خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر کے علاقےکوہستان سے ملک بھر میں سبزیاں اور پھل برآمد کیے جاتے ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے مٹر، گوبھی، آلو، سلاد، سیب، ناشپاتی، خوبانی آلوچہ اور دیگر زرعی اجناس اپنے ذائقے اور معیار کے اعتبار سے ہر جگہ پسند کی جاتی ہیں۔ لیکن اس سال ملک بھر کی منڈیاں کوہستان کی ان سوغاتوں سے خالی ہیں۔
گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے کوہستان میں زرعی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تھل، لاموتی اور کلکوٹ سمیت ضلع بھر میں کاشت کاروں کی زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے جو تاحال اپنی زندگی اور کھیت بحال نہیں کر سکے۔
دیر سے تعلق رکھنے والے کاشت کار ملک جہاں زیب بتاتے ہیں کہ سیلاب میں تھل کے علاقے کلاں بالا اور تھل بازار کے قریب دریا کے دونوں اطراف مکئی، گوبھی، آلو، مٹر اور سلاد کی فصلیں منٹوں میں ملیا میٹ ہو گئیں۔ یہ فصلیں ان کے روزگار کا اہم ترین ذریعہ تھیں۔
''مسلسل چودہ روز بارش اور سیلاب سے پورے علاقے میں سیکڑوں ایکڑ زرعی رقبے پر کاشت کی جانے والے فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا۔ حکومت نے تاحال ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ ہم نے اپنے نقصان کے ازالے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو بارہا درخواستیں دیں لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی جبکہ ہماری زمینوں کا بڑا حصہ اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔''
محکمہ زراعت کے ضلعی افسر محمد پرویز بتاتے ہیں کہ اگست 2022 میں دو ہزار سے زیادہ ایکڑ پر زرعی اراضی سیلاب برد ہوئی جس میں سب سے زیادہ نقصان کلکوٹ، لاموتی اور تھل میں ہوا۔ تحصیل کلکوٹ میں آٹھ کروڑ سے زیادہ مالیت کی سبزیوں اور پھلوں کو نقصان ہوا جبکہ تحصیل شرینگل میں نقصان کا اندازہ تقریباً پانچ کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
اسی طرح اپر دیر میں تقریباً 29 کروڑ، واڑی میں چھ کروڑ، لرجم میں پانچ کروڑ، براول میں تقریباً چار کروڑ، دیر میں تین کروڑ اور براول میں چار کروڑ روپے مالیت کی زرعی پیداوار سیلاب میں بہہ گئی۔
پرویز کے مطابق یہ وہ معلومات ہیں جو قابل رسائی علاقوں میں کئے گئے سروے سے حاصل ہوئی ہیں یا جن کے بارے میں متاثرین نے مصدقہ اعدادوشمار پیش کیے ہیں۔ ایسے علاقوں میں ہونے والے نقصان کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آ سکیں جو سڑکیں تباہ ہو جانے کے نتیجے میں قابل رسائی نہیں رہے یا محکمہ زراعت عملے کی کمی کے باعث وہاں اپنی جائزہ ٹیمیں نہیں بھیج سکا۔
اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے زرعی نقصان کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
مسلسل چودہ روز بارش اور سیلاب سے سیکڑوں ایکڑ زرعی رقبے پر کاشت کی جانے والے فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا
تھل میں سیلاب سے متاثر ہونے والے زمیندار حاجی میر اکبر کہتے ہیں کہ ان کے دس کنال رقبے پر آلو اور مٹر کی فصل سیلاب برد ہو گئی۔ ان کا روزگار اسی اراضی سے وابستہ تھا جسے بحال کرنے میں انہیں بہت سی مشکلات درپیش ہیں جبکہ حکومت نے تاحال ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
''تھل کوہستان کے زیادہ تر سبزیاں اور پھل کاشت کر کے سال بھر کی روزی کماتے ہیں۔ سیلاب ہمارے لیے بہت بڑا عذاب ثابت ہوا۔ جن لوگوں کی فصلیں پانی سے بچ گئیں وہ بھی انہیں اٹھا کر منڈیوں تک نہ پہنچا سکے کیونکہ سیلاب کے باعث سڑکیں اور پل ٹوٹنے سے راستے بند ہو گئے اور تھل کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔''
میر اکبر شکوہ کرتے ہیں کہ سیلاب کے بعد ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور مقامی عوامی نمائندوں کے علاوہ کسی نے ان سے نقصانات کی تفصیل جاننے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
کلکوٹ کے سابق تحصیل ناظم ملک تاجبر خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے متاثرہ کاشتکاروں کو مدد مہیا نہ کیے جانے کے دور رس اثرات ہوں گے۔
''اس علاقے سے سبزیاں اور پھل پورے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی بڑی منڈیوں میں سپلائی کیے جاتے ہیں۔ سیلاب سے تباہ شدہ اراضی کی عدم بحالی سے آنے والے دنوں میں ملک کے بڑے شہروں میں بہت سی سبزیوں اور پھلوں کی قلت اور مہنگائی ہو جائے گی۔''
اپر دیر کے ڈپٹی کمشنر اکمل خٹک نے سجاگ کو محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیلاب سے پندرہ ہزار ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی جس میں مکئی، چاول ، سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ایک ایکڑ سے کم زمین والے کسان کو معاوضہ نہیں ملے گا۔ اسی پالیسی کے باعث بہت سے لوگوں کی مدد نہیں ہو سکی۔ لیکن جن لوگوں کی ملکیت میں ایک ایکڑ سے زیادہ اراضی ہے انہیں معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔
عالمی بینک کے تعاون سے کسانوں کو گندم کی کاشت کے لیے بیج فراہم کیے گئے ہیں۔ تاہم کسی حکومتی یا بین الاقوامی ادارے کی جانب سے متاثرہ کسانوں کو نقد یا زرعی آلات کی صورت میں تاحال کوئی مدد نہیں مل سکی۔
محمد پرویز بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت کو عالمی بینک کی جانب سے بیج کے طور پر استعمال ہونے والی گندم کے 2100 تھیلے ملے ہیں جو اتنے ہی کسانوں میں تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ ایسے ایک تھیلے میں 50 کلو گندم ہوتی ہے جس سے ایک ایکڑ اراضی پر فصل اگائی جا سکتی ہے۔ وہ حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ متاثرہ کسانوں کو زرعی آلات فراہم کیے جائیں اور ان کے لیے کچن گاڑڈن اور تربیتی ورکشاپوں کا اہتمام ہونا چاہیے جس سے انہیں مشکل حالات میں کاشتکاری جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
تاجبر خان سمجھتے ہیں کہ سیلاب میں تباہ ہونے والے پانی کی ترسیل کے ذرائع کا بحال نہ ہونا بھی اس علاقے میں زراعت کی بحالی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
''حکومت اور ضلعی انتظامیہ تباہ ہونے والے واٹر چینل دوباہ تعمیر کرائیں تاکہ رواں سال بہتر پیداوار حاصل کی جا سکے۔ حکومت سیلاب سے تباہ شدہ سرکوں کی جلد از جلد تعمیر نو بھی ممکن بنائے کیونکہ راستے خراب ہونے سے عام لوگوں کی آمد و رفت کے علاوہ زرعی اجناس کی ترسیل بھی رک گئی ہے۔''
تاریخ اشاعت 8 اپریل 2023