ڈسکہ میں احمدی مذہب کی عبادت گاہ کے مینار اور قبرستان کےکتبے کس نے توڑے؟

postImg

عابد محمود بیگ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ڈسکہ میں احمدی مذہب کی عبادت گاہ کے مینار اور قبرستان کےکتبے کس نے توڑے؟

عابد محمود بیگ

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے رہنے والے  تھے۔ قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہونے والا ان کا ڈیرہ پرانا ڈسکہ میں ہے۔ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ظفر اللہ خان نے اپنے مذہب کی تعلیم و تربیت کے لیے اس ڈیرے پر اہتمام کر رکھا تھا اور اس کے مرکزی داخلی گیٹ اور  چھت پر مینار بنا رکھے تھے۔

ان میناروں اور قریبی احمدی قبرستان پر تحریک لبیک پاکستان کے اعتراضات نے ایک نئے تنازعے کو جنم دیا ہے۔

پرانا ڈسکہ سے آٹھ سو میٹر کے فاصلہ پر ڈسکہ نہر بہتی ہے جس کے بائیں جانب نئی کچہریاں ہے۔ ڈسکہ نہر کا پل عبور کرنے پر دائیں طرف دو گاؤں بھروکے کلاں اور موسیٰ والا ہیں۔ ان دونوں میں 20 سال پہلے تک بہت سے احمدی خاندان رہتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر اب یورپی ممالک کو چلے گئے ہیں۔

بھروکے کلاں میں پانچ فیصد آبادی احمدی ہے جبکہ اہل حدیث اور اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والوں کا تناسب بالترتیب 10 اور 85 فیصد ہے۔

احمدیوں کا قبرستان نئی کچہریوں کے سامنے ہے جسے بھروکے کلاں والا قبرستان کہا جاتا ہے۔

کچھ ہی عرصہ قبل پرانا ڈسکہ کے محلہ ٹوٹیانوالہ کے امیر حمزہ نے اسسٹنٹ کمشنر کو درخواست دی کہ 18 جولائی 2023ء کو وہ سر ظفراللہ خان ساہی ( سابق وزیر خارجہ) کے ڈیرے کے قریب گزر رہے تھے جہاں مسجد نما مینار اور گنبد دیکھ کر وہ عمارت کے اندر گئے تو معلوم ہوا کہ یہ احمدیوں/ لاہوری گروپ والوں کی عبادت گاہ اور مدرسہ ہے۔ انہوں نے اپنی عبادت گاہ کو مسجد سے مشابہ تعمیر کر رکھا ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ نے اپنی درخواست میں اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ سےاس عبادت گاہ کے مینار ختم کروانے کا کہا۔

بھروکے کلاں ڈسکہ کے جنید امجد بٹ نے 23 جولائی 2023ء کو اسسٹنٹ کمشنر کو ایک درخواست دی جس میں کہا گیا کہ احمدیوں/ لاہوری گروپ کے قبرستان میں قبروں پر لگائے گئے کتبوں پر اسلامی کلمات لکھے ہوئے ہیں۔ یہ کتبے اتروائے جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

درخواستیں دینے والے ان دونوں شہریوں کا تعلق تحریک لبیک سے بتایا جاتا ہے۔

درخواستوں پر انتظامیہ کی جانب سے کارروائی نہ ہونے پر اس جماعت کے ڈسکہ یونٹ نے 22 ستمبر 2023ء کو کالج چوک چونگی نمبر چھ سے احتجاجی ریلی نکالی جس نے ڈی ایس پی ڈسکہ کے دفتر کے باہر دھرنا دیا۔ مظاہرین کے وفد سے مذاکرات کے بعد  انتظامیہ نے یقین دلایا کہ 12 ربیع الاول سے پہلے ڈیرے کے مینار ختم کر دیے جائیں گے۔

تحریک لبیک نے خبردار  کیا کہ اگر انتظامیہ نے 29 ستمبر یعنی 12 ربیع الاول تک ایسا نہ کیا تو احتجاجی مظاہرین خود ہی کتبے اور مینار ہٹانے پر مجبور ہوں گے۔

اس دوران گاؤں بھروکے کلاں میں احمدیوں کے قبرستان میں نامعلوم افراد نے درجنوں قبروں پر لگے ایسے کتبے توڑ دیے جن پر اسلامی کلمات درج تھے۔

احمدیوں نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا کہ قبرستان کا تقدس پامال کرتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس نے اپنی موجودگی میں قبروں پر لگے کتبے تڑوائے ہیں۔

مدثر مرزا ( فرضی نام ) کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور وہ ڈسکہ شہر کے رہائشی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

"جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ تعلیمی اداروں میں جانے سے اور کاروباری لوگ اپنے کاروبار پر جانے سے ڈرتے ہیں۔ دھمکیوں کی وجہ سے جماعت کے لوگ عبادت گاہ کی بجائے گھروں میں عبادت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔"

 بھروکے کلاں کے 35 سالہ مرزا فرحان کہتے ہیں کہ کچھ شر پسند عناصر ذاتی مفادات کے لیے امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیالکوٹ میں تحریک لبیک کے سرپرست اعلیٰ قاری فضل حق سلطانی کے بقول ان کی جماعت نے ان کی عبادت گاہوں پر حملہ نہیں کیا اور نہ مینار یا قبرستان میں قبروں پر لگے کتبوں کی توڑ پھوڑ کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آئین شکنی یا آئین کی پاسداری: شیخوپورہ میں احمدی عبادت گاہ کے مینار کیوں گرائے گئے؟

"ہم نے اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ کی اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔"

مقامی وکیل بابر افضل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بنیادی حقوق کے ساتھ مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ اگر کسی گروپ کے افراد کو مذہبی جماعتوں اور انتظامیہ سے تحفظات ہیں تو وہ پاکستان کی عدالتوں سے رجوع کریں۔

ڈسٹرکٹ پولیس سیالکوٹ کے ترجمان خرم شہزاد نے تصدیق کی کہ دو شہریوں نے انتظامیہ کو درخواستیں دی تھیں۔ پولیس نے تحریک لبیک پاکستان اور احمدیوں کو امن و امان قائم رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔ انتظامیہ نے دونوں اطراف سے موقف سننے کے بعد قانون کے مطابق انہیں عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں گروپوں نے انصاف کے حصول کے لیے مقامی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ پرانا ڈسکہ میں رہنے والے سر ظفراللہ خان کے رشتہ دار اور جماعت احمدیہ سے وابستہ لوگ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک مختلف اوقات میں بیرونی ممالک منتقل ہوتے رہے اور اب وہاں ایسے صرف دو سے تین درجن خاندان ہی رہائش پذیر ہیں۔ 

تاریخ اشاعت 12 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عابد محمود بیگ 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اردو انگلش الیکٹرانک میڈیا کی صحافت اور انویسٹیگیش نیوز سٹوری پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.