خالد مراد ضلع عمر کوٹ کے شہر کنری کے بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا خاندان سال میں کم از کم تین ماہ سخت تکلیف میں گزارتا ہے۔ مسلسل کھانسی، آنکھ سے پانی بہنا اور گلے میں خراش معمول بن جاتی ہے۔
یہ کوئی خاندانی بیماری نہیں ہے بلکہ وہ کنری کی مرچ منڈی سےصرف سو گز دور مجاہد کالونی میں اپنی بیوی، دو بچوں اور والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔
خالد کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ تکلیف شام کو ہوتی ہے۔ فضا میں مرچوں کی دھول کے باعث پورے علاقے میں سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔
"ہم پانچ سے رات دس بجے تک خود کو کمروں میں بند کر لیتے ہیں۔ گھر کی عورتیں چہرے پر گیلا کپڑا رکھ کر کام کاج کرتی ہیں۔ بچوں اور والدین کو ہم گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ پندرہ سال سے شہر کے باہر بننے والی نئی مرچ منڈی مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔"
سنٹر فار ایگریکلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل(سی اے بی آئی ) کے مطابق لال مرچ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر آتا ہے اور مرچ ہی کی برآمد سے سالانہ 9.6 ملین امریکی ڈالر کماتا ہے۔
ملک میں مرچ کی سالانہ اوسط پیداوار عموماً ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن کے درمیان رہتی ہے۔ اس کا 80 فیصد حصہ سندھ کے تین اضلاع میرپور خاص، عمر کوٹ اور بدین پیدا کرتے ہیں۔ مرچ کی خرید و فروخت کے لیے کنری کو بڑا مرکز مانا جاتا ہے۔
یہ مرچ منڈی تحصیل ہیڈ کوارٹر کنری کے عین درمیان میں واقع ہے۔جہاں اکتوبر سے دسمبر تک سیزن کے دوران روزانہ تقریباً مرچوں کی 10 ہزار بوری کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
مرچ منڈی کے دکاندار شنکر لال بتاتے ہیں کہ یہاں صرف ثابت (خام)مرچ کا کاروبار نہیں ہوتا بلکہ منڈی میں مرچی پیسنے والی 35 چکیاں اور چار پیکنگ فیکڑیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ مرچ کی دھول اور دھانس سے فضا انتہائی آلودہ ہو جاتی ہے جس سے سانس لینا د شوار ہوتا ہے۔
" شہر کے باہر مرچ منڈی کی تعمیر مکمل ہو جاتی تو شہریوں اور تاجروں دونوں کے لیے آسانی ہوتی لیکن وہاں تو عرصہ دراز سے کام بھی بند ہو چکا ہے"۔
کنری شہر کی آبادی 30 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 10 ہزار مرچ منڈی سے متصل آبادیوں میں لوگ رہتے ہیں۔ نئی منڈی کی تعمیر کے ساتھ حکومت نے کنری مرچ منڈی میں 'چلی پروسیسنگ یونٹ' بھی قائم کیا تھا۔ اس پر 25 کروڑ خرچ ہو چکے ہیں مگر یونٹ فعال نہیں ہو سکا۔
خالد مراد نے بتایا کہ مرچ کی آلودگی سب سے زیادہ برا حال مجاہد کالونی، پٹھان کالونی، عاقب نگر اور بھٹائی کالونی کے علاقوں میں ہوتا ہے۔
"گھر کے مکین ہی نہیں قریبی تھانہ تھانہ کنری کے قیدی بھی اذیت میں ہوتے ہیں، کیونکہ سلاخیں مرچوں کی دھول کو نہیں روک سکتیں"۔
کنری تعلقہ ہسپتال کے اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مبارک درس نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے پاس آؤٹ ڈور میں روزانہ سات سے آٹھ سو مریض آتے ہیں۔ ساٹھ فیصد سے زائد مرچوں کی گرد کے متاثرین ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ متاثرہ مریضوں میں بیشتر بچے اور بوڑھے چہرے اور آنکھوں میں جلن کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں۔ کچھ کو کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہی اور یہ بعض اوقات دمہ یا ٹی بی میں بدل جاتی ہے۔
"یہاں آنکھوں کی جلن کے کیسز عام ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس آنکھوں کا کوئی ڈاکٹر ہی دستیاب نہیں ہے۔"
ایم ایس ڈاکٹر نندلال بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں 60 ڈاکٹروں کی قلت ہے اور مرچ کے سیزن میں ہسپتال پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
"پچھلے تین ماہ میں یہاں ٹی بی اور دمے کے 215 مریض داخل ہوئے۔ مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی بھی ضروری ہے"۔
کنری مرچ منڈی میں کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہاں تقریباً 50 دکانیں اور پانچ سو کانٹے ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار مزدور کام کرتے ہیں اور روزانہ درجنوں گاڑیاں اور لوڈر رکشے منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔
چالیس سالہ جگدیش کمار یہاں مرچی منڈی میں کئی سال سے مزدوری کر رہے ہیں اور اکثر بیمار رہتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں دس روپے بوری مزدوری ملتی ہے اور وہ دن میں زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو روپے کماتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا وہ بیماری پر لگائیں یا بچوں کی روزی روٹی پر۔
وہ کہتے ہیں کہ بیمار مزدور کا علاج تو دور کی بات ہے، دکاندار ایک روپیہ نہیں دیتا۔
"یہاں کام کرنے والے بیشتر مزدور دمے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پینے کے لیے پانی تک نہیں ملتا۔ تمام مزدوروں کے لیے صرف ایک واش روم ہے"۔
دکان دار وجئے کمار کہتے ہیں کہ مرچ منڈی مسائل کا گڑھ بنی ہوئی ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ سیوریج کا پانی خراب ہے اور صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ نئی منڈی بن جاتی تو سب کو ریلیف مل جاتا۔
نئی مرچ کا منڈی کا منصوبہ 2007ء میں سابق ایم پی اے ڈاکٹر دوست محمد میمن نے منظور کرایا تھا۔ منڈی کے لیے 22 ایکڑ زمین کنری کے سابق تحصیل ناظم جام میمن نے پہلے ہی خرید کر رکھی تھی۔ اسی سال تعمیر کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔
منصوبے کے پی سی ون کے مطابق نیو مرچ منڈی میں 300 دکانیں، گودام، ڈسپسنری، مسجد، بیوپاریوں کی سہولت کے لیے تین ہوٹل اور ایک ریسورینٹ بنائے جانا تھے۔ دو پولیس چیک پوسٹیں، واٹر سپلائی ٹینک اور پختہ سڑکوں کی تعمیر بھی اس منصوبے کا حصہ تھی۔
ڈاکٹر دوست محمد میمن بتاتے ہیں کہ منڈی کی لاگت کا تخمینہ سات کروڑ روپے تھا اور یہ منصوبہ تین سال میں مکمل ہونا تھا۔ پہلے سال پانچ کروڑ روپے ریلیز کیے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آتے ہی ٹھیکیدار بھاگ گیا۔
یہ بھی پڑھیں
این ایل سی کے پلانٹ کی آلودگی: راولپنڈی کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکین عدالت کیوں نہیں جاتے؟
وہ کہتے ہیں کہ اس دوران ٹھیکیدار تعمیراتی سامان کی قیمتیں بڑھنے اور ٹھیکے کے ریٹ ریوائیز نہ ہونے کی وجہ سے کام چھوڑ گئے۔ اب کروڑوں روپے مالیت کا سامان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ہو رہا ہے۔
وہ الزام لگاتے ہیں کہ نئی منڈی منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔ نیب اور ایف آئی اے نے نامعلوم درخواستوں پر تحقیقات بھی کی تھیں۔ مگر کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوا۔ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔
محکمہ بلڈنگ اینڈ ورکس کے حکام نے منڈی کی تعمیر کے لیے جاری ہونے والی رقم کی تفصیل بتاتے سے گریز کیا ہے۔ تاہم ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ منڈی کے پی سی ون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ منڈی پر لاگت کا تمخینہ مہنگائی کے باعث بڑھ گیا ہے۔
سابق تحصیل ناظم جام میمن بتاتے ہیں کہ جب وہ ناظم تھے تو وہ شہر میں ایک شادی پر گئے۔ وہاں فضا میں مرچ کی گرد کی وجہ سے کسی براتی نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ تب انہوں نے مرچ منڈی شہر سے باہر نکالنے کا عہد کر لیا تھا۔
"میرا بیٹا ایم پی اے اور میں ناظم تھا۔ ہم دونوں نے بھرپور کوشش کی کہ مرچ منڈی مکمل ہوجائے مگر افسوس ابھی تک کام ادھورا پڑا ہے۔"
تاریخ اشاعت 22 نومبر 2023