کوہاٹ میں چیچنہ گاؤں کے زرمعین خان کو اپنی بنجر زمینیں دوبارہ آباد ہونے کا امکان دکھائی دینے لگا ہے۔ 600 گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں میں سات آٹھ سال پہلے زیرزمین پانی کی مقدار اس قدر کم ہو گئی تھی کہ انہیں پینے کا پانی بھی تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوسرے گاؤں سے لانا پڑتا تھا۔
اب ان کے گھر میں موجود کنویں میں پانی کی مقدار بڑھنے لگی ہے۔
زرمعین کے علاوہ گاؤں کے دیگر لوگوں کے خشک کنوؤں میں بھی پانی آ گیا ہے اور لوگوں نے اپنی زمینوں پر دوبار کاشت کاری شروع کر دی ہے۔
یہ سب کچھ ڈیڑھ ماہ پہلے شروع ہونے والے ایک منصوبے کی بدولت ہوا جس کا مقصد اس علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح کو بلند کرنا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی مدد سے شروع کیے گئے اس منصوبے کے تحت ملک میں آبی وسائل کے بارے میں تحقیق کا کام کرنے والی کونسل (پی سی آر ڈبلیو آر) نے کوہاٹ اور ہنگو میں ایسے مقامات کی نشاندہی کی جہاں برساتی نالے دیہات میں سے گزرتے ہیں۔ ان نالوں پر مخصوص جگہوں پر بند بنائے گئے تاکہ پانی کو تالاب کی شکل میں کچھ دیر کے لیے روکا جا سکے۔ ان تالابوں کے اندر 20 تا 25 فٹ گہرے سوراخ کیے گئے تاکہ پانی ان راستوں سے زیرزمین پہنچ جائے۔
جب بارش ہوتی ہے تو ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ یہ پانی تالابوں کے ذریعے بڑی مقدار میں زمین کے اندر جذب ہو کر سطح آب کو بلند کر دیتا ہے۔
کوہاٹ اور ہنگو میں ایسے سات منصوبے شروع کیے گئے تھے جن پر کام کا آغاز نومبر 2022 میں ہوا اور یہ رواں سال فروری میں مکمل ہو گئے۔ کونسل کے مطابق ان مںصوبوں کی بدولت 10 ہزار افراد کو پینے کا صاف پانی ان کے گھروں میں دستیاب ہو گا۔
زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے سے یہاں کاشت کاری ممکن نہیں رہی تھی
ان منصوبوں کی تکمیل سے پہلے جب کنوؤں سے پانی نکالنے کے لیے پمپ چلایا جاتا تھا تو تین منٹ کے بعد پانی آنا بند ہو جاتا تھا۔ منصوبے مکمل ہونے کے بعد یہ دورانیہ بڑھ کر دس منٹ تک جا پہنچا اور اپریل کے آغاز میں بارشوں کے بعد اب دس گھنٹے پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کوباٹ کے علاقے شیر علی بانڈہ سے تعلق رکھنے والے محمد طاہر او ر اُن کے چھوٹے بھائی پچھلے پانچ سال سے مختلف شہروں میں محنت مزدوری کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اپنی سولہ ایکڑ اراضی پر گندم، مکئی اور سبزیاں کاشت کرکے سالانہ 10 لاکھ سے زیادہ روپے کما لیتے تھے۔ لیکن چھ سال پہلے ان کا ٹیوب ویل خشک ہو گیا جس کے بعد ان کے کھیت بھی ویران ہو گئے۔ 2017ء میں پانی اس قدر کمیاب ہو گیا کہ پینے کے لیے بھی دستیاب نہیں تھا۔
زرمعین کی طرح محمد طاہر بھی اب خوش ہیں کیونکہ اب ان کے گھر میں کنویں کی موٹر پانچ گھنٹے چلانے کے بعد بھی پانی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی بدولت وہ ناصرف دوبارہ کاشتکاری کر سکیں گے بلکہ مویشیوں کے لیے بھی پینے کی پانی کا بڑا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
پانچ خشک اضلاع
یہ پہلا موقع ہے جب خیبرپختونخوا میں زیرزمین پانی کی مقدار بڑھانے کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ اگست 2021 میں وفاقی وزارت آبی وسائل نے ملک میں زیر زمین پانی کے حوالے سے سینٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔
کوہاٹ اور ہنگو میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے سات منصوبے شروع کیے گئے تھے
رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سال میں زیر زمین ہانی 25 سے 74 فٹ تک نیچے جا چکا ہے اور خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر پانی کی سطح اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آئندہ چند برس میں ان اضلاع کے لوگوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان میں ضلع خیبر سب سے زیادہ متاثر ضلع بتایا گیا جہاں گزشتہ 10 سال میں زیر زمین پانی 74 فٹ تک نیچے جا چکا ہے۔ اس کے بعد ضلع ہری پور میں 61.50 فٹ، ضلع مہمند میں 57.42 فٹ، ضلع باجوڑ میں 32.79 فٹ اور ضلع کرم میں زیر زمین پانی 25.75فٹ نیچے چلا گیا ہے۔
اختر زمان ضلع ہنگو کی یونین کونسل درسمند کے گاؤں ریگی کے نائب چیئرمین ہیں۔ اُن کے بقول چند سال پہلے تک علاقے میں تیس فٹ گہرائی میں وافر مقدار میں پانی دسیتاب ہوتا تھا لیکن اب 60 فٹ کھدائی کر کے بھی بمشکل پانی ملتا ہے۔
"ہمارے گھر میں باپ دادا کے زمانے سے تیس فٹ گہرا کنواں تھا جس سے گھر کے تمام ضرریات پورا ہوتی تھیں لیکن پانی نیچے جانے کی وجہ سے ایک سال پہلے مزید 30فٹ کھدائی کروانا پڑی لیکن وہ بھی ناکافی رہی"۔
سیلم خان کنواں یا ٹیوب لگانے سے پہلے کسی علاقے میں زیرزمین پانی کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ پچھلے بائیس سال سے محکمہ پبلک ہیلتھ اور محکمہ آبپاشی کے لیے کام کرنے کے ساتھ نجی طور پر بھی سروے کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پانی کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے استعمال اور ذخائر کی نگرانی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے سرکاری و امدادی اداروں کے علاوہ لوگ ذاتی طور پر بھی کسی روک ٹوک کے بغیر دھڑا دھڑ کنویں کھود رہے ہیں یا ٹیوب ویل لگا رہے ہیں۔
یونیسف کے مںصوبوں کی بدولت 10 ہزار افراد کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہو گا
پی سی آر ڈبلیو آر کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر منیب خٹک بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سال میں صوبے میں زیر زمین پانی نہ صرف کم ہوا ہے بلکہ کئی اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں زیرزمین پانی بالکل پانی خشک ہوچکا ہے جس کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ پانی نکالنا اور اس کا ضیاع ہے۔
ڈاکٹر خٹک کے بقول موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں میں کمی، گلیشیئروں کا تیزی سے پگھلنا، کارخانوں اور سروس سٹیشنوں میں تازہ پانی کا استعمال اور پانی کے ذخائر کو محفوظ نہ رکھنا وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی زمینوں کو روایتی طریقوں سے سیراب کرنے سے بھی پانی کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر منیب خٹک کا کہنا ہے اگر لوگ اپنے دیہات کی سطح پر اس طرح کے منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں تو کونسل بہت کم معاوضے پر انہیں تکنیکی مدد فراہم کر سکتی ہے۔ انہوں ںے بتایا کہ بہت کم لاگت سے گھروں اور دفاتر میں بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کونسل پشاور اور اسلام آباد کے بہت سے سرکاری دفاتر میں بارش کے 95 فیصد پانی کو محفوظ کرنے کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
آبپاشی کے نظام کی ٹوٹ پھوٹ: شانگلہ میں زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں
منیب خٹک کے مطابق ہنگو، کوہاٹ درہ آدم خیل، ضلع خیبر میں لنڈی کوتل و طورخم، اورکزئی، لوئر وسنٹرل کرم اور اورکزئی کی سرحد پر برف باری اور بارشوں کے پانی سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے ہے۔ اگر ان علاقوں میں چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں تو زیرزمین پانی کی سطح بڑھائی جا سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں پانی کے ذخائر کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے جولائی 2020 میں صوبائی اسمبلی سے واٹر ایکٹ منظور کروایا تھا جس کا مقصد ایسی اتھارٹی کا قیام عمل میں لانا تھا جو کے پانی کی ذخائر کو تحفظ فراہم کرے، اس کے گھریلو، تجارتی اور صنعتی استعمال کا جائزہ لے ور پانی کے ضیاع کے روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ تاہم اس اتھارٹی کا واحد اجلاس اگست 2021 میں ہوا تھا جس کے بعد اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تاریخ اشاعت 26 اپریل 2023