بھکر کے محنت کش روزگار کے لیے دوسرے اضلاع کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟

postImg

وقاص احمد خان

postImg

بھکر کے محنت کش روزگار کے لیے دوسرے اضلاع کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟

وقاص احمد خان

رانا محمد قاسم 41 برس کے ہیں۔ وہ بھکر کی تھل ٹیکسٹائل مل میں بطور کاریگر کام کرتے تھے۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت قائم ہونے والی یہ مل 2012ء میں مستقلاً بند کر دی گئی اور قاسم بے روزگار ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ان کے روزگار کا سلسلہ انتہائی غیر مستقل رہا ہے۔وہ بعض گھریلو مجبوریوں کے باعث بھکر شہر سے باہر نہ جا سکے اور اب انتہائی قلیل اجرت پر ایک نجی کالج میں بطور چوکیدار کام کر رہے ہیں۔

گھریلو مجبوریاں بھکر کے سبھی بے روزگاروں کے پیروں کی بیڑیاں نہیں بن پاتیں۔ 24 سالہ محمد کامران کا تعلق بھکر کے گاؤں کھِچی کلاں سے ہے۔ وہ 2016ء سے فیصل آباد کی مختلف ٹیکسٹائل ملوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔

محمد کامران نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان جیسے کئی نوجوان روزگار کی تلاش میں بھکر سے فیصل آباد کا رخ کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں موجود مزدور طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ ضلع بھکر، لیہ اور خوشاب سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محنت کشوں کے لیے بھکر میں مناسب اجرت پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بس فصل کی کٹائی کے وقت ہی انہیں عارضی روزگار میسر آتا ہے۔وہ کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو مزدوری کے لیے روزانہ بھکر سے 40 کلومیٹر دور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہیں۔

لیبرفورس سروے 2020-21ء کے مطابق بھکر کے دیہی اور شہری علاقوں میں مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح 3.2 فیصد ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں بے روزگاری کی مجموعی شرح 2.8 فیصد ہے۔ دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع بھکر میں بے روزگاری کی شرح چھ فیصد ہے۔

ضلع بھکر کی ویب آفیشل ویب سائٹ کے مطابق ضلع میں 46 صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں جبکہ صرف چھ کام کر رہے ہیں جن میں سے چار فلور ملیں ہیں۔

بھکر شہر کے 38 سالہ اطہر نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 2010ء میں تھل ٹیکسٹائل مل بھکر میں بطور الیکٹریشن کیا۔ مل بند ہو جانے کے بعد روزگار کے لیے انہیں بھی اپنا ضلع چھوڑنا پڑا۔ پہلے وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کام کرتے رہے اور اب رحیم یار خان میں قائم ایک شوگر مل میں کام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کے ضلع میں لوگوں کو باعزت روزگار دینے کے لیے کوئی قابل ذکر بڑی صنعت موجود نہیں۔ تحصیل دریا خان میں ایک شوگر مل ہے لیکن اس سے بہت کم لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔

بھکر کے دوسرے شہروں کی صنعتوں میں کام کرنے والے افراد ایسی بہت سی سہولتوں سے محروم ہیں جو انہیں تھل ٹیکسٹائل جیسی بڑی مل میں گھر کے قریب حاصل تھیں۔ نیز یہ مل عورتوں کے لیے بھی مناسب روزگار کا ذریعہ تھی۔

محمد قاسم بتاتے ہیں کہ اس ٹیکسٹائل مل کے توسط سے ملازمین کو میسر سہولتوں میں سے ایک ڈسپنسری بھی تھی جس سے مل ملازمین کے علاوہ اہل علاقہ مفت علاج اور ادویات  سے مستفید ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے سکول اور رعایتی نرخوں پر سودا سلف خریدارنے کے لیے  سٹور بھی موجود تھا۔

ان کے مطابق شاید یہ بھکر کی واحد صنعت تھی جس میں خواتین مزدوروں کی معقول تعداد کام کرتی تھی۔"اس مل کے بند ہو جانے کے بعد بھکر میں خواتین کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔" اب ایسی خواتین یا تو لوگوں کے گھروں میں معمولی سی تنخواہ پر کام کرتی ہیں یا کھیتوں میں کٹائی کے دوران  محنت مزدوری کرتی ہیں۔

لیبرفورس سروے 2020-21ء کے مطابق بھکر کی شہری خواتین میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد ہے۔

صحافی اور سماجی شخصیت لقمان اسد بتاتے ہیں کہ  1949ء میں تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی  (ٹی ڈی اے) ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد گنجان آباد علاقوں سے مہاجرین کی تھل کے علاقوں میں آبادکاری کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں 50 فیصد ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو گئے، ملک کی سب سے بڑی صنعت میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ

اس دوران حکومت نے تھل کے لوگوں کی بہت سی زمینیں تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے نام ضبط کر لیں جس کے عوض مقامی لوگوں سے کئی وعدے کیے گئے جن میں ان علاقوں کو تھل کینال سے سیراب کرنا اور روزگار کے لیے مختلف صنعتیں لگانا شامل تھا۔

انہوں نےدعویٰ  کیا  کہ تھل کینال  کے ذریعے وعدہ کے مطابق فائدہ نہیں پہنچایا گیا۔ دوسری طرف پورے ضلع میں صرف ایک ٹیکسٹائل مل لگائی گئی جو تقریباً دو سے اڑھائی ہزار افراد کو روزگار فراہم کرتی تھی اور بعد ازاں اسے بھی بند کر دیا گیا۔

ضلع بھکر کے علاقے جنڈانوالہ کی سماجی شخصیت مفتی عامر شفیق کے مطابق دوسرے شہروں کا رخ نہ کرنے والے غریب محنت کشوں کی ایک قابل ذکر تعداد بڑے کاشتکاروں اور وڈیروں سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جسے اتارنے کے لیے انہیں طویل عرصہ ان کے ہاں کام کرنا پڑتا ہے۔

تاریخ اشاعت 9 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وقاص احمد خان کا تعلق بھکر سے ہے. پچھلے سات برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ علاقائی، سماجی اور سیاسی مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.