چمن میں مقیم افغان مہاجرین:'پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنا پڑیں، میں اپنی بچیوں کو تعلیم ضرور دلاؤں گا'

postImg

حضرت علی

postImg

چمن میں مقیم افغان مہاجرین:'پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنا پڑیں، میں اپنی بچیوں کو تعلیم ضرور دلاؤں گا'

حضرت علی

حاجی جان آغا افغانستان کے صوبہ لشکرگاہ میں پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ ان کی زندگی اچھی گزر رہی تھی اور ان کے بچے سکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ لیکن 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت آںے کے بعد سب کچھ بدل گیا اور انہیں پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔

اب وہ چمن سے قریباً پندرہ کلومیٹر فاصلے پر کلی حاجی گل شاہ نامی افغان بستی میں رہتے ہیں جو تقریباً سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ علاقے میں نکاسی آب کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ بستی کے مکین کچھ فاصلے پر ایک ٹیوب ویل سے ضرورت کا پانی لاتے ہیں اور چھوٹے موٹے کام کر کے گزربسر کرتے ہیں۔

حاجی جان آغا کا خاندان 16 افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے دو بیٹوں کی شادی ہوچکی ہے جن میں بڑا بیٹا عبدالخالق تین بیٹیوں کا باپ ہے جبکہ دوسرے بیٹے عبدالقادر کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ حاجی جان کی چار نواسیاں اور ایک نواسا افغانستان میں رہ گئے ہیں۔جب انہوں نے افغانستان چھوڑا تو  عبدالخالق کی بڑی بیٹی بی بی زردانہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں جبکہ دوسری بیٹی گل چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ اسی طرح عبدالقادر کی بیٹی بھی چوتھی اور بیٹا پہلی جماعت کے طالب علم تھے۔

<p>یونیسف کے قائم کردہ ایجوکیشن سینٹر میں بچیوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے<br></p>

یونیسف کے قائم کردہ ایجوکیشن سینٹر میں بچیوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے

وہ بتاتے ہیں کہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے لیکن ان کے ہجرت کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکام نے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا تھا جو انہیں کسی طور قبول نہ تھا۔

''طالبان نے حکومت سنبھالی تو صوبے کے تعلیمی ادارے بالخصوص لڑکیوں کے سکول بند ہو گئے۔ خواتین اساتذہ گھروں میں بیٹھ گئیں یا انہوں ںے علاقہ چھوڑ دیا۔ جب حالات سدھرنے کی امید نظر نہ آئی تو میں نے اپنی دکان بیچ دی اور ہم لوگ جیسے تیسے پاکستان آ گئے۔ پہلے تو ہم اپنی جمع پونجی خرچ کر کے گزارا کرتے رہے لیکن اب ہمارے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔''

حاجی جان آغا اب محنت مزدوری کررہے ہیں اور ان کا بڑا بیٹا عبدالخالق ٹھیلہ لگا کر سبزی فروخت کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے باعث وہ بمشکل گزر بسر کرتے ہیں۔ پاکستان میں آںے کے بعد کسی غیرسرکاری ادارے نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ البتہ یونیسف نے بچوں کو مفت تعلیم دینے کے لیے ایک ایجوکیشن سینٹر بنایا ہے جہاں خاندان کی بچیاں زیر تعلیم ہیں۔

''مجھے خوشی ہے کہ خاص طور پر ہماری بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اب چاہے مجھے پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنا پڑیں، میں اپنی بچیوں کو تعلیم ضرور دلاؤں گا۔''

ان کی پوتی بی بی زردانہ کہتی ہیں کہ اگر انہیں دادا کی مدد حاصل رہی تو وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنیں گی۔

<p>ضلع چمن میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 4000 ہے جن کے پاس اے سی سی یعنی 'افغان سٹیزن کارڈ' ہیں<br></p>

ضلع چمن میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 4000 ہے جن کے پاس اے سی سی یعنی 'افغان سٹیزن کارڈ' ہیں

حاجی جان آغا کے پوتے پوتیاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے قائم کردہ خصوصی سکولوں میں زیرتعلیم ہیں جہاں آٹھویں جماعت تک تعلیم دو سال میں مہیا کی جاتی ہے۔

چمن میہں یونیسف کے پروگرام افسر جمیل کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ یونیسف نے کلی رحمان اور کلی گلدارہ باغیچہ میں ان مہاجرین کے بچوں کے لیے دو تعلیمی مراکز کھولے ہیں جہاں 65 بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ ان مراکز میں بچوں کو کتابیں اور سٹیشنری مفت فراہم کی جا رہی ہے اور انہیں پڑھانے والے اساتذہ کو روزانہ فی بچہ 40 روپے دیے جاتے ہیں۔

عطا محمد کا تعلق افغان صوبہ قندھار سے ہے۔ وہ اکتوبر 2021 میں ہجرت کرکے چمن کی بستی حاجی گل شاہ میں آباد ہوئے ہیں۔ حاجی جان آغا کی طرح ان کی ہجرت کا محرک بھی بچوں کی تعلیم ہے۔

''میں سائیکلوں کو پنکچر لگانے کا کام کرتا تھا۔ میری دس سالہ بیٹی اور نو اور سات سال عمر کے دو بیٹے سکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ چونکہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد وہاں انتظامیہ کا کنٹرول جنگجوؤں کے ہاتھ میں آ گیا تھا اس لیے مجھے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل غیریقینی محسوس ہوا اور مجھے اپنے بیوی بچوں کو لے کر ہجرت کرنا پڑی۔''

عطا محمد اب ریڑھی پر گنڈیریاں فروخت کرتے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے بھی سکول سے واپس آںے کے بعد ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں اور اگر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیمی پر پابندی اٹھا لی تو وہ ایک دن بھی پاکستان میں نہیں ٹھہریں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور میں مقیم افغان:' ہم ہر وقت غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں واپس نہ بھیج دیا جائے'۔

حاجی جان آغا اور ان جیسے بہت سے خاندانوں کو عارضی طور پر پاکستان میں قیام کی اجازت دی گئی ہے اور انہیں مہاجر کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اسسٹںٹ ڈائریکٹر احتشام نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع چمن میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 4000 ہے جن کے پاس اے سی سی یعنی 'افغان سٹیزن کارڈ' ہیں۔ یہ وہ افغانی ہیں جنہوں ںے 2001 میں مہاجرت اختیار کی تھی۔ اس وقت ادارہ نئے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن نہیں کر رہا کیونکہ حکومت پاکستان نے اس کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی۔

حاجی جان آغا کہتے ہیں کہ وہ باامر مجبوری ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ پاکستان آ کر انہیں جن معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ انہیں افغانستان میں درپیش نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر افغانستان کے حالات معمول پر آ جائیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اٹھا لی جائے تو کون وطن واپس نہیں جانا چاہیے گا۔

تاریخ اشاعت 5 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حضرت علی عطار کا تعلق بلوچستان کے ضلع چمن سے ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے مختلف نیوز ایجنسز اور پاکستان کے بڑے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.