'نہر کا پانی ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتا ہے'، بدین میں ٹیل کے کسان آبی قلت سے پریشان

postImg

رضا آکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'نہر کا پانی ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتا ہے'، بدین میں ٹیل کے کسان آبی قلت سے پریشان

رضا آکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

طلحہ آرائیں ہر سال 80 ایکڑ رقبے پر چاول اگاتے ہیں۔ عام طور پر وہ وسط جون سے وسط جولائی تک فصل کی کاشت مکمل کر لیتے ہیں لیکن امسال ان کے علاقے کی نہر میں پانی تاخیر سے آیا جس کی وجہ سے وہ جولائی کا مہینہ ختم ہو جانے کے باوجود فصل کاشت نہیں کر پائے۔

طلحہ زیریں سندھ کے ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی کے قصبے ترائی میں رہتے ہیں اور یہیں پر ان کا زرعی رقبہ ہے جس کو امام واہ نہر سیراب کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سالہا سال سے یہی معمول رہا ہے کہ نہر امام واہ میں مئی کے مہینے میں ہی پانی آجاتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے ایک ماہ تاخیر کے بعد جون کے شروع میں یہاں پانی چھوڑا جاتا تھا۔

"اس مرتبہ تو حد ہی ہوگئی، جولائی کا نصف گزرنے کے بعد بالاآخر جب پانی چھوڑا گیا تو اس کی مقدار اتنی کم ہے کہ یہ ٹیل (نہرکے آخری سرے) کے کاشت کاروں تک پہنچ ہی نہیں پایا۔"

وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ نہر میں پانی تاخیر سے اور کم مقدار میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ضلعے کو حصے کے مطابق پانی نہیں ملتا اور نہر کے آغاز پر آباد بااثر زمیندار پانی چوری کر لیتے ہیں۔

طلحہ کے بقول سندھ کے تمام زیریں اضلاع بدین، ٹھٹہ اور سجاول میں بھی ٹیل کے کاشت کاروں کو انہی حالات کا سامنا ہے۔

انہیں خدشہ ہے کہ رواں سال پانی کی کمی کے باعث یہاں چاول کے زیر کاشت رقبے میں بھی بہت زیادہ کمی آئے گی۔

وفاقی وزارت غذائی تحفظ و تحقیق کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں کل آب پاش زرعی رقبہ 40 لاکھ 75 ہزار 500 ایکڑ ہے جس میں سے 78 فیصد یعنی 31 لاکھ 86 ہزار ایکڑ رقبے کو نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔

مختلف اداروں کی تحقیق کے مطابق سندھ میں تقریباً 89 فیصد زیر زمین پانی کھارا ہے جو آب پاشی کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ اس لیے اس صوبے میں زیادہ تر زراعت کا انحصار نہری پانی پر ہے۔ اگر نہروں میں پانی نہیں ہو گا یا کم آئے گا تو اس سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہو گی۔

سندھ میں 19 سے 20 لاکھ ایکڑ رقبے پر دھان کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ بدین اور ٹھٹہ کا شمار اس حوالے سے پانچ بڑے اضلاع میں ہوتا ہے۔ 2021 میں صوبے کے کل زیر کاشت رقبے کا 23 فیصد حصہ ان دونوں اضلاع میں اگایا گیا تھا۔

طلحہ کے مطابق ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی کی 14 یونین کونسلیں گولاڑچی، کھورواہ ، خانانی جت، کھورواھ چوک، احمد راجو، محمد شاہ گرھڑی، کڑیو گھنور، ترائی، دبی ، راھوکی، فتح آباد ، دھادھرکو، گھڑو، اور پٹیھل چاول کا گڑھ ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کا علاقے میں لوگوں کے ذریعہ معاش کا انحصار چاول کی فصل پر ہے اور چاول کی بہتر پیداوار نہری پانی سے جڑی ہے۔

چاول کی فصل اور اس کے لیے نہری پانی کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لیے وہ 18 جولائی کو گولاڑچی تحصیل میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کا حوالہ دیتے ہیں۔

ان کے بقول اس مظاہرے میں سیکڑوں کی تعداد میں کاشت کار جمع ہوئے تاکہ اپنی مشکلات کو میڈیا کے ذریعے حکومت تک پہنچایا جاسکے لیکن اس کے باوجود کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہروں میں پانی کی کمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔

کسانوں کے اس مظاہرے میں شرکت کرنے والے 45 سالہ امیر ڈاھری الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے حصے کا پانی محکمہ آبپاشی کے افسروں نے چند پیسوں کی خاطر ان زمینداروں کو بیچ دیا ہے جن کی زمینیں نہر کے آغاز پر واقع ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پانی ان کی زمینوں تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتا ہے۔ اس قلت کی وجہ سے ٹیل کے کسان نہ صرف چاول کاشت نہیں کر پائے بلکہ اب تو اس کی پنیری بھی سوکھ کر خراب ہورہی ہے۔

"ہمارا کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔"

احتجاج کے منتظمین میں شامل نواز چانڈیو اور صالح میمن تو یہاں تک الزام عائد کرتے ہیں کہ محکمہ آبپاشی والے کسانوں سے 10 ہزار روپے رشوت مانگ رہے ہیں۔

نواز چانڈیو کے مطابق ایک کاشت کار سے 10 ہزار روپے رشوت لینے مطلب یہ ہے کہ اس نہر کی ٹیل پر جتنے بھی کاشت کار ہیں وہ لاکھوں روپے بطور رشوت دیں گے تو تب ہی نہر میں مطلوبہ مقدار میں پانی چھوڑا جائے گا۔

نواز چانڈیو کے علاوہ دیگر کاشت کاروں کا بھی یہی الزام ہے کہ محکمہ آبپاشی کے اہلکار، سیاستدانوں، وڈیروں اور با اثر زمینداروں کے اثر رسوخ اوررشوت کے عوض غیر منصفانہ طور پر چھوٹے  کاشتکاروں کے حصے کا پانی کاٹ کر ان کی زمینوں کو سیراب کرنے والی نہروں اور آبی گزرگاہوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جن بڑے زمینداروں کی اراضی نہروں کے آغاز پر ہوتی ہے وہ غیر قانونی طور موٹر پمپ اور لفٹ مشینیں لگا کر بھی پانی چوری کرلیتے ہیں۔

گولاڑچی کے سب ڈویژن آفیسر(ایس ڈی او) آبپاشی شمس میمن نے بتایا کہ تحصیل گولاڑچی کو دو اہم نہروں گونی کینال اور حسن علی کینال کے ذریعے زرعی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اس قدر کثرت آفات کہاں تھی پہلے: 'تونسہ کے نہری نظام نے رودکوہی نالوں کا بہاؤ تبدیل کر کے انہیں رحمت سے زحمت بنا دیا ہے'۔

گونی کینال کی گنجائش 10,208 اور حسن علی کینال کی گنجائش9,000  ہزار کیوسک ہے۔ لیکن ان دونوں نہروں میں پچھلے چند سال سے بہت کم مقدار میں پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں پانی کی قلت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ رواں سیزن میں پانی کی چوری کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ البتہ گزشتہ تین سال کے دوران گولاڑچی، کڑیو گھنور اور کھورواہ کے تھانوں میں پانی کی چوری کے متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں۔

گونی کینال پر ڈیوٹی دینے والے محکمہ آبپاشی کے ایگزیکٹو انجنیئر(ایکسیئن) امتیاز بھرگڑی کہتے ہیں کہ بپر جوائے طوفان اوربارشوں کے وجہ سے پانی کو روکا گیا تھا، جس کے باعث نہر میں پانی کی فراہمی میں چند روزکی تاخیر ہوئی۔

کاشت کاروں کی جانب سے پانی کی قلت کی شکایات کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں جتنا پانی ملتا ہے اتنا ہی نہروں کو دیتے ہیں۔ بیک وقت پورے علاقے میں چاول کی کاشت شروع ہونے کے باعث نہروں پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور اسی لیے کاشت کاروں کی جانب سے شکایات آ رہی ہیں۔

تاریخ اشاعت 9 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا آکاش خانانی بدین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گذشتہ پندرہ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ساحلی علاقوں کے مختلف ماحولیاتی، سماجی، انسانی و ثقافتی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.