پچپن سالہ گلشن بی بی نارووال شہر میں گلی قصاباں والی کی رہائشی ہیں۔ان کی اولاد نہیں ہے اور شوہر بیمار رہتے ہیں۔ وہ سارا دن گھر میں لوگوں کے لیے سری پائے بھونتی ہیں۔ اسی سے ان کے شوہر کی دوائی آتی ہے اور گھر کا گزارا چلتا ہے۔
گلشن بی بی بتاتی ہیں کہ انہیں ان کی رشتہ دار رضیہ بی بی نے مشورہ دیا کہ حکومت نے خواتین کی مالی امداد کے لیے سکیم شروع کر رکھی ہے۔ وہ بھی اس سکیم میں اپنا نام شامل کرانے کے لیے کسی سے بات کریں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنا شناختی کارڈ ساتھ لیا اور رضیہ بی بی کے ساتھ چل پڑیں۔جب وہ گرلز کالج چوک پہنچیں تو وہاں ایک دکان میں خواتین کو رقوم کی ادائیگی کی جا رہی تھی۔ سیکڑوں خواتین اندر اور باہر تپتی دھوپ میں کھڑی نظر آئیں۔
گلشن بی بی کا کہنا تھا کہ انہیں قطار میں تین گھنٹے دھکے کھانے کے بعد بتایا گیا کہ احساس کفالت پروگرام میں نام ڈلوانے کے لیے آن لائن فارم پر کرنا پڑے گا۔
"میں نے اہل کار سے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔آپ بتائیں کیسے کروں ؟ اس دوران قریب کھڑی ایک نقاب پوش عورت نے مجھے اشارہ کیا اور کونے میں لے گئیں ۔وہاں ایک اور خاتون بھی موجود تھیں۔انہوں نے میرا شناختی کارڈ لیا، مشین پر انگوٹھا لگوایا اور خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
گلشن بی بی نے بتایا کہ نقاب پوش خاتون نے کہا کہ وہ ان کا فارم ان کے گھر جا کر پر کریں گی۔ اور موقع پر تصدیق بھی ہو جائے گی۔وہ خوشی خوشی دونوں عورتوں کو اپنے ساتھ گھر لے آئیں۔
ان کے مطابق گھر میں آ کر نامعلوم خواتین نے بتایا کہ فائل مکمل کرنے پر دس ہزار روپے لگیں گے اور اگلی صبح انہیں حکومتی امداد کی پہلی قسط کے چھ ہزار روپے مل جائیں گے اور پھر ہر ماہ رقم ملنا شروع ہو جائے گی۔
گلشن بی بی کہتی ہیں کہ خاوند کے علاج کے لیےانہوں نے رقم قرض لے رکھی تھی۔گلشن بی بی سے ان عورتوں نے کاغذوں پر انگوٹھا لگوا کر دس ہزار لے لیے۔اور کسی سے ذکر نہ کرنے کا کہہ کر چلی گئیں۔
وہ اگلے روز نامعلوم خواتین کے بتائے ہوئے بینک میں پہنچیں تو انکشاف ہوا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے۔ گلشن بی بی نے بتایا کہ انہوں نے کارروائی کے لیے تھانہ سٹی نارووال کو درخواست دی تھی مگر کچھ نہیں ہوا۔
پچاس سالہ آسیہ بی بی نارووال کے محلہ وجاں کی رہائشی ہیں اور وہ بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ وہ دس سال سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی امداد لے رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پیسے لینے کے لیے تقسیم مرکز گئی تھیں۔ وہاں دو نقاب پوش عورتوں نے انہیں بتایا کہ امداد لینے والی خواتین کے نام احساس لاٹری بھی نکل رہی ہے۔اپنے شناختی کارڈ سے چیک کرو شاید آپ کا بھی انعام نکل آیا ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ نامعلوم خواتین نے ان کا شناختی کارڈ لیا۔ مشین پر ان کا انگوٹھا لگوایا اور مسکرا دیں۔
"جب میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا کہا۔ پھر ایک طرف لے جا کر بتایا کہ احساس لاٹری میں آپ کا 70 ہزار روپے انعام نکلا ہے۔"
آسیہ بی بی خوشی سے نہال ہو گئیں اورخواتین سے پوچھا کہ اب یہ لاٹری کی رقم کیسے ملے گی؟
نقاب پوش خواتین انعامی رقم لینے کا طریقہ بتانے کے لیے آسیہ بی بی کے ساتھ رکشے میں ان کے گھر آ گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان عورتوں نے فائل سے کاغذات نکالے۔کچھ فارم پر کیے اور انگوٹھا لگوا کر رقم دلوانے کے لیے دس ہزار روپے فیس وصول کر لی اور اگلے دن صبح نو بجے بینک پہنچنے کا کہہ کر چلی گئیں۔ جب وہ بینک پہنچیں تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو چکا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام علی حسین بتاتے ہیں کہ ضلع میں 38 ہزار 742 مستحق خواتین کو مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی خواتین کے ساتھ نوسربازی کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہےکہ غربت کی مار ی ان خواتین کو بے نظیر سکیم کے آفس اور رقم کی تقسیم کے سنٹرز پر ہی ورغلایا جاتا ہے۔
سکیم کے ایک اہکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امداد کے لیے آنے والی خواتین کو سپورٹ پروگرام اور رقوم کی تقسیم کے مراکز پر تعینات نچلے درجے کا عملہ ہی نوسرباز عورتوں کی مدد لینے کا مشورہ دیتا ہے۔اس سے ان عورتوں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نوسربازی کے واقعات میں زیادہ موبائل فونز سم فروخت کرنے والے مرد و خواتین شامل ہیں جن کے خلاف کارروائی کیلئے ایف آئی اے اور دیگر سکیورٹی اداروں کو سے آگاہ کر دیا ہے۔
نوسربازی کی کل کتنی وارداتیں ہو چکی ہیں اس کے اعدادو شمار تو دستیا ب نہیں ہیں۔ تاہم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نارووال رانا طاہر رحمٰن خان تصدیق کرتے ہیں کہ ضلعے میں اب تک چار ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ متاثرہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والی نوسربازی کے بارے میں تھانے میں درخواست دیں تو اس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
محکمہ سوشل ویلیفئر کے ڈسٹرکٹ آفیسر علی رضا بتاتے ہیں کہ 2009 میں وفاقی حکومت نے نادار اور بیوہ خواتین کی مالی امداد کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا۔ اس وقت خواتین کو دو ہزار روپے ماہانہ معاوضۃ دیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
"پیسے دو گی تو پیسے ملیں گے"، ننکانہ صاحب میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم کا حصول خواتین کے لیے درد سر بن گیا
وہ کہتے ہیں کہ 2019 ءمیں امدادی رقم بڑھانے کے ساتھ اس پروگرام کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا اور احساس کفالت پروگرام کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے خواتین سے آن لائن درخواستیں وصول کرنا شروع کر دی گئیں۔ پروگرام کے تحت اس وقت 70 لاکھ مستحق خواتین کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس کی نائب صدر ساجدہ پروین بتاتی ہیں کہ مستحق خواتین میں سے 90 فیصد لکھ پڑھ نہیں سکتیں۔اس لیے ان کے ساتھ نوسر بازی مردوں کی نسبت آسان ہے۔ دوسری بات یہ کہ خواتین بہت جلد دوسری عورتوں کی باتوں میں آ جاتی ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ تجویز دیتی ہیں کہ حکومت امدادی رقم کی تقسیم کے مراکز پر غیر متعلقہ خواتین کا داخلہ بند کرے اور احساس کفالت پروگرام کے دفاتر میں سپیکر پر روزانہ خواتین کو نوسر بازی سے بچاؤ کےلیے ہدایت دی جائیں۔
نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف کہتے ہیں کہ کفالت پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کے مراکز کی سکیورٹی بڑھا ئی جائےگی اور نوسرباز خواتین کو گرفتار کرکے متاثرہ خواتین کی رقوم دلوانے کی کوشش کریں گے۔
سماجی کارکن کامران شہزاد کا کہنا ہے کہ آن لائن درخواست دینا کوئی مشکل کام نہیں۔خواتین اپنے اینڈرائیڈ فون کے ذریعے خود بھی احساس کفالت پروگرام کی سائٹ پر فارم پُر کر سکتی ہیں اور اس سلسلے میں انہیں کوئی مشکل پیش آئے تو اپنے کسی قابل اعتماد فرد سے مدد بھی لے سکتی ہیں۔
تاریخ اشاعت 8 ستمبر 2023