ضلع حیدرآباد سے 15 کلومیٹر دور، آزاد نگر 250 گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہے، جہاں کوہلی اور بھیل برادری کے لوگ آباد ہیں۔ نوے کی دہائی تک انہیں جبری مشقت کی غرض سے زمینداروں نے قیدی بنا کر رکھا ہوا تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ ان زمینداروں سے آزاد تو ہو گئے لیکن ان کے پاس رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔
گرین رُورل ڈیویلپمنٹ نامی ایک مقامی این جی او نے، سال2006ء میں ایکشن ایڈ کی مدد سے 11ایکڑ زمین خریدی تاکہ زمینداروں کی قید سے آزاد ہونے والے ہاری یہاں پر آباد ہو سکیں۔ اس بستی کو 2007ءمیں آزاد نگر کا نام دیا گیا۔
آزاد نگر کے رہنے والوں نے کچے پکے مکان تعمیر کئے اور یہاں رہنے لگے، مگر مسائل نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
سومار بھیل بھی اُن کھیت مزدوروں میں سے ایک ہیں ، جو 1990ء میں ضلع سانگھڑ میں رئیس قادر بخش مری کے ہاں "غلام" تھے، اب وہ ایک سماجی رہنما ہیں۔ ان کی عمر 50 برس ہو چکی اور وہ آزاد نگر میں پرچون کی چھوٹی سی دکان بھی چلاتے ہیں۔ ان کے آٹھ بچے ہیں، چار بیٹے اور چار بیٹیاں، جو سات برس پہلے واحد مقامی سکول بند ہو جانے کے بعد کبھی سکول نہیں جا سکے۔
سومار بھیل کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں لیکن ان کی بستی میں سوائے سکول کی عمارت کے اور کوئی سہولت دستیاب نہیں، کوئی استاد ہے نہ ہی کتابیں اور فرنیچر۔
رانومل بھی آزاد نگر کے رہائشی ہیں، وہ کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے چار بچے بھی حصول تعلیم سے محروم ہیں۔ رانومل کہتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے سکول جائیں لیکن یہاں دور دور تک کوئی سکول نہیں ہے۔
ان کی آمدنی اتنی قلیل ہے کہ وہ بچوں کو شہر کے سکول بھیجنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اس بستی میں 2015ء میں ایک سکول قائم کیا گیا تھا لیکن سال بھر میں ہی بند ہو گیا۔ اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملیں تو انہوں نے سکول آنا چھوڑ دیا۔ اب آٹھ کمروں کی وہ خستہ حال عمارت سنسان پڑی ہے۔
بستی میں ہر بچہ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے، مزدوری کر نے پر مجبور ہے۔
آزاد نگر جیسے دیہی علاقوں میں تمام بچوں کو مساوی تعلیم کی سہولت فراہم کرنے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے سندھ ایجو کیشن فاؤنڈیشن (سیف ) نے 2015ء میں فاؤنڈیشن اسسٹڈسکولز ( ایف اے ایس ) سسٹم متعارف کروایا تھا۔
پروگرام کے مطابق فاؤنڈیشن دیہی سندھ کے نجی و سرکاری سکولوں کے ساتھ شراکت داری کرتی ہے اور ان کی مالی مدد کرتی ہے۔
فاؤنڈیشن کے تحت سکول قائم کرنے کے لیےکچھ شرائط ہیں جیسا کہ جس جگہ سکول قائم کرنا ہو وہ علاقہ غربت زدہ، کچی آبادی یا دیہی ہو۔ اس علاقے میں پہلے سے کوئی سکول موجود نہ ہو۔ بچوں کی تعداد کم سے کم 80 ہو، سکول کے منتظم کا کم از کم گریجویٹ ہونا ضروری ہے۔ اگر پہلے سے سکول موجو د ہو لیکن غیر فعال ہو تو فائونڈیشن اسے فنڈ جاری کر کے فعال بنا سکتی ہے۔
سندھ ایجو کیشن فاؤنڈیشن ایک نیم خود مختار ادارہ ہے، فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کو فی طالب علم امداد دی جاتی ہے، بچی کے لئے 1150 روپے ماہانہ اور بچے کے لئے 850 روپے ماہانہ۔
آزاد نگر میں سرکاری سکول موجود نہیں تھا تو سپارک نامی این جی او کے ایک ملازم کاشف بجیر نے ذاتی حیثیت سے آزاد نگر میں ایک سکول بنوایا۔
آزاد نگر سکول کو فنڈز کی مد میں سیف کی جانب سے 23 لاکھ روپے جا ری کئے گئے۔ کاشف بجیر کا کہنا ہے کہ ان پیسوں سے انہوں نے سکول کو فعال بنایا ا ور وہاں 280 کے قریب بچوں نے داخلہ بھی لیا۔ لیکن سندھ ایجوکشن فائونڈیشن ناہید شاہ درانی نے بطور ایم ڈی چارج سنبھالا تو انہوں نے فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کے بجٹ میں کٹوتی کر دی جس کی وجہ سے کئی سکولوں کا بجٹ سرے سے ختم ہی کر دیا گیا۔ آزاد نگر کا سکول بھی اسی کٹوتی کا شکار ہو گیا۔
سیف کے ریسرچ آفیسر نور جونیجو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آزاد نگر کے اسکول کو بند کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔
"سکول کا منتظم سیف کے طے کردہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتا، وہاں کوالیفائیڈ اساتذہ نہیں رکھے گئے تھے، سکول میں بچوں کی تعداد کی نسبت اساتذہ کی تعداد بہت کم تھی"۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی میں ہائر سیکنڈری سکول کے طلبہ سائنسی مضامین کی تعلیم سے محروم کر دیے گئے
تاہم نور جونیجو کا کہنا ہے کہ اب بھی کوئی فرد یا ادارہ اس سکول کو فعال کرنا چاہے تو سیف اس کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
کاشف بجیر کہتے ہیں کہ بستی میں ایک بھی سکول نہیں ہے، اگر کوئی اسی سکول کو فنکشنل کر دے تو انہیں اس کی ملکیت سے دستبردار ہونے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ یہاں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔
این اے 225 سے سید حسین طارق جاموٹ 2018ء میں پیپلز پارٹی کے ممبر منتخب ہوئے تھے، جنہوں نے اب تک سکول کی بحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ جب ان سے سجاگ نےسوال کیا تو انہوں نے مقامی لوگوں کی جانب سے دی گئی درخواست اور مطالبے سے لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذمہ داری محکمہ تعلیم کی ہے۔
سومار بھیل حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے اور صوبائی وزیر تعلیم کو سکول کی بحالی کے لیے تحریر ی درخواستیں بھیج چکے ہیں لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کسی سطح پر بھی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
تاریخ اشاعت 28 نومبر 2023