خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع لوئر دیر کی تحصیل میدان کے کاشت کار اور زمین دار شدید الجھن کا شکار ہیں کہ آیا انہیں اس بار مکئی کاشت کرنی چاہیے یا نہیں۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ کاشت کار فضل الحلیم خان کہتے ہیں کہ پچھلے سال گندم کی کٹائی کے بعد جب اپریل میں مکئی کی بوائی شروع کی گئی تو ضلعی انتظامیہ نے مقامی لوگوں کو پیشگی اطلاع دیے بغیر اس کی کاشت پر پابندی عائد کر دی۔ ان کے مطابق اس وقت تک ان جیسے کئی کاشت کار اور زمین دار یہ فصل لگا چکے تھے لیکن سرکاری پابندی پر عمل درآمد کے لیے انہیں اس پر ہل چلانا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ فصل کی اس طرح تلفی کے نتیجے میں مقامی کاشت کاروں کو "کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا" کیونکہ اس سے ان کے وہ تمام پیسے ضائع ہو گئے جو انہوں نے زمین کی تیاری اور فصل کی بوائی پر خرچ کیے تھے۔ یہی نہیں بلکہ "وہ مکئی کی فصل سے ہونے والی متوقع آمدن سے بھی محروم ہو گئے جبکہ ان کے پاس کسی دوسری فصل کی بوائی کا وقت بھی باقی نہ رہا"۔
حکومت کے فیصلے سے نالاں کاشت کاروں اور زمین داروں نے پچھلے سال متعدد مظاہرے بھی کیے جن کا انتظام میدان ایکشن کمیٹی نامی مقامی تنظیم نے کیا تھا۔ ان مظاہروں کی روک تھام کے لیے ضلعی انتظامیہ نے اس تنظیم سے مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں پچھلے سال ہی فریقین کے درمیان ایک زبانی معاہدہ طے پا گیا۔
اس معاہدے کے تحت کاشت کاروں اور زمین داروں کو یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں نہ صرف ان کی تلف کی گئی فصل کا معاوضہ ادا کیا جائے گا بلکہ انہیں روزمرہ استعمال کے لیے مکئی کا آٹا اور جانوروں کے لیے چارہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ تاہم ایک بڑے مقامی زمیندار جوہر خان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
وحید گل نامی 51 سالہ کاشت کار ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک ماہ بعد مکئی کی نئی فصل کی کاشت کا وقت آ چکا ہو گا لیکن "ابھی تک ہمیں نہ تو یہ معلوم ہے کہ اس پر پابندی برقرار ہے یا نہیں اور نہ ہی گزشتہ فصل کے ضیاع سے ہونے والے ہمارے نقصان کا کوئی ازالہ کیا گیا ہے"۔
دوسری طرف لوئر دیر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عبدالولی خان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ایک 29 روزہ جائزے کے ذریعے کسانوں کے نقصانات کا اندازہ لگا کر ایک مفصل رپورٹ تیار کی ہے جو صوبائی چیف سیکرٹری کو بھیج دی گئی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کاشت کاروں اور زمین داروں کو زرِتلافی کی ادائیگی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے بلکہ اس کا اختیار صرف صوبائی حکومت کو ہے۔ ان کے مطابق "حکومت اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کرے گی اس سے کسانوں کو آگاہ کر دیا جائے گا"۔
امن یا روزگار
پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل تحصیل میدان کی دو لاکھ 19 ہزار سے زیادہ آبادی کے بیشتر حصے کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ ان میں سے اکثر فضل الحلیم خان اور وحید گل کی طرح بے زمین کاشت کار ہیں جو دوسرے لوگوں کی ملکیتی تقریباً آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر مکئی، گندم اور چاول کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق میدان میں مکئی کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً چار سو 40 کلو گرام ہے جس کی بنیاد پر مقامی کاشت کار تخمینہ لگاتے ہیں کہ یہاں اگنے والی مکئی کی اوسط سالانہ مالیت تقریباً 18 کروڑ روپے ہے۔ مقامی لوگ اسے نہ صرف اپنی روزمرہ خوراک میں استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ اسے فروخت کر کے نقدی بھی کماتے ہیں۔ اس کے ڈنٹھل خشک کر کے سردی اور برف باری کے موسم میں جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
حکومت نے پہلی مرتبہ 2008 میں میدان میں مکئی کاشت پر پابندی لگائی۔ اُس سال اِس علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس کی قیادت کرنے والے فوجی حکام کا خیال تھا کہ دہشت گرد سکیورٹی اہل کاروں اور مقامی آبادی پر حملہ کرنے کے لیے مکئی کی فصل کو آڑ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ یہ پابندی 2012 تک برقرار رہی۔
کئی سال بعد 2021 میں اسے دوبارہ عائد کر دیا گیا کیونکہ، ایک مقامی قبائلی رہنما کے مطابق، اُس سے پچھلے سال میدان کے علاقے میں دہشت گردی کے متعدد واقعے دیکھنے میں آئے تھے۔ مثال کے طور پر 24 ستمبر 2020 کو ایک مقامی امن کمیٹی کے سربراہ خان بادشاہ کی گاڑی پر ریموٹ کنڑول بم سے حملہ کیا گیا جس میں دو افراد زخمی ہوٸے۔ اسی طرح یکم اکتوبر 2020 کو دہشت گردوں نے ایک مقامی سکول ٹیچر کو فائرنگ کر کے مار دیا جبکہ 18دسمبر کو دہشت گردوں کی فاٸرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہل کار ہلاک ہو گئے۔
کاشتکاروں کو فصل پر پابندی کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
تاہم میدان میں رہنے والے اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق رکن سعید گل مکئی کی کاشت پر پابندی کے احیا کو حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے یہ قدم اٹھاتے وقت لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ان کے مطابق "اگر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قبائلی عمائدین سے مشورہ کیا جاتا تو وہ اکٹھے ہو کر اس مسئلے کا کوئی بہتر حل تلاش کر سکتے تھے"۔
عامر خان نامی 37 سالہ زمین دار بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ آخر یہ پابندی صرف تحصیل میدان پر ہی کیوں لاگو کی گئی ہے حالانکہ، ان کے مطابق، لوئر دیر کے دیگر علاقوں میں بھی حالیہ سالوں میں دہشت گردی کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ پابندی اس سال برقرار رہی تو ہزاروں بے زمین کاشت کار اپنے روزگار کے واحد ذریعے سے محروم ہو جائیں گے۔ فضل الحلیم خان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ فصل کاشت نہ کر سکنے کے نتیجے میں کئی مقامی گھرانے "روٹی کو بھی ترس جائیں گے"۔
اس لیے ان کے ساتھی کاشت کار وحید گُل مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مکئی کی کاشت پر پابندی لگانے کے بجائے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے کاشت کاروں کے روزگار پر زد نہ پڑے۔
خیبرپختونخوا میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے وائس چئیرپرسن اکبر خان بھی حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کے روزگار پر پابندیاں لگانا "کوئی اچھی حکمت عملی نہیں"۔ ان کے خیال میں ایسا کرنا نہ صرف آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہے جن کے تحت ریاست اور حکومت ایسا ماحول فراہم کرنے کے پابند ہیں جس میں لوگ اپنی معاشی سرگرمیاں بلاخوف و خطر انجام دے سکیں بلکہ اس سے میدان کی مقامی آبادی میں "پہلے سے موجود احساس محرومی مزید بڑھ جائے گا"۔
تاریخ اشاعت 5 مارچ 2022