شبانہ بی بی(فرضی نام)، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے میڈیکل وارڈ میں دو سال سے بطور سٹاف نرس ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ ایک ہفتہ قبل وہ شدید خوف کے عالم میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم مرکز برائے تشخیص و علاج ایچ آئی وی/ایڈز سنٹر پہنچیں اور اپنا خون ٹیسٹ کرایا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے وارڈ میں ڈینگی کی ایک مریضہ زیر علاج تھیں جن کو انجکشن لگانے کی ضرور پیش آئی تو وہاں نئی سرنج نہیں تھی۔ تاہم وہاں اسی مریضہ کی استعمال شدہ سرنج پڑی ہوئی تھی۔
"وہ سرنج اٹھانے کے لیے جیسے ہی میں نے ہاتھ بڑھایا اس کی سوئی(نیڈل) میرے ہاتھ میں چبھ گئی اور خون بہنا شروع ہو گیا۔ بدقسمتی سے ڈینگی کی یہ مریضہ ایچ آئی وی پازیٹو تھیں جس کی وجہ سے میں سخت پریشان ہوں۔"
مرکز برائے تشخیص ایچ آئی وی/ایڈز و فراہمی ادویات میں تعینات ٹیکنیشن شبیرخان بتاتے ہیں کہ ابتدائی بلڈ ٹیسٹ میں شبابہ بی بی کی رپورٹ منفی آئی ہے مگر انہیں احتیاطاً دوائی دے دی گئی ہے۔ تاہم انہیں تین مہینے بعد دوبارہ ایک ٹیسٹ کرانا ہوگا۔
"میں خود بھی چند سال پہلے ایک متاثر مریض کا بلڈ سیمپل لینے کے دوران سرنج سے زخمی ہوا تھا لیکن ادویات کے بروقت استعمال سے ایڈز سے محفوظ رہا۔"
چالیس سالہ گل محمد (فرضی نام) لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کچرا ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھ سال پہلے ایک دن وہ وارڈ میں سبز رنگ کا ڈرم (جس میں طبی ویسٹ اور خطرناک کچرا ڈالنا ممنوع ہے) خالی کررہےتھے کہ اُس میں موجود خون آلودہ بلیڈ لگنے سے زخمی ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معمولی زخم سمجھ کر ہاتھ کو سپرٹ سے ہاتھ صاف کیا اور پٹی کر لی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ان کی صحت بگڑنے لگی اور مسلسل بخار شروع ہو گیا۔
"ڈاکٹر نے جب ٹیسٹ کرائے تو میرا ایچ آئی وی پازیٹو نکل آیا۔ تب سے میں اپنے ہی ہسپتال میں رجسٹرڈ ہوں اور باقاعدگی سے ادویات لے رہا ہوں۔"
ڈاکٹر طارق حیات پشاور میں ایڈز، ہپٹائٹس و تھیلسیما کنٹرول پراجیکٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مریضوں کے علاج کے دوران طبی عملے کو متعدی بیماریوں سے متاثر ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں جن میں ایچ آئی وی بھی شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اکتوبر2024ء تک خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی کے رجسٹرڈ مریضوں میں سے 18 کا تعلق صحت کے شعبے سے تھا۔ ان کے بقول رواں سال صوبے میں طبی عملے کے مزید چار پازیٹو کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ایچ آئی وی اور ہپسٹائٹس کے مریضوں کے علاج کے لیے عملے کو حفاظتی سامان فراہم کرتا ہے اور متاثرہ مریضوں کی سرجری سے قبل احتیاطی تدابیر کے لیے بھی اقدامات کرتا ہے۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ طبی عملے پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارہ صحت) کہتا ہے کہ پچھلے سال ایچ آئی وی سے متعلقہ وجوہات کے باعث دنیا میں اندازاً چھ لاکھ 30 ہزار ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 2023ء کے آخر تک لگ بھگ تین کروڑ 99 لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثرہ تھے۔
ایچ آئی وی یا ایڈز کیا ہے؟
ہیومن امیونو وائرس (ایچ آئی وی) یا ایڈز (اکوئرڈ امیون ڈیفیسنسی سینڈروم) پچھلے 45 سال سے ایک عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے جس کا مکمل علاج ابھی تک دریافت نہیں سکا۔
اس وائرس کی سائنسی اعتبار سے دو اقسام ہیں یعنی ایچ آئی وی ٹائپ ون اور ایچ آئی وی ٹائپ ٹو۔
تاہم دونوں ہی اقسام انسان کے مدافعتی خلیوں کو متاثر کرتی ہیں۔
امریکی ادارہ سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق ہیومن امیونو وائرس (ایچ آئی وی) جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کے نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ علاج نہ کیا جائے تو یہ وائرس 'ایڈز' کا سبب بن جاتا ہے جو ایچ آئی وی انفیکشن کا بدترین مرحلہ ہے۔
ایچ آئی وی، متاثرہ مریض کی جسمانی رطوبتوں یعنی انتقال خون، غیر محفوظ جنسی تعلقات، ایک ہی سرنج یا سوئی کے زیادہ افراد پر استعمال، حمل اور چھاتی کا دودھ پلانے کے ذریعے دوسرے افراد کو منتقل ہوسکتا ہے۔
کینیڈین فاؤنڈیشن فار ایڈز ریسرچ کے مطابق سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی اصل میں 1930ءکی دہائی میں مغربی افریقا میں شکار کے دوران بندروں(چمپینزی) سے خون کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا جو بعد ازاں دنیا کے دیگر حصوں میں پھیل گیا۔
تاہم دنیا کے بیشتر لوگ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ایچ آئی وی اور ایڈز سے آگاہ ہوئے۔
پاکستان اور ایڈز
گزشتہ سال جولائی میں شائع ہونے والی ایک سائنس ہیلتھ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی کا پہلا کیس 1987ء میں سامنے آیا جس کی وجہ غیر محفوظ انتقال خون تھی۔ تاہم یہاں 20 سال تک پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں وائرس کے متاثرین کی تعداد کم رہی۔
اقوام متحدہ (یو این ایڈز) کی فیکٹ شیٹ 2023ءکے مطابق پاکستان میں 15 سال سے زائد عمر کے قریباً دو لاکھ 90 ہزار افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں جن میں لگ بھگ 54 ہزار خواتین، دو لاکھ 30 ہزار مرد اور آٹھ ہزار 300 بچے(15 سال سے کم عمر ) شامل ہیں۔
تاہم نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (پاکستان) اپنی آفیشل سائٹ پر دعویٰ کرتا ہے کہ ملک میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد دو لاکھ ہے جن میں سے ستمبر 2024ء تک 72 ہزار 515 کیس رجسٹر ہو چکے تھے، اور 49 ہزار 939 افراد اے آر ٹی مراکز میں اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (دوائیں) حاصل کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں رواں سال مریض کیوں بڑھے؟
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں سال اکتوبر2024ء تک کل آٹھ ہزار330 رجسٹرڈ مریض ہیں جن میں سے سب زیادہ یعنی ایک ہزار 515 پشاور، 979 بنوں اور 384 سوات کے رہائشی ہیں۔
سات ضم قبائلی اضلاع میں مجموعی طور پر ایک ہزار 256 مریض رجسٹرڈ ہیں جن میں سب زیادہ 335 شمالی وزیر ستان، 259 خیبر اور 210 کر م کے رہائشی ہیں۔
پچھلے سال(2023ء) صوبے میں کل 898 مریض رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں طبی عملے کے چار افراد سمیت ایک ہزار41 کیس سامنے آ چکے ہیں جن میں 692 مرد، 242خواتین، 49خواجہ سراء، 38بچے، 20 بچیاں شامل ہیں۔
اعداد شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے سال کی نسبت رواں سال رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔
تاہم ڈاکٹر طارق حیات کا کہنا ہے کہ ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن وہ مختلف وجوہ کے باعث سامنے نہیں آتے۔
"رواں سال رجسٹرڈ مریضوں میں اضافہ اے آرٹی مراکز کی تعداد اور لوگوں میں آگاہی بڑھنے کے باعث نظر آیا ہے۔"
لوگ مرض چھپاتے ہیں
سنتیس سالہ جاوید علی (فرضی نام) میں ایچ آئی وی کی تشخیص دس سال قبل اس وقت ہوئی جب وہ روزگار کے لیے دبئی پہنچے۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہاں نوکری کے لیے ان کا میڈیکل ہوا تو ایچ آئی وی پازیٹو نکل آیا جس پر انہیں تین روز کے اندر وطن واپس بھیج دیا گیا۔
"میں نے بیوی کے سوا اپنی بیماری کا کسی کو نہیں بتایا۔ ہیپٹائٹس کے علاج کا بہانہ بنا کر میں حیات آباد کے فیملی کئیر سنٹر(یا اے آر ٹی سنٹر) سے علاج کرارہا ہوں اور باقاعدگی سے ادویات لیتا ہوں۔"
جاوید راولپنڈی میں بطور پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ ملازمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے دوسالوں سے انہیں ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف کے باعث سرجری کی ضرورت ہے۔ لیکن پشاور کے نجی ہسپتال نے ایچ آئی وی کی وجہ سے ان کا آپریشن کرنے سے انکار کر دیا۔
"دس سال سے مجھے یہی فکر ہے کہ کہیں میری بیماری کا کسی کو پتہ نہ چلے۔ لیکن پشاور کے نجی ہسپتال میں ایچ آئی وی کی وجہ سے ڈاکٹر نے نہ صرف میرا آپریشن کرنے سے انکار کیا بلکہ میرے ایک رشتہ دار کے سامنے پوچھا کہ بتاؤ تم نے کون سا غلط کام کیا ہے؟"
جاوید علی کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ بیماری کیسے لگی لیکن سب سے زیادہ پریشانی ایڈز کے ساتھ جڑی شرمندگی سے ہوتی ہے۔ کسی کو بیماری کا پتہ چل جائے تو آپ کے ساتھ کھانا پینا تو دور وہ دعاسلام بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
"ایچ آئی وی سے متعلق منفی رویہ صرف عام لوگوں ہی میں نہیں، طبی عملے کی اکثریت بھی عجیب وغریب سوال شروع کر دیتی ہے جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ یہاں تک کہ پہلی بار تشخص پر ایڈز کنٹرول پروگرام کے عملے کا بھی ایسا ہی رویہ تھا۔"
یہ بھی پڑھیں
پشاور اور بنوں میں ایچ آئی وی (ایڈز) سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟
ایک اور مریض گل محمد کو بھی یہی خوف ہے کہ اگر ہسپتال کے عملے کو ان کے ایچ آئی وی کا پتہ چل گیا تو انہیں اسی روز نوکری سے نکال دیا جائے گا، جبکہ رشتہ دار اور محلے دار نفرت کرنا شروع کر دیں گے۔
ان کے بقول طبی عملے میں ایسے کئی لوگ ہیں جو نوکری جانے کے ڈر سے اپنی بیماری چھپا رہے ہیں۔
ڈاکٹرطارق حیات کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایچ آئی وی سے متعلق اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ یہ بھی دیگر امرض کی طرح ایک بیماری ہے جو ایک سے دوسرے میں مختلف طریقوں سے پھیلتی ہے تاہم سماجی رابطوں، کھانے پینے یا مل بیٹھنے سے نہیں پھیلتی۔
ان کا کہنا ہے کہ مریض سے نہیں اس مرض سے نفرت کرنا چاہیے۔متاثر افراد کو اخلاقی وسماجی مدد اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس مشکل کا بھرپور مقابلہ کرسکیں۔
"ہمارا ادارہ نہ صرف عام لوگوں بلکہ طبی عملے کی بھی رہنمائی کا اہتمام کرتا ہے کہ وہ مریض سے کیسا برتاؤ رکھیں۔ جبکہ مریضوں کے لیے ہر مرکز میں تشخیص و دواؤں کی فراہمی کے ساتھ مردوں عورتوں کے لیے الگ الگ ماہرین نفسیات تعینات کیے گئے ہیں۔"
ایچ آئی وی کا علاج کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایچ آئی وی کے علاج کا واحد طریقہ اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) یعنی دواؤں کا استعمال ہے جو خون میں ایچ آئی وی کی سطح (جسے وائرل لوڈ کہا جاتا ہے) کو کم کرتی ہیں۔ وائرس کو کنٹرول کیا جائے تو اس کی منتقلی کا خطرہ تقریباً صفر ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر طارق حیات نے بتایا کہ متاثر افراد بنیادی اصولو ں کا خیال رکھیں اور اے آر ٹی مراکز سے دوا لیں۔ دن میں صرف ایک ہی گولی باقاعدگی سے لیں تو عام لوگوں طرح زندگی بسر کر سکتے ہیں جبکہ متاثر افراد ( جوڑا ہو یا ان میں سے کو ئی ایک) باقاعدہ سے دوا لیں تو بیماری سے پاک بچے پیدا کر سکتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 1 دسمبر 2024