"پیسے دو گی تو پیسے ملیں گے"، ننکانہ صاحب میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم کا حصول خواتین کے لیے درد سر بن گیا

postImg

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"پیسے دو گی تو پیسے ملیں گے"، ننکانہ صاحب میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم کا حصول خواتین کے لیے درد سر بن گیا

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

ننکانہ صاحب کی فرزانہ بی بی اپنے دو بچوں کے ساتھ صبح چھ بجے ہی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کےدفتر پہنچ گئی تھیں۔

وہ شہر سے 20 کلومیٹر دور خیر پور خونی گاؤں میں رہتی ہیں۔ ان کے خاوند بینائی سے محروم ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ اسی لئے انہوں نے سرکاری امداد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ (بی آئی ایس پی) کے دفتر سے رجوع کیا ہے۔

فرزانہ بی بی بتاتی ہیں کہ تین ماہ قبل پروگرام کی سروے ٹیم ان کے گھر آئی تھی جس نے ان کے گھرانے کے حالات دیکھ کر یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں ایک ماہ تک امداد ملنا شروع ہو جائے گی لیکن اب تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

"میں تین ماہ سے دفتر کے چکر لگا رہی ہوں۔ کئی مرتبہ رش کی وجہ سے اہلکاروں سے ملنے اور بات کرنے کی باری ہی نہیں آئی اور مجھے واپس جانا پڑا۔ ایک دو مرتبہ باری آئی توبتایا گیا کہ ابھی میری تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہوا ۔"

انہوں نے بتایا کہ وہ سلائی کڑھائی کر کے بمشکل گھر کی روٹی پوری کرتی ہیں۔ جب انہیں پروگرام کے دفتر آنا ہو تو سارا دن ضائع ہو جاتا ہے اور دیہاڑی توڑنے کے ساتھ کرایہ الگ بھرنا پڑتا ہے۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق ننکانہ صاحب کی کل آبادی 13 لاکھ 55 ہزار ہے اور سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2019 ء میں یہاں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے والی خواتین کی تعداد تقریباً 20 ہزار تھی جو چار سال میں بڑھ کر 30 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

پروگرام میں رجسٹرڈ مستحق خواتین کو ہر تین ماہ بعد ساڑھے آٹھ ہزار روپے ملتے ہیں۔

اس پروگرام میں شامل ہونے کی درخواست پر ٹیم متعلقہ خاتون کے گھر کا سروے کرتی ہے۔ اس دوران عملہ خاندان کی مالی حالت کا جائزہ لیتا ہے اور اپنی تجویز پروگرام کے دفتر میں جمع کرا دیتا ہے۔ اہلیت کی تصدیق کے بعد درخواست گزار کو پروگرام میں رجسٹر کر لیا جاتا ہے۔

بی آئی ایس پی آفس ننکانہ کے مطابق اس کے پاس ہر ماہ ڈیڑھ ہزار سے 1800 تک نئی درخواستیں آرہی ہیں۔ ان کی جانچ پڑتال اور سروے پر دو سے تین مہینے لگ جاتے ہیں۔

دفتر کے مطابق اب مئی اور جون میں آنے والی تین ہزار 220 درخواستیں زیر التوا یعنی جانچ پڑتال کے عمل میں ہیں۔

تاہم درخواست گزاروں کی جانچ پڑتال اور انہیں رجسٹرڈ کرنے کا عمل کچھ اتنا آسان اور شفاف دکھائی نہیں دیتا۔

ننکانہ کے نواحی گاؤں واربرٹن کی رضیہ بی بی لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے اپنے تین بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ سے اپنے گھر کا سروے کرانے کے لیے دفتر کے چکر لگا رہی ہیں لیکن ہر بار انہیں 'آئندہ ہفتے' آنے کا کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔

"میں چند روز قبل دفتر پہنچی تو وہاں ایک شخص آ کر کہنے لگا بی بی چکر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سروے کرانا ہے تو دو ہزار روپے دو کل سروے ہو جائے گا۔اس شخص کو بتایا کہ میں بیوہ ہوں کمانے والا کوئی نہیں تو اتنے پیسے کہاں سے دوں۔ بحث و تکرار کے بعد وہ ایک ہزار پر مان گیا۔"

رضیہ بی بی نے بتایا کہ اگلے ہی روز سروے ٹیم ان کے گھر پہنچ گئی۔ مگر امدادی رقم جاری کرانے کے لیے ایک مرتبہ پھر رشوت مانگی جا رہی ہے جبکہ ان کے پاس مزید پیسے نہیں ہیں۔

ننکانہ صاحب میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے سروے کرنے والے عامر علی رشوت کے الزام کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سروے کے لیے جس علاقے میں ڈیوٹی لگتی ہے وہاں سروے مکمل کر لیا جاتا ہے۔سروے ہو نے کے بعد بھی تصدیقی عمل ہوتا ہے۔

دفتر کے ریکارڈ کے مطابق ننکانہ صاحب میں 30 ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ خواتین کو ہر تین ماہ بعد ساڑھےآٹھ ہزارروپے کی قسط رجسٹرڈ موبائل شاپ سے ملتی ہے۔

اس سے پہلے امداد لینے والی خواتین کو اے ٹی ایم کارڈ جاری کئے گئے تھے۔ لیکن پیسے نکلوانے میں فراڈ کے بڑھتے واقعات کے بعد ایک سال قبل کارڈ بند کر دیئے گئے۔ اب امدادی رقم شناختی کارڈ پر آتی ہے اور موبائل فون ڈیلر بائیو میٹرک مشین کے ذریعے تصدیق کر کے خواتین کو رقم دیتے ہیں۔

تاہم خواتین کو شکایت ہےکہ رقم دینے والے ڈیلر ادائیگی کے موقع پر ان سے کٹوتی کرتے ہیں۔

ننکانہ صاحب سے تقریباً 35 کلومیٹر دور سید والہ کی معراج بی بی تین سال سے اس پروگرام کے تحت ملنے والی امدادی رقم لے رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب رقم لینے وہ سید والہ میں موبائل شاپ پر جاتی ہیں تو ڈیلر ان کے پیسوں میں سے پانچ سو روپے کٹوتی کر لیتے ہیں۔

"جب میں پوری رقم کا تقاضا کرتی ہوں تو جواب ملتا ہے ' ننکانہ صاحب کرایہ لگا کر چلی جاؤ وہاں پورے پیسے ملیں گے یہاں تو فیس لگے گی۔' مجبوراً میرے پاس کٹوتی کرانے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔"

بے جا کٹوتی اور خواتین کی مشکلات کی شکایات پر بی آئی ایس پی انتظامیہ نے رقم کی شفاف تقسیم کے لیے ضلع ننکانہ صاحب کے سات سکولوں میں سہولت مرکز قائم کیے ہیں۔

ان مراکز میں آنے والی خواتین کی سہولت کے لیے کیے جانے والے انتظامات ناکافی ہیں جنہیں تپتی دھوپ میں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر امداد لینا پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی قطار میں کھڑی بشریٰ نامی خاتون گرمی سے بیہوش ہو گئی تھیں جنہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا گیا۔

ریلوے روڈ پر پرائمری سکول نمبر 1 میں قائم سہولت سنٹر پر آنے والی نذیراں بی بی بتاتی ہیں کہ سہولت مرکز بننے پر وہ بہت خوش تھیں کہ اب انہیں موبائل شاپ پر اضافی رقم نہیں دینا پڑے گی۔ لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔

"جب میں جب سہولت سنٹر پہنچی تو وہاں سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے اندر جانے کی اجازت دینے کے لیے ایک ہزار روپے رشوت طلب کی اور انکار پر مجھے سکول کے باہر ہی کھڑا کر دیا۔ جو خواتین پیسے ادا کر رہی تھیں انہیں قطار اور انتظار کے بغیر پیسے مل رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

متروکہ املاک کا ضلع: ننکانہ صاحب کی میونسپل کمیٹی کنگال کیوں ہوئی؟

وہ کہتی ہیں کہ جب مرکز کے باہر خواتین کا رش ہو گیا تو سب نے مچایا، احتجاج کیا اور تب کہیں جا کر پیسے ملے۔ اگر علم ہوتا کہ پیسے لینے کے لیے اس قدر مشکل جھیلنا پڑے گی تو وہ کبھی یہاں نہ آتیں۔

بی آئی ایس پی ننکانہ صاحب کی ڈپٹی ڈائریکٹر طیبہ یاسمین کہتی ہیں کہ سروے سے لے کر امدادی رقم کی وصولی تک ادارے کی جانب سے ہر خدمت مفت فراہم کی جاتی ہے اور اگر کسی دفتر یا رجسٹر موبائل شاپ کے خلاف خواتین سے رشوت لینے یا کٹوتی کرنے کی اطلاع ملی تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے تین مہینے میں 25 موبائل شاپس کے خلاف ایسی شکایات آئی ہیں جن پر کارروائی کرتے ہوئے انہوں نے تمام کی آئی ڈی بلاک کرا دیں اور اضافی رقم بھی خواتین کو واپس کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی پی او نے سہولت مراکز پر رشوت لینے کی شکایات پر پولیس اہلکاروں کےخلاف انکوائری اور محکمانہ کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔

تاریخ اشاعت 1 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ضلع ننکانہ صاحب سے تعلق تکھنے والےصداقت علی عوامی، سماجی، سیاسی اور دیگر مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.