پنجاب میں توہین مذہب کے واقعات: کیا کسی پولیس افسر کے خلاف کارروائی یا فسادی کو سزا ہوئی؟

postImg

نعیم احمد

postImg

پنجاب میں توہین مذہب کے واقعات: کیا کسی پولیس افسر کے خلاف کارروائی یا فسادی کو سزا ہوئی؟

نعیم احمد

پچاس سالہ سسٹر ریحانہ، کرسچن ٹاون جڑانوالہ کی اس گلی میں رہتی ہیں جہاں سے 16 اگست 2023ء کو ہجوم نے دو بھائیوں پر توہین مذہب کے الزامات کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کا آغاز کیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس واقعے کی رات جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر بھاگیں تو ان کے سر پر دوپٹہ اور پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا۔ چار روز بعد وہ واپس آئیں تو گھر میں کچھ سلامت نہیں تھا یہاں تک کہ توڑ پھوڑ کی وجہ سے مکان بھی گرنے والا تھا۔

"میں پہلے ایک نجی ہسپتال میں بطور نرس کام کرتی تھی لیکن اس سانحے کے بعد مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ میرے شوہر جس فیکٹری میں ملازم تھے انہیں بھی وہاں سے فارغ کر دیا گیا پھر وہ جہاں بھی گئے ملازمت سے انکار کر دیا گیا۔"

ریحانہ تب سے بیروزگار اور اسی ٹوٹےگھر میں رہ رہی ہیں۔

"میرے شوہر پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں مگر ایک سال بعد بھی ہمارے نقصان کا ازالہ ہوا اور نہ ہی اس واقعے میں ملوث کسی ملزم کو سزا ہوئی ہے۔"

پنجاب میں پچھلے ایک سال کے دوران موب جسٹس یا ہراسانی کے تین بڑے واقعات میں سے کسی ایک کیس میں بھی کسی پولیس افسر کے خلاف کارروائی یا کسی قصور وار کو سزا نہیں  ہوئی ہے۔

سانحہ جڑانوالہ

سانحہ جڑانوالہ کی متاثرہ سسٹر ریحانہ سمیت کئی مسیحی شہری اپنے گھروں اور املاک کے معاوضے کے لیے سرکاری دفاتر اور عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔

فیصل آباد پولیس نے جڑانوالہ واقعہ میں ملوث 142 نامزد ملزمان اور پانچ ہزار 71 نامعلوم افراد کے خلاف 22 مقدمات درج کیے تھے جن کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) بنائی گئی تھی۔

جے آئی ٹی کے ایک رکن ڈی ایس پی لیگل شہزاد علیانہ بتاتے ہیں کہ پولیس نے فسادات میں ملوث 135 نامزد ملزمان سمیت 390 افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے 281 جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ 246 ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔

"163 کی شناخت پریڈ کرائی گئی تھی جس کے بعد 83 کو ڈسچارج کر دیا گیا۔ سات نامزد اور چار ہزار 817 نامعلوم افراد تاحال مفرور ہیں۔"

وہ تصدیق کرتے ہیں کہ جڑانوالہ واقعے میں فرائض سے غفلت پر ایس ایچ او تھانہ سٹی منصور صادق، اسٹنٹ سب انسپکٹر عباس علی اور ہیڈ کانسٹیبل عبدالوحید کے خلاف شوکاز نوٹس کے اجراء کے سوا کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

جڑانوالہ میں متاثرین نے مظاہرین پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے الزامات لگائے تھے لیکن پولیس رپورٹس میں ملزمان سے ڈنڈوں، پتھروں اور پٹرول کی بوتلوں کے سوا کسی اور سامان کی برآمدگیوں کا کوئی ذکر نہیں۔

تاہم فیصل آباد پولیس کے ترجمان محمد طارق بتاتے ہیں کہ ناخوشگوار واقعے کے بعد جڑانوالہ کی مسیحی کمیونٹی نے ایک سال کے دوران کمپلینٹ سنٹر(میثاق سنٹر) میں امتیازی سلوک کی 35 شکایات کی تھیں جن کا ازالہ کرا دیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس فساد کے دوران متاثر ہوئے 19 گرجا گھروں کو سرکاری خرچ پر بحال کیا گیا ہے اور 86 متاثرہ گھروں کے مالکان کو 20 لاکھ روپے فی کس امدادی رقم دی جا چکی ہے۔

اس حوالے سے مصدقہ معلومات کے حصول کے لیے لوک سجاگ نے آٹھ ماہ قبل ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست دی گئی تھی جس کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

جواب نہ ملنے پر پنجاب انفارمیشن کمیشن میں اپیل کی گئی مگر اس کو بھی چار ماہ بعد وجہ بتائے بغیر ڈسپوز آف کر دیا گیا۔

مسیحی رہنما فریڈرک سیموئیل پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

وہ سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی اور ملزموں کو سزائیں دلوانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پولیس کی ناقص تفتیش اور پراسکیوشن کی عدم توجہ کے باعث زیادہ تر ملزمان ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں۔

"فساد کے لیے لاوڈ سپیکر پر اعلان کرکے لوگوں کا اکٹھا کرنے والے ملزم یاسین کی ضمانت ہو چکی۔ کرین سےگرجا گھروں کو منہدم کرنے والے ملزم عرفان یونس کو بھی ضمانت مل گئی تھی جس کو ہم نے 23 ستمبر کو ہائیکورٹ سے منسوخ کرایا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ ویڈیوز جیسے شواہد اور مدعیوں کی نشاندہی کے باوجود پولیس نامزد ملزموں کو گرفتار کرنے پر تیار نہیں جس کے باعث جڑانوالہ کی مسیحی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سانحے میں مجموعی طور پر 26 گرجا گھروں اور 148 رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا مگر ضلعی انتظامیہ نے صرف 19 گرجا گھروں میں بحالی کا کام کرایا اور 80 کے قریب مکان مالکان کو امدادی رقم دی ہے۔

"ضلعی انتظامیہ نے کوئی سروے کیا نہ ہی کمپنسیشن (ازالہ) کمیٹی میں متاثرہ کمیونٹی کو شامل کیا گیا۔ ہر فیملی کو 20 لاکھ دینے کی رپورٹ جمع کرائی گئی جبکہ بیشتر گھروں میں تین، تین، چار، چار فیملیاں رہتی تھیں اور رقم بھی اسی حساب سے ملنی چاہیے تھی۔"

وہ کہتے ہیں کہ ہجوم نے سب سے پہلے دو بھائیوں پر توہین کا الزام لگا کر ان کے گھر جلائے تھے ۔ الزام جھوٹا ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ نے دونوں کے نام نا صرف متاثرین کی فہرست سے نکال دیے بلکہ انہیں اب تک واپس آنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی۔

فریڈرک سیموئیل نے بتایا کہ انہوں نے سانحہ جڑانوالہ کے سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی فوری سماعت کے لیے اب ایک نئی درخواست دائر کی ہے۔

"بے بسی کا عالم ہے متاثرین کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے جبکہ گرجا گھروں اور بائبل کی توہین کے ملزم بری ہو چکے ہیں۔ جب انصاف ہی نہیں ہو گا تو امن کیسے قائم ہو گا؟"

اچھرہ بازار میں خاتون کا گھیراؤ

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رواں سال 25 فروری کو سعودی ڈیزائن کا لباس پہننے پر مشتعل ہجوم نے خاتون کو دکان میں گھیر لیا تھا ۔ تاہم پولیس انہیں بچانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔

دہشت گردی، ہراسانی اور ممکنہ طور پر موب لنچنگ کے اس خوفناک واقعے کے تمام ملزمان نہ صرف ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں بلکہ ان کے خلاف درج مقدمہ سے دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کی جاچکی ہیں۔

یہ خاتون اچھرہ بازار میں اپنے شوہر کے ساتھ شاپنگ کے لیے آئی تھیں جہاں ان کے گرد ایک گروہ جمع ہو گیا تھا۔ بلوائیوں کا کہنا تھا کہ خاتون قرآنی آیات والا لباس پہن کر توہین کی مرتکب ہوئی ہیں جبکہ مذکورہ لباس پر عربی رسم الخط میں لفظ 'حلوہ' تحریر تھا جو ایک سعودی کمپنی نے ڈیزائن کیا تھا۔

اس وقت کی اے ایس پی گلبرگ شہربانو نقوی واقعہ کی اطلاع ملتے ہی وہاں پہنچیں اور خاتون کو ہجوم کو چنگل سے بحفاظت نکال کرلے گئی تھیں۔پولیس نے اس واقعہ کا انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

اس واقعہ کی ایف آئی آر ایس ایچ او اچھرہ محمد بلال کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں ہجوم کو تشدد پر اکسانے، امن عامہ کو خراب کرنے اور خاتون کی جان کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق دفعات شامل تھیں۔

تاہم مقدمے کی تفتیش کے بعد پولیس نے ملزمان التمش ثقلین، ندیم، محمدعلی عرف چاند بٹ، ملک خرم شہزاد اور عادل سرور کو قصور وار قرار دیا جبکہ خالد محمود خالد، علیم الدین اور علامہ ثاقب علی کو بے قصور قرار دے کر چھوڑ دیا۔

بعد ازاں انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کا ٹرائل سیشن عدالت منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

اس مقدمے کے تمام نامزد ملزمان کی بھی ضمانت ہوچکی ہے اور کیس سیشن کورٹ میں زیرسماعت ہے۔

ایک سینیئرپولیس افسر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد کچھ حکومتی سیاسی شخصیات کا دباؤ تھا کہ خاتون نے معافی مانگ لی ہے اور صلح ہوگئی ہے تو مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ اس سے مذہبی انتشار پھیلے گا ایک شدت پسند مذہبی جماعت کے احتجاج کا بھی خدشہ تھا۔

تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے سمجھتے تھے کہ اگر مقدمہ درج نہ ہوا تو آئے روز ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ اس لیے پولیس نے مختلف پہلوؤں پر کافی غور کیا تھا اور مقدمہ درج کرنے کے بعد ایف آئی آر سیل کر دی تھی تاکہ متاثرہ خاتون یا ان کے خاندان کو نقصان نہ پہنچے۔

سینیئر وکیل عبداللہ ملک کا ماننا کہ پولیس کے شعبہ تفتیش کی نا اہلیت کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسا ہائی پروفائل کیس جس کا وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے ساتھ آرمی چیف تک نے نوٹس لیا پولیس اسے دہشت گردی سے جوڑنے میں ناکام رہی۔

"ان نااہلیوں کی وجہ سے ہی لوگوں کا پولیس اور جوڈیشل سسٹم سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور 'موب جسٹس' کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ہجوم خود ہی وکیل اور جج بن جاتا ہے۔"

عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کیس میں پولیس نے بظاہر خانہ پری کے لیے مقدمہ درج کیا تاکہ سول سوسائٹی کے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔

سرچ فارجسٹس نامی ادارے کی پروگرام کوآرڈنیٹر راشدہ قریشی سمجھتی ہیں کہ اس کیس میں پھر واضع ہوگیا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شدت پسندوں کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ طبقات جب چاہیں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

 اس واقعہ کے بعد متاثرہ خاتون کی معافی مانگتے ہوئے ویڈیو شیئر کی گئی جس میں مقامی علماء اور اے ایس پی شہربانو نقوی بھی موجود تھے۔

"اسی وقت واضع ہوگیا تھا کہ خاتون کو معافی مانگنے پرمجبور کیا گیا ہے اور یقیناً اس کیس کا کچھ نہیں بنے گا۔"

اس کیس میں مرکزی کردار اداکرنے والی اس وقت کی اے ایس پی شہربانونقوی سے موقف لینے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں مل سکا۔

سانحہ سرگودھا

سانحہ جڑانوالہ اور اچھرہ کے بعد رواں سال 25 مئی کو سرگودھا میں ہجوم نے مجاہد کالونی کے رہائشی نذیر مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، گھر پر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کی اور ان کی جوتے بنانے کی ورکشاپ کو جلا دیا تھا۔

نذیر مسیح دوران علاج ہسپتال میں دم توڑ گئے جس کے بعد سرگودھا پولیس نے تھانہ اربن ایریا میں دو الگ الگ مقدمات درج کیے تھے۔

ایک مقدمہ نذیر مسیح کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے اور 295 بی اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن نو کے تحت درج کیا گیا تھا۔

دوسرا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324، 186، 353، 436، 440، 148 اور 149 کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت درج کیا گیا تھا جس میں 44 نامزد اور 450 نامعلوم افراد کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔

سرگودھا پولیس کے ترجمان سب انسپکٹر خرم اقبال بتاتے ہیں کہ نذیر مسیح کے خلاف مقدمے کو ان کی ہلاکت کے بعد داخل دفتر کر دیا گیا جبکہ دوسرے مقدمے میں گرفتار تمام ملزم ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن(ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ کہتی ہے کہ گزشتہ سال عقیدے کی بنیاد پر قتل کے 11 واقعات پیش آئے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"زندگی برباد ہو گئی تو کہا گیا 10 لاکھ دے دو توہین مذہب کا الزام واپس لے لیں گے"

 اس ادارے کی فیکٹ فائنڈنگ کے مطابق جڑانوالہ اور سرگودھا کے پرتشدد واقعات میں تحریک لبیک کے مقامی رہنما اور کارکن ملوث تھے۔ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ذاتی تنازعات کو مذہبی رنگ دیا گیا اور پولیس ان واقعات کو روکنے میں ناکام رہی۔

سرگودھا کے صحافی ملک اصغر بتاتے ہیں کہ نذیر مسیح کے قتل اور جلاؤ گھیراؤ کیس میں پولیس نے مجموعی طور پر 48 افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے 32 کی شناخت چکی ہے۔

"مشکوک سمجھ کر پکڑے جانے والے 30 سے 35 افراد کو مقامی شخصیات اور تحریک لبیک کی قیادت کے متحرک ہونے پر رہا کیا گیا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ایک ماہ بعد جج محمد نعیم شیخ کی تعیناتی ہوئی ہے جنہوں نے اس مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع کر دی ہے۔

پاکستان مینارٹیز الائنس کے چیئرمین اکمل بھٹی نے اس کیس میں پولیس تفتیش اور ٹرائل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سرگودھا میں مسیحی برادری کو مذہب کے نام پر بار بار نشانہ بنائے جانے کے باوجود آج تک کسی کو سزا نہیں ہو سکی۔

وہ الزام لگاتے ہیں کہ توہین کے مقدمات میں انسداد دہشتگردی ایکٹ لگا کر پہلے ہی انتہا پسندوں کا دباؤ کو قبول کر چکی ہے اور اب انہیں کے دباؤ پر قتل اور گھیراؤ جلاؤ کے ملزموں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

"نذیر مسیح کے بہیمانہ قتل کے چند ہفتے بعد ان کی اہلیہ بھی اسی صدمے کے باعث دم توڑ گئیں جس کے بعد ان کے دیگر اہل خانہ بھی اپنا آبائی شہر سرگودھا چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ متوفی نذیر مسیح کی فیملی سرگودھا میں اپنا گھر اور جائیداد فروخت کرنا چاہتی ہے لیکن انتہا پسندوں کے خوف سے اسے کوئی خریدنے پر تیار نہیں۔

تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.