بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی رہائشی 35 سالہ آسیہ بی بی کے شوہر چند برس پہلے معدے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد کام کاج کرنے کے قابل نہ رہے تو گھر داری چلانے کی ذمہ داری خود اُن پر آ پڑی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے بچپن میں سیکھے ہوئے دوچ نامی بلوچی کشیدہ کاری کے ہنر کو کام میں لانے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی اس سے انہیں اتنی آمدن ہونے لگی کہ وہ اپنے شوہر کا علاج کرانے کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو اخراجات بھی پورے کرنے لگیں۔
دو سال پہلے ان کے شوہر فوت ہو گئے لیکن اس سے ان کی گھریلو معیشت پر کوئی برا اثر نہیں پڑا بلکہ ان کا کشیدہ کاری کا کام اتنا پھیل گیا ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے کچھ مقامی عورتوں کو ملازم رکھ لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دوچ کے ذریعے وہ اوسطاً 30 ہزار روپے ماہانہ کما لیتی ہیں جس سے وہ نہ صرف اپنے گھر کا خرچہ بہ خوبی چلا رہی ہیں بلکہ اپنے چھ بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی پورے کر رہی ہیں۔
آسیہ بی بی بنیادی طور پر پاک-ایران سرحد سے متصل ضلع کیچ کی تحصیل دشت کی رہنے والی ہیں لیکن چونکہ وہاں پچھلی ڈیڑھ دہائی سے پاکستانی فوج اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان مسلح تنازعہ چل رہا ہے اس لیے چھ سال پہلے وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گوادر منتقل ہو گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچپن میں انہوں نے کبھی دوچ کو ایک پیشے کے طور پر اپنانے کا نہیں سوچا تھا لیکن وہ خوش ہیں کہ انہوں نے یہ کام سیکھ رکھا تھا کیونکہ اس کی بدولت انہیں نہ صرف مشکل حالات میں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا بلکہ ان کی زندگی بھی پہلے سے بہتر گزر رہی ہے۔
انہی کی طرح گوادر ہی کی رہائشی 30 سالہ عابدہ بلوچ بھی دوچ کے فن سے فائدہ اٹھا کر اپنے چار بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر نشے کے عادی ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے لہٰذا وہ خود کڑھائی کر کے اپنے گھر کے اخراجات پورے کر رہی ہیں اور اپنے دو بڑے بچوں کو تعلیم بھی دلا رہی ہیں۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج گوادر میں فرسٹ ایئر پری میڈیکل کی 17 سالہ طالبہ بسمہ بلوچ بھی یہ کڑھائی کرتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کام نے ان کے لیے اتنی مالی آسانیاں پیدا کر دی ہیں کہ اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے انہیں اب اپنے خاندان پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔
گوادر اور اس کے گرونواح میں ایسی کہانیاں عام ہیں۔
دوچ بنانے والی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی 30 سالہ مقامی ٹیچر، انیلا یوسف، کہتی ہیں کہ وہ کئی ایسی خواتین سے واقف ہیں جنہوں نے آسیہ بی بی اور عابدہ بلوچ کی طرح دوچ کی کمائی سے معاشی خودکفالت حاصل کر لی ہے۔ ان کے مطابق "ان میں سے کچھ نے تو اس فن کی مدد سے اپنے شوہروں اور اپنے بچوں کو اتنی اچھی تعلیم دلائی ہے کہ وہ ڈاکٹر اور اعلیٰ سرکاری افسر بن چکے ہیں"۔
روایت سے روزگار تک
دوچ خواتین کے ملبوسات پر کی جانے والی ایک روایتی کڑھائی ہے جو قدیم زمانے سے بلوچستان میں مقبول ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں جو بلوچستان کی ثقافت، تاریخ، علاقوں اور شخصیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں سبزبات بلوچستان، نال و جالار، سرمچار قطار، عارف چادر، سسی پنوں، رندانی دیوان، کیچ چنال، اپسرا زید، گُل اور دود و ربیدگ خاص طور پر معروف ہیں۔
دوچ کی قیمت اس کے ڈیزائن اور کڑھائی کے معیار کی بنیاد پر طے ہوتی ہے اور تین ہزار روپے فی ملبوس سے لے کر دو لاکھ روپے فی ملبوس تک ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اس پر خرچ ہونے والا وقت بھی اس کے ڈیزائن کی پیچیدگی پر منحصر ہوتا ہے۔ جہاں ایک سادہ ڈیزائن چند دن میں تیار ہو جاتا ہے وہیں ایک مشکل ڈیزائن کو مکمل کرنے میں کچھ مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔
دوچ بنانے والی خواتین کو جب کوئی مشکل کام ملتا ہے تو وہ اسے آپس میں بانٹ لیتی ہیں کیونکہ ہر خاتون کو دوچ کے تمام ڈیزائن یا ایک ہی پیچیدہ ڈیزائن کے مختلف حصے بنانا نہیں آتے۔ اس کام میں وہ مرد بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں جو انہیں کپڑا، دھاگا اور دوسرا سامان لا کر دیتے ہیں اور پھر ان کے بنائے ہوئے دوچ کو بازار میں فروخت کرتے ہیں۔
اگرچہ کچھ بلوچ مرد خود بھی دوچ بنانا سیکھ رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر اسے زنانہ ہنر ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ماہر خاتون کو دوچ گر کہا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کے مطابق ''ہمارے گھروں میں بچیاں ہوش سنبھالتے ہی اپنی ماؤں، بڑی بہنوں اور رشتہ دار خواتین سے دوچ بنانا سیکھنے لگتی ہیں۔ ابتدا میں انہیں چھوٹا اور آسان ڈیزائن سکھایا جاتا ہے"۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ سب بچیوں میں سیکھنے کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی۔ "بعض تو چند ہفتوں میں مشکل سے مشکل ڈیزائن سیکھ لیتی ہیں لیکن دوسروں کو اس میں کئی مہینے بلکہ سال بھی لگ جاتے ہیں"۔
انیلہ یوسف، جو گوادر کی نواحی یونین کونسل پشکان کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول میں پڑھاتی بھی ہیں، کہتی ہیں کہ روایتی بلوچ سماج میں خواتین کی زندگی عموماً ان کے گھر تک محدود رہتی ہے جہاں وہ فارغ اوقات میں دوچ جیسے کام کرنے لگتی ہیں۔ ان کے مطابق شروع میں لڑکیاں عام طور پر اس لیے دوچ بنانا شروع کرتی ہیں کہ وہ اپنی شادی کے لیے پیسے اکٹھے کر سکیں۔ لیکن "بعد میں معاشی ضرورریات انہیں مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ اس ہنر کو محض ایک مشغلے کے طور پر اختیار کرنے کے بجائے اسے روزگار کا مستقل ذریعہ بنا لیں"۔
محنت زیادہ اجرت کم
دوچ گری کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آسیہ بی بی اپنی انگلیاں دکھاتے ہوئی کہتی ہیں کہ "میرے ہاتھوں میں اکثر سوئیاں چبھتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی تو نیند میں بھی خیال آتا ہے کہ انگلی میں سوئی چبھ گئی ہے اور اس میں سے خون نکل رہا ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے دوچ بنانا اتنا باریک کام ہے کہ اسے مسلسل کرتے رہنے سے "خواتین کی بینائی بہت جلد کمزور ہو جاتی ہے"۔
لیکن عابدہ بلوچ کو شکایت ہے کہ انہیں اتنے مشکل اور محنت طلب کام کا وہ معاوضہ نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہیں۔ بلکہ وہ کہتی ہیں کہ ان سے دوچ بنوانے والے کچھ لوگ یہ کہہ کر ان سے دوبارہ کڑھائی کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیزائن میں استعمال کیے گئے رنگ انہیں پسند نہیں آئے یا دوچ کا سائز ان کی خواہش کے مطابق نہیں۔ ان کے بقول، "ان گاہکوں کی بات مان کر اگر ان کی پسند کی تبدیلیاں کر بھی دی جائیں تو وہ اس اضافی کام کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کرتے"۔
اسی وجہ سے وہ مقامی کے بجائے غیرملکی گاہکوں کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگرچہ ایران، اومان اور متحدہ امارات سے دوچ بنوانے والے لوگ انہیں وہی معاوضہ دیتے ہیں جو انہیں مقامی لوگوں سے ملتا ہے لیکن، ان کے مطابق، وہ انہیں بنا بنایا دوچ واپس بھیج کر اس میں تبدیلیاں نہیں کراتے۔
یہ بھی پڑھیں
گوادر کے گرد باڑ لگا کر مقامی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوچ گر خواتین کو یہ شکایت بھی ہے کہ ملبوسات بیچنے والے بڑے بڑے برانڈ ان کے ڈیزائن چوری کر لیتے ہیں اور مشینوں کے ذریعے انہیں بڑی تعداد میں تیار کر کے کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ انیلا یوسف کہتی ہیں چونکہ بلوچ خواتین کے پاس اپنے ڈیزائنوں کے مالکانہ حقوق نہیں ہوتے اس لیے وہ اس چوری کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کر سکتیں۔
اگرچہ چند غیر سرکاری تنظیمیں مقامی طور پر اس پیشے سے وابستہ خواتین کے پیشہ وارانہ حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ کام حکومتی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جن کی مدد سے اس فن کو ایک باقاعدہ پیشے کے طور پر تسلیم کرانے، دوچ بنانے والی خواتین کا مالی استحصال روکنے اور انہیں کام ڈھونڈنے میں آسانیاں پیدا ہو سکیں۔
تاریخ اشاعت 13 جولائی 2022