بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

postImg

زبیر خان

postImg

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

زبیر خان

"ہمارے تصور میں ہی نہیں تھا کہ کوئی انسان اتنا سفاک بھی ہو سکتا ہے۔ میری ماموں زاد سیماب کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں تشدد نہ کیا گیا ہو۔ میت کو غسل دینے والی خواتین ابھی تک غم وغصہ میں ہیں، بتاتی ہیں کہ مقتولہ کی کمر پر بے رحمانہ تشدد کے نشانات تھے جبکہ بازو اور پاؤں تیزاب سے جلائے گئے تھے۔"

 یہ کہنا ہے کہ بہاولپور شہر کے رہائشی محمد زاہد کا جو متاثرہ خاندان کے سرپرست بھی ہیں۔

چوبیس سالہ طالبہ سیماب اقبال، بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں 13 روز موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئی تھیں۔
    
بہاولپور پولیس کے مطابق ابتدائی طبی رپورٹ سے پتا چلا کہ سیماب اقبال کو زیادتی اور سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چہرے، سر اور جسم پر ایسے زخم تھے جیسے جلائے گئے ہوں، یہاں تک کہ مخصوص اعضا پر بھی سفاکی کے نشانات واضح تھے۔
اچھے مستقبل اور روزگار کی تلاش

مقتولہ کے خاندان، ان کی دوستوں اور پولیس سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سیماب اقبال ضلع بہاولنگر، تحصیل فورٹ عباس کے قصبہ کھچی والا کی رہائشی تھیں۔ ان کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔

سیماب کے والد ایک چھوٹے زمیندار ہیں جو کاشت کاری کرتے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے جس کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے تھے۔

مقتولہ کے ماموں زاد محمد زاہد بتاتے ہیں کہ سیماب نے کبھی اپنے والد کو مایوس نہیں کیا۔ وہ بچپن ہی سے بہت محنتی تھیں، انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے بہاولنگر سے بی کام کیا اور شاندار نمبر لیے۔ خاندان کے سب لوگ ان کے اخلاق و کردار کی تعریف کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ بی کام کے بعد سیماب نے آن لائن کام سیکھنے کے لیے بہاولپور شہر کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی قریبی علاقے آصف کالونی میں واقع ایک نجی ہاسٹل میں رہائش اختیار کر لی۔

تفتیشی افسر زنیرہ لطیف بتاتی ہیں کہ واقعہ پیش آنے کے بعد نجی کالج، ہاسٹل سمیت مختلف جگہوں سے معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ سیماب کی پوری توجہ اپنی تعلیم پر تھی۔ وہ ایک ایسی بچی تھیں جو اپنے والد کا سہارا بننا چاہتی تھیں۔

وہ تصدیق کرتی ہیں کہ ملزم نے مقتولہ کو آن لائن روزگار دینے اور بھائی کو بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر ٹریپ کیا تھا۔

روزگار اور ویزے کا ٹریب

محمد زاہد کے بقول سیماب کی اسی کالج میں ہی ملزم سے ملاقات ہوئی جو وہاں کام کرتا تھا اور یہیں سے ان کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔

ملزم نے نا صرف سیماب اقبال کو 'بہن بنا کر' شیشے میں اتارا بلکہ ان کے بھائی ذوہیب اقبال کو بھی گھیر لیا جن کا ملزم سے رابطہ سیماب نے کرایا تھا۔

"ملزم نے دونوں بہن بھائی کو پھانسنے کے لیے طویل کہانی بنائی اور پورا ڈرامہ کیا۔ بتایا کہ وہ ایک کنسلٹینٹ ہیں جو آن لائن کام بھی کرتے ہیں۔ ملزم نے اس دوران سیماب کو کچھ خواتین سے ملوایا جن میں سے ایک کا اپنی بیوی اور دوسری کا بہن کے طور پر تعارف کرایا۔"

پولیس مذکورہ دونوں خواتین سے متعلق کچھ بتاتے سے گریزاں ہے۔ لیکن بعض ذرائع کا خیال ہے کہ غالباً یہ عورتیں بھی ملزم کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی تھیں تاہم معاملے کی تفتیش ابھی جاری ہے۔

محمد زاہد کے مطابق ملزم نے سیماب کو آن لائن کام دلانے کا وعدہ کیا اور بتایا کہ ان کے پاس کینیڈا کے چار ویزے آئے تھے جن میں سے تین ویزوں پر لوگ جا چکے ہیں۔ جبکہ ایک ویزہ باقی ہے جو آپ(سیماب) کے بھائی کو بہت سستا مل سکتا ہے۔

"اس آفر سے ناصرف سیماب بلکہ ان کے بھائی بھی ٹریپ میں آ گئے جو پہلے ہی روزگار کے لیے بیرون ملک جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یعنی تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔"

انہوں نے بتایا کہ اس دوران ملزم اور ان کی مبینہ بیوی نے ذوہیب اقبال سے کہا کہ وہ جلدی سے ویزے کے لیے انہیں رقم بھجوائیں۔ پہلے تین لاکھ اور پھر چار لاکھ روپے طلب کیے گئے یعنی مجموعی طور پر سات لاکھ روپے اینٹھ لیے گئے۔

"یہ رقوم ملزم نے اپنے اکاوئنٹ میں نہیں بلکہ کسی خاتون کے اکاؤنٹ کے ذریعے آن لائن وصول کی تھیں۔ جس کے بعد سیماب کچھ عرصہ اپنے گھر کھچی والا میں رہیں۔ وہاں سے جب واپس بہاولپور لوٹیں تو یہ سانحہ پیش آ گیا۔"

 سیماب کا اغوا اور تشدد

سیماب کے بھائی ذوہیب صدمے کے باعث ابھی تک بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تاہم محمد زاہد بتاتے ہیں کہ غالباً نومبر کے آخری ایام میں ہی سیماب کو اغوا کر کے انہیں یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

"دسمبر کے پہلے ہفتے میں گھر سے سیماب کو فون کیا گیا تو کال کاٹ دی گئی اور مسیج آیا کہ "بعد میں کال کرتی ہوں"۔ اب احساس ہوتا ہے کہ فون کوئی دوسرا استعمال کر رہا تھا اور وہ مشکل میں تھی لیکن ہم سمجھ ہی نہ سکے۔"

چند روز یہی صورت حال رہی اور پھر سیماب کا فون بند ہو گیا۔ جس پر ذوہیب نے ملزم اور اس کی 'مبینہ بیوی' سے رابطہ کیا تو دونوں نے سیماب سے متعلق لاعلمی کا اظہار کر دیا۔

ذوہیب پریشان ہو کر بہاولپور کے تھانہ بغدادالجدید پہنچے اور وہاں اپنی بہن کے حوالے سے صورت حال بتائی جس پر پولیس نے نو دسمبر کو دفعہ 365کے تحت اغوا کا مقدمہ درج کر لیا۔

میڈیا رپورٹس  کے مطابق نو دسمبر ہی کو رات کے وقت دو افراد ایک لڑکی (جس کی بعد ازاں شناخت سیماب اقبال کے نام سے ہوئی) کو انتہائی نازک حالت میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال (بی وی ایچ) بہاولپور کی ایمرجنسی میں لائے اور اسے وہیں چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کی۔

تاہم ایمرجنسی میں موجود کچھ لوگوں نے ان افراد کے مشکوک رویے کو بھانپ کر ان کا پیچھا کیا اور ایک کو پکڑ لیا جبکہ دوسرا فرار ہو گیا۔

محمد زاہد بتاتے ہیں کہ ان کی کزن کا فون بند ہونے کے ایک دو دن بعد انہیں ہسپتال سے فون آیا کہ سیماب بی وی ایچ میں زیرعلاج ہیں۔ وہ پریشان حال وہاں پہنچے تو ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی، ان پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

"ہسپتال میں پتا چلا کہ اصل ملزم فرار ہو گیا تھا جسے پولیس اب گرفتار کر چکی ہے۔ تاہم ہمیں بتایا جا رہا ہے جو شخص موقع سے پکڑا گیا اس کا اس معاملے میں زیادہ کردار نہیں تھا۔"

سیماب کا طبی معائنہ ہونے کے بعد تشدد، ریپ اور اعضا کو جلائے جانے کی رپورٹس سامنے آنے پر پولیس نے پہلے سے درج مقدمے میں ریپ اور قتل کی کوشش کی دفعات( سیکشن 376 اور 324) کا اضافہ کر دیا۔(بعد ازاں دفعہ 302 شامل کردی گئی)

اس کیس کی تفتیش خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس کے خصوصی سیل 'سپشیل سیکسوئل آفینسز یونٹ' (ایس ایس آئی او یو) کو سونپ دی گئی۔

ملزم کی چھ روز تک دن رات نگرانی

زنیرہ لطیف، ایس ایس آئی او یو کی انسپکٹر ہیں جو اس کیس کی تفتیش کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ملزم انتہائی شاطر ہے اس نے خود کو چودھری ہارون ایڈووکیٹ کے نام سے مشہور کر رکھا تھا مگر اصل نام غفران فاروق ہے۔
سیماب اور ان کے بھائی بھی ملزم کو ہارون ایڈووکیٹ کے نام سے جانتے تھے۔

"ملزم کے اپنے نام پر کوئی سم نہیں۔ وہ دوسروں کے نام کی سم استعمال کرتا تھا اور صرف وائس ایپ کے ذریعے بات کرتا تھا۔ غفران فاروق کی کوئی تصویر دستیاب نہیں تھی۔ وہ اتنا چالاک ہے کہ اپنے چہرے پر اکثر ماسک لگا کر رکھتا تھا تاکہ سی سی ٹی وی کیمرے میں بھی نہ پہچانا جائے۔"

وہ کہتی ہیں کہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں پکڑا جانے والا ساجد نامی شخص ایک مزدور ہے جس کو ملزم غفران نے اس واردات سے چند روز قبل ہی اپنے جال میں پھانسا تھا۔

"ساجد کو ملزم نے کہا کہ وہ اس کے ساتھ کام کرے تو وہ اس کو پیسے دے گا۔ اسی لالچ میں وہ ملزم کی باتوں میں آگیا۔ ممکنہ طور پر جب سیماب کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو ملزم نے ساجد کی مدد سے انہیں ہسپتال پہنچایا اور خود فرار ہوگیا۔"

تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ ساجد کو سکیورٹی گارڈ نے روک لیا تھا۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو انہیں حراست میں لے لیا مگر وہ واردات یا ملزم کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے تھے۔

ان کے بقول یہ انتہائی پیچیدہ واردات تھی جس کے شاطر ملزم کا اصل روپ لوگوں سے پوشیدہ تھا اور اس کے شناختی کارڈ تک بھی رسائی نہیں تھی۔

"ہم نے دن رات کام کیا۔ ہمیں ملزم غفران تک پہچنے کا جو پہلا راستہ ملا وہ ساجد تھا مگر وہ اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتا تھا۔ تاہم اس تفتیش سے ہم ملزم کے زیر استعمال نمبروں سے مختلف افراد تک پہنچنا شروع ہوئے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

زنیرہ لطیف بتاتی ہیں کہ انہی لوگوں میں سے ایک ایسی خاتون مل گئیں جنہیں ملزم غفران نے اسی طرح روزگار دلانے کے بہانے ٹریپ کیا تھا مگر وہ جلد سمجھ گئیں اور اس کے چنگل سے نکل گئی تھیں۔

"مذکورہ خاتون، ملزم کا ایک ٹھکانہ جانتی تھیں لیکن تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہ کرائے کا مکان ہے جو کسی اور کے نام پر لیا گیا تھا۔ تاہم خاتون نے یہ بھی بتایا کہ ملزم وہیں ایک گھر سے کھانا لاتا تھا۔ ہم نے اس گھر کی نگرانی کی تو پتا چلا یہی ملزم کا اپنا گھر ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ملزم کے گھر کی مکمل نگرانی کر رہی تھی مگر واردات کے بعد وہ انتہائی ہوشیار ہوچکا تھا۔ تاہم چھ روز تک دن رات مسلسل تعاقب اور جال بچھانے کے بعد بالآخر ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

تفتیشی افسر بتاتی ہیں کہ ابتدائی طبی رپورٹ میں تشدد وغیرہ کے ساتھ زیادتی کا بھی بتایا گیا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد سیماب دم توڑ گئیں۔ وہ کئی دن ہسپتال میں رہیں مگر ان کی حالت اتنی نہ سنبھل سکی کہ ان کا بیان بھی لیا جا سکتا۔

محمد زاہد کہتے ہیں کہ سیماب اقبال معصوم اور بے گناہ تھیں ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ اس ملزم کسی رعایت کے مستحق نہیں جسے انجام تک پہچانے کے لیے ان کے خاندان کو جو بھی کرنا پڑا وہ کر گزریں گے۔

تاریخ اشاعت 31 دسمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد زبیر خان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ وہ بی بی سی کے علاوہ مختلف بین الاقومی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام پاکستان کے سرحدی اور دور دراز علاقوں میں ہے۔ جہاں سے یہ انسانی زندگیوں کی کہانیوں پر کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.