاد جموں و کشمیر، 11 بلوچستان اور چھ گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ہوئے تھے۔
پچھلے 35 سال میں ایسے 48 فیصد مقدمات کے ملزم مسلمان، 34 فیصد احمدی، 13 فیصد مسیحی اور دو فیصد ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ تین فیصد کی مذہبی شناخت ریکارڈ پر نہیں ہے۔
رواں سال اب تک ایسے 264 مقدمات درج کرائے جا چکے ہیں۔
مختصر عرصے میں اس قدر غیرمعمولی تعداد میں توہین مذہب کے مقدمات کے اندرج پر سنٹر فار سوشل جسٹس کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب اور پیپلز کمیشن برائے اقلیتی حقوق (پی ایس ایم آر) کی سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) ناصرہ جاوید اقبال نے حکومت کو اس صورتحال کا نوٹس لینے کے لئے کہا ہے۔
گلگت بلتستان کے عالمگیر بھی توہین مذہب کے مقدمے اور اس کے بعد جان کے خوف، سماجی مقاطع، تنہائی اور معاشی مسائل کا سامنا کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اخبارات و جرائد میں سماجی و معاشرتی مسائل پر لکھتے اور مختلف معاملات میں ریاستی اداروں کے کردار پر تنقید کیا کرتے تھے۔ ان کی ایسی ہی کسی تحریر کو لے کر ان پر مذہب کی توہین کا ناجائز الزام عائد کر دیا گیا جس کے بعد وہ جان کے خوف سے روپوش ہو گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان کے گھر پر دو مرتبہ حملہ ہوا۔ ان کے بچوں کو سکول چھوڑنا پڑا۔ روپوشی اور سرگرمیاں محدود ہو جانے کے باعث ان کی مالی حالت خراب ہو گئی جس کا براہ راست اثر ان کے خاندان پر پڑا اور بقول ان کے ناکردہ گناہ کے باعث ان کے گھرانے کی زندگی بند گلی میں آ گئی۔
پیٹرجیکب بتاتے ہیں کہ توہین مذہب کا قانون پاکستان کے علاوہ دنیا کے سات ملکوں میں رائج ہے لیکن وہاں اس کے ویسے نتائج سامنے نہیں آتے جن کا مشاہدہ ہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں گواہی کا معیار عام فوجداری قوانین جیسا نہیں ہے جن کے تحت کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لئے واضح ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ اس قانون میں ثبوت کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس میں جرم کی کوئی تعریف کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس قانون کے ڈرافٹ میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں وہ نوآبادیاتی قانون میں بھی نہیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر: حیدر آباد میں توہین مذہب کیس کے اصل حقائق
اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کسی پر یہ الزام لگ جائے اور ایف آئی آر درج ہوجائے تو وہ فوراً گرفتاری دے دیتا ہے کیونکہ ایسے ملزم جیل میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ توہین مذہب کے محض الزام کی بنیاد پر ہی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے، ان کے کاروبار اور نوکریاں ختم ہو جاتی ہیں اور انہیں سماجی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے۔
اس نوعیت کے مقدمات میں وکالت کا وسیع تجربہ رکھنے والے اسد جمال کہتے ہیں کہ توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد ناصرف ملزم بلکہ اس کے پورے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہیں۔ انہیں اس قدر دباؤ کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ خوف کے مارے عدالت میں بھی پیش نہیں ہو سکتے۔
وہ توہین مذہب کے جرم میں کئی سال سے گرفتار جنید حفیظ کے مقدمے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے 2015 میں ملزم کی یونیورسٹی کے اساتذہ کو ان کے حق میں گواہی کے لئے پیش ہونے کی درخواست کی تھی لیکن کیس کی حساسیت کے پیش نظر سبھی نے معذرت کر لی۔ اسد جمال کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں وکیل کے لئے بھی کیس لڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تاریخ اشاعت 22 ستمبر 2023