ڈسٹرکٹ باجوڑ سے دیر کی طرف جائیں تو 14 کلو میٹر دور بائیں طرف کو ایک تنگ اور دشوار گزار لنک روڈ نکلتی ہے۔ یہ "سڑک" تین کلو میٹر دور گنداؤ گاؤں کی طرف جاتی ہے۔ راستہ اس قدر ناہموار ہے کہ گاڑی کو گاؤں پہنچنے کے لیے 30 سے 35 منٹ لگتے ہیں۔
گنداؤ پہنچتے ہی آپ کا سامنا ایک اونچے پہاڑ سے ہوتا ہے۔ مقامی لوگ اسے شینگس کہتے ہیں۔
پہاڑ اور اس کا دامن سرسبز درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ گنداؤ تقریبا 200 خاندانوں پر مشتمل گاؤں ہے۔ یہاں بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ وہ کبھی گندم، مکئی اور سبزیاں اگایا کرتے تھے مگر اب بیشتر زمینیں بنجر پڑی ہیں اور کئی خاندان یہاں سے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
نثار احمد کی عمر 43 برس ہے اور ان کے سات بچے ہیں۔ ان کا خاندان دو صدیوں سے شینگس پہاڑ کے دامن میں واقع گنداؤ گاؤں میں مقیم تھا۔ مگر کچھ عرصہ پہلے وہ اور ان کے بھائی کے اہل خانہ 18 کلو میٹر دور تحصیل سلار زئی میں منتقل ہوچکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پہاڑوں سے بہتے چشمے صدیوں سے یہاں کے باسیوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہے۔ لیکن چند سال پہلے یہاں کے چشمے سوکھنے لگے اور زیر زمین پانی کی سطح بھی گرنے لگی۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں کے دوران یہاں سے 12 خاندانوں نے پانی کی کمی کی وجہ سے نقل مکانی کی ہے۔

نثار احمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے گاؤں میں 12 سے زیادہ قدرتی چشمے تھے جس سے سیکڑوں خاندانوں کو پانی ملتا تھا لیکن اب اس علاقے زیر زمین پانی 120 گز سے بھی زیادہ نیچے جا چکا ہے۔ لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں، خواتین کئی کئی کلومیٹر دور سے سروں پر اٹھا کر پانی لانے پر مجبور ہیں۔
گاؤں کا پانی کہاں گیا؟
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2015ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کیا۔ 2018ء تک بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت 75 لاکھ درخت لگائے گئے جن میں یوکلپٹس کے پودے لگانے کا تناسب کل جنگلات کے پروگرام کا 23 فیصد تھا۔
محکمہ جنگلات باجوڑ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ زراعت نے بھی ایکسلریٹیڈ ایمپلیمینٹیشن پروگرام کے تحت باجوڑ میں ایک لاکھ سے زائد درخت لگائے تھے جن میں یوکلپٹس کے دس ہزار 637 درخت شامل ہیں۔
ذاکر اللہ جان ماحولیاتی سائنس کے ماہر ہیں اور وہ خیبر پختونخوا کے محکمہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں بطور واٹر اینڈ سائل ایکسپرٹ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ باجوڑ میں قدرتی چشمے خشک ہونے اور پانی کی زیر زمین سطح کم ہو جانے کی بنیادی وجہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے دوران ماحول دشمن درختوں کی شجرکاری ہے۔
"حکومت نے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تیز ترین نتائج حاصل کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں یوکلپٹس کے درخت لگائے کیونکہ یہ جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ یوکلپٹس کا ایک درخت دن میں زمین سے پانچ سے پندرہ گیلن تک پانی جذب کرتا ہے، ایک گیلن تقریباً چار لٹر کے برابر ہوتا ہے۔

ذاکر اللہ کہتے ہیں یوکلپٹس کے پتے زہریلے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پرندے گھونسلا تو دور ان درختوں پر بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
"یہ درخت قریبی فصلوں اور باغات کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس کی لکڑی عمارتی شٹرنگ یا ماچس کی تیلیاں بنانے کے علاوہ کسی اور کام نہیں آتی۔"
محکمہ جنگلات باجوڑ کے کے کمیونٹی ڈیویلپمنٹ آفیسر جمیل احمد سرکاری بیانیے کے حمائتی ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکلپٹس کی شجرکاری مقامی لوگوں کے مشورے سے کی گئی تھی اور اس علاقے کا موسم بھی یوکلپٹس کے لیے موزوں ہے۔
"باجوڑ میں زیادہ تر لوگ لاچی ( یوکلپٹس کا مقامی نام) کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اس کو منافع بخش سمجھتے ہیں، یہ جلد تناور درخت بن جاتا ہے اور کٹائی کے بعد یہ اور تیزی سے بڑھتا ہے۔"
وہ مزید کہتے ہیں، یوکلپٹس سے زیر زمین پانی کی سطح کا متاثر ہونا محض ایک مفروضہ ہے۔ ان درختوں سے پانی کی سطح بالکل بھی متاثر نہیں ہوتی۔ انہیں صرف پہلے تین سال دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ چیڑ اور دیگر درخت تو اتنے وقت میں قد بھی نہیں نکال پاتے۔
اٹھاون سالہ حبیب الرحمن بھی گنداؤ گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان پر بیتنے والی افتاد سرکاری افسر کے بیانیے سے میل نہیں کھاتی۔
حبیب کھیتی باڑی کرتے ہیں لیکن اب پانی کی قلت سے بہت پریشان ہیں اور نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔ مگر ان کے معاشی حالات انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2019ء میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں لاچی کے درخت لگائے گئے تو قدرتی چشمے آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو گئے جن چشموں سے پانچ انچ پانی آتا تھا اب ان کی سطح نصف انچ بھی نہیں رہی۔
’’یہ صرف ہمارے علاقے کا مسئلہ نہیں ہے جہاں بھی یہ درخت لگائے گئے ہیں وہاں اب لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔"
کیا صرف یوکلپٹس "مجرم" ہے؟
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے 2019ء کی ایک تحقیق کے مطابق چار سے پانچ سالوں کے دوران، مہمند اور خیبر کے اضلاع میں پانی کی سطح میں 90 میٹر سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔
اسی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ ضم شدہ اضلاع کی 36 فیصد آبادی پانی کے روایتی ذرائع کا استعمال کرتی ہے جن میں چشمے، ندی، نالے، اور بارش کے پانی کا ذخیرہ شامل ہے۔
اگست 2021ء کو وفاقی وزارتِ پانی و آبی ذخائر کی جانب سے سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں زیرِزمین پانی کی سطح پچھلے 10 سالوں سے انتہائی تیزی سے گر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ آئندہ چند سالوں میں انہیں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضلع باجوڑ بھی فہرست میں شامل تھا جہاں زیر زمین پانی کی سطح 32.79 فٹ نیچے جا چکی ہے۔
پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
تیس سالہ رحمان سید گنداؤں میں دو ایکڑ رقبے پرکھیتی باڑی کرتے تھے لیکن اب وہ ایک ہوٹل میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں

دریائے پنجکوڑہ کے پانی کو دیر شہر کے سیوریج سے بچانا کس کی ذمہ داری ہے؟
رحمان بتاتے ہیں کہ پانی اتنا نیچے چلا گیا کہ ٹیوب ویل کے لیے اسے کھینچنا مشکل ہو گیا تھا۔
"کبھی ہماری وادی سرسبز ہوا کرتی تھی، لوگ سبزیاں اگاتے اور انہیں اچھی خاصی آمدن ہو جاتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگ ہوٹلوں اور دکانوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔"
ذاکر اللہ بتاتے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح نیچے جانے کی ایک وجہ آبپاشی کا صدیوں پرانا نطام ہے۔
"دنیا بھر میں آب پاشی کے لیے زمین سے پانی نکالا جاتا ہے لیکن وہ اپنے وسائل کی اہمیت اور استعداد سے واقف ہیں۔ ہم نے اپنے آبی ذخائر کو بغیر کسی حکمت عملی کے ضائع کیا ہے۔"
اسسٹنٹ کمشنر باجوڑ خار محب یوسفزئی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ باجوڑ میں قدرتی چشمے خشک ہونے اور زیر زمین پانی کی سطح نیچے جانے کی کئی وجوہات ہیں جن میں یوکلپٹس کی شجر کاری بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
"ضلعی انتظامیہ نے اسی لیے اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی ہے اور ہم یوکلپٹس کے بجائے ماحول دوست درخت لگانے پر کام کر رہے ہیں جس کے مثبت اثرات جلد نظر آ جائیں گے۔"
اسسٹنٹ کمشنر خار محب اللہ خان نے لوک سجاگ کو بتایا، ضلعی انتظامیہ پانی کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹے ڈیمز بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ محکمہ آب پاشی نے گنداؤ گائوں کو پانی پہنچانے کے لیے تحصیل سلارزئی میں واقع راغگان ڈیم سے مختلف واٹر چینلز بنائے ہیں جس کے ذریعے اس علاقے تک پانی کی ترسیل یقینی بنائی جائے گی۔
تاریخ اشاعت 8 اپریل 2024