عبدالحمید خان بلوچستان کے ضلع دالبندین کے رہائشی ہیں جو کوئٹہ سے ایران جانے والی شاہراہ پر واقع ایک پس ماندہ علاقہ ہے۔ یہاں سے قریب ترین یونیورسٹی 340 کلو میٹر دور کوئٹہ میں ہے۔ ان کے روزگار کا واحد ذریعہ کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان ہے جس کی آمدن اتنی محدود ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اتنی دور یونیورسٹی بھیجنے اور ان کے وہاں پڑھنے اور رہنے کے آخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
لیکن تین سال پہلے جب ان کے بیٹے ارسلان حمید یونیورسٹی جانے کی عمر کو پہنچے تو عبدالحمید خان کو ان اخراجات کے بارے میں پریشان نہیں ہونا پڑا کیونکہ اس وقت پنجاب حکومت بلوچستان کے رہنے والے طالب علموں کے لئے ایک خصوصی پروگرام چلارہی تھی جس کے تحت ناصرف پنجاب کی متعدد بڑی یونیورسٹیوں میں ان کو مفت تعلیم اور رہائش فراہم کی جاتی تھی بلکہ انہیں کھانے پینے کے لئے پانچ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا تھا۔
ان یونیوسٹیوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور گجرات یونیورسٹی شامل تھیں۔
ارسلان حمید نے اپنے لئے ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کا انتخاب کیا جہاں وہ سیاسیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ ان کا حتمی مقصد مقابلے کا امتحان پاس کر کے نوکر شاہی کا حصہ بننا تھا۔
لیکن اب جبکہ وہ اپنی چار سالہ ڈگری کے آخری سال میں ہیں تو یونیورسٹی نے اچانک انہیں دی جانے والی رعائتیں ختم کر دی ہیں کیونکہ، یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق، پنجاب حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص بجٹ میں کمی کر دی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے یونیورسٹی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ تمام طلبا سے کسی استثنا کے بغیر ان کے تعلیمی اخراجات وصول کرے۔
اس فیصلے سے ناصرف بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم دو سو اسی بلوچ طلبا متاثر ہوں گے بلکہ مسقبل میں کئی اور بلوچ طلبا بھی یہاں پڑھنے سے محروم ہو جائیں گے۔
پنجاب کی دوسری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بلوچ طلبا بھی اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں مثال کے طور پر ان پر آنے والے اخراجات کو کم کرنے کے لئے چند ہفتے پہلے پنجاب یونیورسٹی نے ان کے لئے مخصوص نشستوں میں پچاس فی صد کمی کر دی۔ اگرچہ بعد میں بلوچ طلبا کی طرف سے کئے گئے احتجاج کی وجہ سے ان میں سے بیس فیصد نشستیں بحال کر دی گئی ہیں لیکن ان بحال شدہ سیٹوں کو صرف بلوچ خواتین کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے تو حکومتی مراعات کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ طلبا کی ہاسٹل رجسٹریشن بھِی منسوخ کر دی ہے۔ انہیں مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ اب پیسے دے کر ہی ہاسٹل میں کمرہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس صورتِ حال نے ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بلوچ طلبا کو مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ نہ تو وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی انکے والدین میں اتنی مالی سکت ہے کہ وہ ان کی تعلیم اور رہائش کے اخراجات ادا کر سکیں۔ یہ اخراجات قریب قریب بارہ ہزار ماہانہ بنتے ہیں جو دالبندین جیسے مالی وسائل اور روزگار کے مواقع سے محروم علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی رقم ہے۔
طلبا کا پیدل مارچ
اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لئے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ طلبا نے یکم ستمبر 2020 کو یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کرنا شروع کیا لیکن چالیس دن کے مسلسل احتجاج کے باوجود بھی جب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی آواز نہ سنی تو 35 کے قریب طلبا نے ملتان سے اسلام آباد پیدل مارچ کرنا شروع کر دیا۔
یہ مارچ پانچ روز سے جاری ہے اور اس کے شرکا اب ساہیوال شہر کے آس پاس سے گزر رہے ہیں۔
ایک دن پہلے جب مارچ کرنے والے طلبا نے رات گزارنے کے لئے ضلع ساہیوال کے قصبے چیچہ وطنی کے قریب ایک ہوٹل کے باہر سڑک پر پڑاؤ ڈالا تو مسلسل پیدل چلنے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کے پاؤں زخمی ہو چکے تھے۔
ارسلان حمید اس مارچ کے مرکزی منتظم ہیں۔ زمین پر بچھی ایک چادر پر بیٹھے اور اپنے زخمی پاؤں کو صاف کرتے ہوئے انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی پورا دن سفر کرتے ہیں اور رات کو کبھی سڑک کے کنارے اور کبھی کسی چھوٹے سے ہوٹل میں سو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک کسی حکومتی اہل کار یا یونیورسٹی انتظامیہ کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔
دوسری طرف تین دِن پہلے ڈان نیوز ٹیلی وژن کے ٹاک شو 'ذرا ہٹ کے' میں بات کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شہوانی نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کی صوبائی انتظامیہ پنجاب میں زیرِ تعلیم ایسے تمام بلوچ طلبا کے تمام تعلیمی اخراجات ادا کرے گی جن کی تعلیم مالی رعائتوں کے خاتمے یا ان میں کٹوتیوں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔
اس بیان پر عمل درآمد کے لئے 14 اکتوبر کو رات گئے بلوچستان حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی انتظامیہ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے ان بلوچ طلباءکے تعلیمی اور رہائشی اخراجات کے لیے رقم مہیا کرے گی جو پہلے سے وہاں پنجاب حکومت کی رعائتی سکیم کے تحت زیرِ تعلیم ہیں۔
مارچ کے شرکا اس حکم نامے سے مطمئن نہیں۔ ان میں شامل جیئند بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت محض اس وقت زیرِ تعلیم طلبا کے اخراجات ادا کرنے پر تیار ہوئی ہے جبکہ ہمارامطالبہ ہےکہ نئے آنے والے طلبا کے لئے بھی وہ تمام مراعات فراہم کی جائیں جو اس سے پہلے پنجاب میں پڑھنے والے بلوچ طلبا کو دستیاب تھیں۔
انہوں نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکم نامے کے تحت 'مختص کئی گئی رقم ہمارے مسئلے کا مسقل حل نہیں کیونکہ اس سے صرف پہلے سے زیرِ تعلیم چند طلبا کے اخراجات ہی ادا ہو سکیں گے'.
ارسلان حمید بھی کہتے ہیں کہ ان کا مارچ ان کے تمام مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اسلام آباد پہنچ کر نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیں گے اور اگر وہاں بھی انکی شنوائی نہ ہوئی تو وہ وہیں پر بھوک ہڑتال کر دیں گے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 15 اکتوبر2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2022