لیہ میں ہندوؤں کی متروکہ املاک: حکومت تعلیم کے لیے وقف کی گئی زمین پرغیر قانونی قبضہ روکنے میں ناکام۔

postImg

فرید اللہ

postImg

لیہ میں ہندوؤں کی متروکہ املاک: حکومت تعلیم کے لیے وقف کی گئی زمین پرغیر قانونی قبضہ روکنے میں ناکام۔

فرید اللہ

پنجاب کے جنوب مغربی شہر لیہ کے مرکز میں واقع ایم-سی ہائی سکول مکانوں اور دکانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر عمارات اسی سکول کے لیے وقف کی گئی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے بنائی گئی ہیں۔ 

یہ تعلیمی ادارہ 1905 میں لیہ کے ایک ہندو تاجر اندر بھان ڈھینگڑا نے ایک پرائمری سکول کے طور پر قائم کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایک سو 46 کنال (سوا 18 ایکڑ) زرعی اور شہری زمین بھی اس کے لیے وقف کی تھی تاکہ اسے تعمیر کرنے اور اس کا انتظام چلانے میں کوئی مالی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

لیکن مارچ 2021 میں لیہ کے کچھ شہریوں کی درخواست پر پنجاب کے محکمہ مال کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ اس وقف کردہ زمین میں سے صرف وہی 28 کنالیں باقی رہ گئی ہیں جن پر سکول کی عمارت کھڑی ہے۔ باقی اراضی پر مقامی لوگوں نے یا تو زبردستی قبضہ کر رکھا ہے یا انہوں نے سرکاری محکموں سے ملی بھگت کر کے ایسے کاغذات بنوا لیے ہیں جن میں اسے ان کی ملکیت دکھایا گیا ہے۔ 

ان تحقیقات کے نتیجے میں سکول کے ہیڈماسٹر کی درخواست پر لیہ پولیس نے نو افراد کے خلاف زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کا پرچہ بھی کاٹا جس کی بنیاد پر بنایا جانے والا مقدمہ ایک مقامی سول عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ 

اسی طرح کے ایک اور مقدمے میں حکومت کو لیہ ہی میں ہندو تاجروں کی وقف کردہ 43 دکانیں ناجائز قابضین سے چھڑانے میں لگ بھگ 25 سال لگ گئے۔ اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2008 میں ایک وفاقی ادارے، متروکہ وقف املاک بورڈ، کو اختیار دیا کہ وہ نہ صرف ان دکانوں پر قابض لوگوں کو نکال باہر کرے بلکہ ان سے پچھلے کئی سالوں کا کرایہ بھی وصول کرے۔

تاہم اس واضح عدالتی فیصلے کے باوجود بورڈ کو اس پر عمل درآمد کرانے میں مزید آٹھ سال لگ گئے کیونکہ، لیہ کے کچھ شہریوں کے مطابق، مقامی حکومتی اہلکار دکانوں پر قابض لوگوں سے رشوت لے کر ان کے خلاف کارروائی کو ٹالتے رہے۔ تاہم دوسری طرف شہر میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو چاہتے تھے کہ حکومت دکانوں پر کیا گیا قبضہ ختم کرانے کے بعد نیلامی کے عمل کے ذریعے ان کا کرایہ متعین کرے تاکہ انہیں بھی یہ دکانیں کرائے پر لینے کا موقع مل سکے۔ اس لیے وہ مسلسل ضلعی انتظامیہ کو کہتے رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو جلدازجلد لاگو کیا جائے۔ ان کے اصرار کے پیش نظر چند ہفتے قبل بالآخر مقامی سرکاری اہلکاروں نے زیرِ قبضہ دکانوں کو سر بمہر کر دیا اور ان کے قابضین سے واجب الادا کرائے کی مد میں تقریباً ایک کروڑ 43 لاکھ روپے بھی وصول کر لیے۔ 

دو ملک دو کہانیاں

ایم-سی ہائی سکول کے بانی اندر بھان ڈھینگڑا کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے انہوں نے لیہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے بھراتری ٹرسٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنا کر اپنی تمام زرعی زمینیں اور شہر میں واقع بہت سی دکانیں اور مکان اس کے لیے وقف کر دیے۔ ان کی دیکھا دیکھی اسی علاقے کے کچھ دیگر بے اولاد ہندوؤں نے بھی اپنی جائیدادیں اسی ٹرسٹ کے نام لگا دیں۔ 

نتیجتاً 1947 میں بھراتری ٹرسٹ مجموعی طور پر 164 دکانوں، کئی مکانوں اور ساڑھے تین ہزار ایکڑ کے لگ بھگ دیہی اور ایک سو ایکڑ (آٹھ سو کنال) شہری اراضی کا مالک تھا۔ قیامِ پاکستان کے دوران جب لیہ کی ساری ہندو آبادی انڈیا منتقل ہو گئی تو اس کی ملکیتی زمینوں اور عمارتوں کا انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ کے سپرد کر دیا گیا۔ اس اقدام کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ ان جائیدادوں پر انڈیا سے آنے والے مہاجرین کو آباد کیا جائے۔ لیکن چونکہ 1950 کی دہائی میں پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کی رو سے بورڈ کے زیرِ انتظام زمین اور عمارتوں کے حقوقِ ملکیت کسی فرد یا کسی دوسرے ادارے کو منتقل نہیں کیے جاسکتے اس لیے اسے صرف یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ان جائیدادوں کو کرائے پر دے سکے۔ 

اس بندوبست کے تحت بورڈ نے لیہ شہر میں واقع بھراتری ٹرسٹ کی ملکیتی درجنوں دکانیں کرائے پر دے دیں تاکہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ایم-سی ہائی سکول کا انتظام چلایا جا سکے۔ تاہم 1973 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نجی تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لیے تو یہ سکول بھی صوبائی محکمہ تعلیم کو منتقل کر دیا گیا اگرچہ اس کی زمین متروکہ وقف املاک بورڈ کے پاس ہی رہی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'تیسری نسل بوڑھی ہو گئی، حق نہیں ملا': گلگت ایئرپورٹ کے لیے جگہ دینے والے خاندان 74 سال سے متبادل زمینوں کے منتظر۔

دوسری طرف اس سے پہلے ہی محکمہ مال کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے مختلف لوگوں نے بھراتری ٹرسٹ کی زمینوں اور دکانوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں، متروکہ وقف اِملاک بورڈ کے لیہ کے ایڈمنسٹریٹر نور اسلم کے مطابق، شہر میں واقع اس کی آٹھ سو کنال تجارتی زمین میں سے ان کے ادارے کے پاس اب صرف ایک سو 64 کنالیں (ساڑھے 20 ایکڑ) باقی رہ گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح 21 مختلف دیہات میں واقع اس کی 27 ہزار نو سو 90 کنال 10 مرلے (تقریباً ساڑھے تین ہزار ایکڑ) زرعی زمین میں سے چار ہزار پانچ سو 44 کنالوں (پانچ سو 68 ایکڑ) پر بھی لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

لیہ کے ڈپٹی کمشنر کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے وسط میں واقع جناح پارک بھی اسی ٹرسٹ کی زمین پر بنایا گیا ہے جبکہ ٹِبہ مرجانہ نامی بستی میں متعدد مقامی افراد نے جعل سازی کے ذریعے اس کی رہائشی زمین اپنے نام لگوا کر اس پر پکے مکان بنا لیے ہیں۔ 

یہ رپورٹ 1994 میں لیہ کے ایک شہری خالد منیر پراچہ کی شکایت پر تیار کی گئی تھی جس میں انہوں نے اس وقت کی وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو ٹرسٹ کی جائیدادوں پر قبضے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ اُس وقت ٹرسٹ کی زرعی زمین کا کرایہ محض ایک ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ کے حساب سے وصول کر رہا تھا جس سے اس کو ہر سال صرف چار لاکھ 29 ہزار چار سو پانچ روپے آمدن ہو رہی تھی حالانکہ اُس زمانے میں لیہ میں زرعی زمینوں کا سالانہ کرایہ 35 ہزار روپے فی ایکڑ تھا۔ 

شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم، سول سوسائٹی نیٹ ورک، کے سربراہ میاں سلمان اس صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھراتری ٹرسٹ کی جائیدادوں کو کوڑیوں کے بھاؤ کرائے پر دینے اور غیرقانونی طور پر ان کی ملکیت منتقل کرنے کے ذمہ دار لوگوں اور حکومتی اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

وہ انڈین ریاست ہریانہ کے علاقے پانی پت میں لیہ سے نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی طرف سے قائم کیے گئے اندر بھان لیہ بھراتری ایجوکیشنل ٹرسٹ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے زیرِ انتظام ایک ہائر سیکنڈری سکول، ایک ہائی سکول اور ایک پوسٹ گریجوایٹ کالج چلایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق "اگر قیام پاکستان کے بعد حکومت بھراتری ٹرسٹ کی جائیدادوں کو درست انداز میں سنبھالتی تو یہاں بھی اندر بھان ڈھینگڑا کے شروع کردہ تعلیمی کام کو بہت آگے بڑھایا جا سکتا تھا"۔

تاریخ اشاعت 21 مارچ 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.