ڈاکٹر سہیل راجا نے 2012ء میں جب سپیشلائزیشن کے لیے پلمونولوجی (سانس اور پھیپڑوں کا شعبہ) کا انتخاب کیا تو وہ کشمیر کی آب و ہوا کو صاف تصور کرتے تھے لیکن دوران تربیت انہیں معلوم ہوا کہ اس علاقے میں سانس کی بیماریاں بہت زیادہ ہیں۔ گہرے مطالعے کے بعد انکشاف ہوا کہ فضا میں پارٹیکولیٹ میٹر( ذرات) بہت زیادہ ہیں۔
فضائی آلودگی کا سبب بننے والے کیمیائی مادوں کے نظر نہ آنے والے کیمیائی اجزاء اور گرد و مٹی کے ذرات سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور پھیپھڑوں کے راستے خون میں شامل ہو جاتے ہیں، جس کی پیمائش کرکے انہیں پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) 1٫0، 2.5 اور پی ایم 10 کے کے نام دیے جاتے ہیں۔
سہیل راجا مظفر آباد میں قائم آزاد کشمیر کے بڑے ہسپتال عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایمز کے شعبہ بیرونی مریضاں (او پی ڈی) میں روزانہ لگ بھگ 40 افراد پھیپھڑوں کی بیماریوں کی شکایت لے کر آتے ہیں۔ چوبیس بستروں پر مشتمل ان کا وارڈ ہر وقت مریضوں سے بھرا رہتا ہے۔
2017ء میں ایروسول اینڈ ائیر کوالٹی نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے سے تصدیق ہوتی ہے کہ مظفر آباد شہر کی فضا میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس سٹڈی میں یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کے دو اساتذہ شامل تھے۔ شعبہ کمپیوٹر سائنس کے ڈاکٹر واجد عزیز ان میں سے ایک ہیں۔
ڈاکٹر واجد کا کہنا ہے کہ مظفر آباد کی فضا میں تین طرح کے پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) یا باریک ذرات پی ایم 10، پی ایم 2.5 اور پی ایم 1.0 کی زیادتی ہے۔ اس سٹڈی میں ڈیٹا جمع کرنے کے لیے چھ مقامات چہلا بانڈی، سی ایم ایچ چوک، مسلم بک لینڈ، اولڈ سیکرٹریٹ، چھتر اور قادری ٹریولز کا انتخاب کیا گیا۔
"ان مقامات پر پی ایم 1.0 کی اوسط مقدار سوا چار سو مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے قریب تھی جبکہ پی ایم 2.5 کی اوسط مقدار سوا پانچ سو مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے لگ بھگ تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پی ایم 2.5 کی محفوظ حد 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر، پی ایم 1.0 کی 10 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر اور پی ایم 10 کی محفوظ حد 50 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔"
ڈاکٹر واجد عزیز نے بتایا کہ پی ایم 1.0 اور پی ایم 2.5 زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ انتہائی چھوٹے ذرات سانس کے ذریعے دماغ، خون کی شریانوں اور پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے سانس کی بیماریاں اور کینسر دونوں ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق مظفر آباد میں رہنے والے تمام لوگ اس فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہیں لہٰذا حکومت اس کی کے روک تھام کے اقدامات کرے۔
ماہرین کے مطابق اس اضافے میں 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد وسیع پیمانے پر تعمیر نو، بڑھتی ہوئی ٹریفک اور کان کنی کی سرگرمیوں جیسے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔
محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر شفیق عباسی کے مطابق 2005 کے زلزلے کے بعد دیہی علاقوں سے لوگوں نے شہروں کا رخ کیا، جن کے لیے باقاعدہ طور پر انتظام نہیں کیا گیا۔
2018 کی ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2017 تک مظفرآباد میں تعمیراتی علاقے میں 153 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ نقل مکانی کی وجہ سے شہری آبادیوں میں اضافہ ہوا، نالے اور دریاؤں کے کناروں پر مختلف تعمیرات ہوئیں، یہاں مختلف ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں، انہوں نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
"ان برسوں میں آپ کے سارے ندی، نالے تعمیرات میں تبدیل ہو گئے، سڑکیں بنیں، تجارتی مراکز بنے اور پھر جب آبادی بڑھتی ہے تو وسائل کی کھپت بڑھتی ہے، اسی حساب سے فضلہ اور کوڑا کرکٹ بھی پیدا ہوتا ہے
"مظفرآباد میں سڑکوں کی توسیع کا بڑا کام زلزلہ کے بعد ہوا، نلوچھی بائی پاس بھی بنا تو امید تھی کہ ٹریفک کی بھیڑ اب کم ہو گی، لیکن آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ روڈ سائیڈ پر آپکو پارکنگ نظر نہیں آتی، تو جہاں آبادی زیادہ ہو گی، وہاں ماحولیاتی مسائل تو ہوں گے۔"
ڈاکٹر سہیل راجا نے ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والی بیماریوں میں اضافے کے حوالے سے کہا کہ ان علاقوں میں گرمیوں میں بھی سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے مریضوں سے وارڈز بھرے رہتے ہیں۔
"اس اضافے کی اہم وجہ وہ باریک ذرات ہیں جوایندھن کے جلنے اور گھر میں جلائی جانے والی آگ سے ہوا میں خارج ہوتے ہیں، کیونکہ لوگوں کے پاس توانائی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ گرمیوں میں کھانے پکانے کے لیے لکڑی کا استعمال اور پھر سردیوں کے سات، آٹھ ماہ وہ گھروں میں آگ جلاتے ہیں جن سے پیدا ہونے والے باریک ذرات سگریٹ نہ پینے والی عورتوں اور بچوں میں بھی سانس کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا کینسر، دمہ اور ٹی بی کے امکانات بڑھا دیتے ہیں"۔
رواں سال کے اوائل میں پاکستان جنرل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک سٹڈی کے مطابق آزاد کشمیر میں اس وقت ہر ایک لاکھ میں سے 270 افراد کو تپ دق (ٹی بی) لاحق ہے۔
ایمز میں دل کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر ولید کا کہنا ہے کہ ان کے ہسپتال میں روزانہ تقریباً 40 سے 50 افراد دل کے امراض کی شکایات لے کر آتے ہیں اور ہر روز وارڈز میں مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا علاج اسی ہسپتال میں ہو جاتا ہے مگر جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب دیگر کو راولپنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شریانوں میں تنگی کی شکایت 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں پائی جاتی تھی لیکن حالیہ ڈیٹا کے مطابق اب یہ 20 سے 40 سال کے لوگوں میں بھی ہے جسکی بڑی وجوہات جسمانی سرگرمیوں کی کمی، ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے امراض میں اضافے کے علاوہ زیادہ مقدار میں جنک فوڈ اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔ نیز فضائی آلودگی سے بھی دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کےڈائریکٹر ٹیڈ روس اڈھانوم کیمیائی اجزاء کی حامل آلودہ فضا کو "نیا تمباکو" قرار دے چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح دنیا بھر میں تمباکو کے مضر صحت اثرات کے حوالے سے بات ہوتی ہے، دنیا کو اس نئی قسم کے تمباکو پر بھی آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دنیا بھر کے انسانوں کو بلا تفریق رنگ و نسل اور امیر غریب کے امتیاز کے بغیر متاثر کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شوگر ملوں سے بہتا زہریلا فضلہ جنوبی سندھ کو ویران کر دے گا
آزاد کشمیر کا محکمہ ماحولیات بھی فضا میں نقصان دہ ذرات سے پیدا شدہ فضائی آلودگی کی سنگین صورت حال سے آگاہ ہے۔سیکرٹری محمد نعیم بسمل کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کی جانب سے 2021ء میں مظفر آباد کے جمع کردہ ڈیٹا سے پتا چلا کہ فضا میں پارٹیکولیٹ میٹر محفوظ سطح سے بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے شہر کے مضافات میں واقع چہلہ میں کرش مشینوں اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا۔
نعیم بسمل نے کہا کہ فضائی آلودگی کی جانچ کے لیے ماہرین کے علاوہ 'ایمبنٹ ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم' موجود ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے کان کنی کے ضوابط کار کا نفاذ کرنے کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر ماحولیاتی صورت حال یا سٹیٹ آف انوائرمنٹ رپورٹ کا اجرا کیا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی جانچ کا نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔اس نظام سے گاڑیوں کی حالت اور دھواں چھوڑنے کی مقدار جاننے میں مدد ملتی ہے۔
کرش مشینوں کے بارے میں شفیق عباسی کا کہنا تھا کہ شوائی میں دو چار کرش مشینیں چل رہی ہیں لیکن وہ سخت ماحولیاتی سماجی بچاؤ کے تحت چل رہی ہیں، انہیں کنکریٹ عمارات کے اندر منتقل کیا گیا ہے اور جو خشک میٹریل ہوتا ہے، اسے کریش نہیں کرتے، پہلے اسے واش کرتے ہیں پھر کریش کیا جاتا ہے، جس سےآلودگی میں کسی حد تک کمی ہوئی ہے
محکمہ پولیس کے مطابق دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف 2021 میں کل 426 چالان اور ایک لاکھ 77 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، 2022 میں کل 721 چالان کیے گئے، اور دو لاکھ 67 ہزار جرمانہ کیا گیا جبکہ 2023 میں اب تک 395 چالان ہوئے ہیں جن میں ایک 98 ہزار 850 روپے کل جرمانہ کیا گیا ہے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود مظفر آباد میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے جس سے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب اہم مسئلے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے جس کے لیے ڈاکٹر واجد عزیز کا مشورہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ماحولیات کی تعلیم دی جائے۔
تاریخ اشاعت 30 دسمبر 2023