پینتیس سالہ شاہ نواز روزانہ 15 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے لیے تین کلومیٹر فاصلے سے پینے کا پانی گدھے پر لاتے ہیں۔ پہلے وہ اپنے گاؤں کے آر او پلانٹ سے پانی بھرتے تھے مگر ایک سال سے یہ پلانٹ خراب پڑا ہے جس سے شاہ نواز سمیت پورے گاؤں کے لیے پینے کے پانی کا بندوبست کرنا ایک اضافی مشقت بن گئی ہے۔
شاہ نواز کا تعلق تھرپارکر کے کاٹھو گاؤں سے ہے۔ یہاں کے لوگ اب نوکوٹ سے مٹھی جانے والی واٹر سپلائی لائن کے سٹوریج ٹینک سے پانی لاتے ہیں۔ کاٹھو کے گرد و انواح میں بہت سے دیہات میں لگائے گئے آر او پلانٹ بھی بند پڑے ہیں اور اس تمام آبادی کو پانی کا مسئلہ یکساں شدت سے درپیش ہے۔
شاہ نواز کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کا آر او پلانٹ ایک سال تو ٹھیک چلا اور پھر خراب ہو گیا۔ گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی مرمت کرائی جس کے بعد یہ دو سال تک پانی دیتا رہا لیکن اب پچھلے سال سے بند پڑا ہے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ والوں کو شکایت بھی کی گئی مگر کوئی اسے دیکھنے نہیں آیا۔
"پہلے کنویں ہوتے تھے تو پانی کڑوا ہی سہی مگر سب کو میسر ہوتا تھا۔ جب آر او پلانٹ لگے تو کنویں بھی بند ہو گئے تھے۔ ہم لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔ مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے بھی تین کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ ہمیں آر او پلانٹ کی جگہ کنویں واپس کر دیں۔"
صحرائےتھر کے لوگ صدیوں سے کنوؤں کا کڑوا پانی پیتے رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے یہاں میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیے 2011ء میں شمسی توانائی سے چلنے والے آر او (ریورس اوسموسس) پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پانچ ارب 40 کروڑ روپے کے اس منصوبے کا مقصد پورے تھرپارکر میں روزانہ آٹھ لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنا تھا۔
اس منصوبے کے تحت صوبائی حکومت نے یہاں ساڑھے سات سو آر او پلانٹ لگانے کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی 'پاک اوسس' کو دیا۔کمپنی نے ضلع بھر میں تین سال میں چھوٹے بڑے 635 پلانٹ لگا دیے۔ جس کے بعد انہیں فعال رکھنے کا کام بھی اسی کمپنی کے سپرد کر دیا گیا۔
ریورس اوسموسس (آر او) وہ ٹیکنالوجی ہے جو پانی میں موجود ٹھوس مواد (ٹی ڈی ایس) کو کم کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے۔ پانی میں بیکٹیریا اور بھاری پن ختم ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے پریشر اور پری ریورس اوسموسس میمبرین (ایک قسم کا فلٹر) کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پبلک ہیلتھ حکام کے مطابق آر او پلانٹ عام طور پر پانی سے فالتو نمکیات کو نکالنے کے ساتھ کئی کثافتوں کو بھی ختم کرتا ہے۔ اس کے لیے زمین سے پانی نکالنےکا پورا مکینیکل سسٹم اور میٹھے پانی کا ٹینک بھی بنایا جاتا ہے۔ پلانٹ کی میمبرین(فلٹر) سال یا ڈیڑھ سال بعد لازمی تبدیل کرنا ہوتی ہے۔
پروگرام کے تحت تھر کے دیہات میں 15 ہزار گیلن روزانہ کی صلاحیت والا آر او پلانٹ لگایا گیا۔اور اسے چلانے کے لیے ہر جگہ آپریٹرز تعینات کیے گئے تھے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) کے مطابق ایک پلانٹ پر آپریٹر کی تنخواہ سمیت سالانہ 20 سے 22 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں 934 ملین روپے سے آر او پلانٹ نصب کیا گیا۔ یہ شمسی توانائی سے چلنے والا ملک کا سب سے بڑا آر او پلانٹ ہے جس کا مقصد شہر اور نواح کو روزانہ 20 لاکھ گیلن پانی فراہم کرنا تھا۔ سابق صدر آصف زرداری نے جون 2015ء میں اس منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
محکمہ پی ایچ ای کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مٹھی کا بڑا آر او پلانٹ چھ ماہ بعد ہی بند ہو گیاتھا۔ افتتاح کے وقت اس پلانٹ کے 21 میں سے 14 بور ہی آپریشنل تھے۔ وہ بھی ایک سال چلے اور پھر ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے۔
سب انجنیئر موہت کمار تصدیق کرتے ہیں کہ مٹھی کا آر او پلانٹ بند پڑا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ مٹھی کی 70 ہزار آبادی کو روزانہ چھ لاکھ گیلن پانی کی ضرورت ہے۔ لیکن اب یہاں صرف تین لاکھ گیلن پانی واٹر سپلائی سکیم کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔
محکمہ پبلک ہیلتھ کے افسر بتاتے ہیں کہ مٹھی کے بعد دوسرا بڑا پلانٹ تھر کے شہر اسلام کوٹ میں لگایا گیاتھا۔اس کی روزانہ صلاحیت 15 لاکھ گیلن ہے لیکن یہ بھی کبھی چلتا اور کبھی خراب ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آر او پلانٹ لگانے والی کمپنی 'پاک اوسس' نے ان تمام پلانٹس کو آپریٹ کرنے کے لیے 2014ء میں 760 ملازمین بھرتی کیے تھے۔ کمپنی کو سرکاری خزانے سے آپریٹر کی تنخواہ 16ہزار 200 ملتی تھی جبکہ وہ ملازموں کو دس ہزارفی کس ادا کرتے تھے۔
افسر کے مطابق کمپنی چھوٹا آر او پلانٹ چلانے کی مد میں حکومت سے 20 ہزار روپے ماہانہ لیتی تھی اور بڑے پلانٹ کے پانی کا ٹھیکہ 160 روپے فی ہزار گیلن کے حساب سے وصول کرتی رہی۔ لیکن کمپنی نے دیہات کے آر او پلانٹس کی دیکھ بھال کی اور نہ ہی چھ سال میں ان کی میمبرین (فلٹر)کو تبدیل کیا۔
کمپنی کا دعویٰ رہا کہ وہ مٹھی میں آر او پلانٹ سے دس لاکھ گیلن پانی روزانہ مہیا کرتے رہے ہیں اور ادائیگی بھی اسی حساب سے ہوتی رہی تھی۔اس طرح کمپنی کو اربوں روپے ادا کیے جاتے رہے۔
پاک اوسس کا ٹھیکہ 2019ء میں ختم ہو گیا اور تمام پلانٹ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کی نگرانی میں آ گئے۔
جون 2020 میں وزیراعظم کے شکایات پورٹل پر غلام حسین نامی شہری نے پانی کی عدم فراہمی کے بارے میں درخواست دی تھی۔اس کے جواب میں چیف انجینئر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ حیدرآباد نے اعتراف کیا تھا کہ کل 635 آر او پلانٹس میں سے صرف 131 پلانٹ فعال ہیں۔ 303 میں فنی خرابی ہے اور 201 پلانٹ مکمل بند ہیں۔
اپریل 2021 میں دیہات کے آر او پلانٹس ایک بار پھر ٹھیکے پر دے دیے گئے۔ یہ ٹھیکہ ایک اور کمپنی 'اوسلو' (اوسلو لائٹننگ سولیوشن لمیٹڈ اور منروا بلڈر اینڈ انوویشن پرائیویٹ لمیٹڈ کا جوائنٹ وینچر) کو ایک سال کے لیے ایک ارب 43 کروڑ میں دیا گیا تھا۔ ٹھیکے میں پلانٹس کی بحالی، دیکھ بھال اور انہیں فعال رکھنا بھی شامل تھا۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ایک مراسلے میں کہا گیا تھا کہ اوسلو کمپنی کو 623 آر او پلانٹس کی رقم جاری کی گئی ہے۔ کمپنی کو مٹھی میں نصب پلانٹ کے لیے 21 کروڑ اور اسلام کوٹ پلانٹ کے لیے20 کروڑ الگ سے دیے گئے ہیں۔
اپریل 2022 ء میں 'اوسلو'کا ٹھیکہ ختم ہوا تو اس میں 3 ماہ کی توسیع کر دی گئی۔تاہم اس کمپنی نے نہ تو کوئی بند آر او پلانٹ فعال کیا بلکہ 760 ملازمین کو پندرہ میں سے 12ماہ کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کیں۔
آر او پلانٹس کی نگرانی اب محکمہ پبلک ہیلتھ کے پاس ہے۔ ایک افسر کے بقول محکمہ ٹھیکیداروں کے ذریعے پلانٹس کو فعال بنا رہا ہے۔ مٹھی پلانٹ کے لیے رواں سال 21 کروڑ رکھے گئے ہیں۔ تاہم اسے فعال بنانے پر 2 ارب روپے خرچ ہوں گے جبکہ محکمے کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہے۔
ایک مقامی ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمے کا کل بجٹ 50 کروڑ ہے۔ اس میں سے 24 کروڑ تنخواہوں کی مد میں جاتے ہیں۔ بقایا رقم سے 50 پلانٹ بمشکل فعال کیے جا سکیں گے۔کیوںکہ ایک چھوٹے پلانٹ کی بحالی پر 15 سے 20 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گھوٹکی میں کروڑوں کی لاگت سے لگائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹ 2 ماہ بھی نہ چل سکے
ضلع بھر میں اب صرف ایک سو پلانٹ کام کر رہے ہیں۔تاہم سب انجنیئر موہت کمار دعویٰ کرتے ہیں کہ 180کے قریب پلانٹ فعال ہو چکے ہیں اور اگلا بجٹ جیسے ریلیز ہوگا تمام پلانٹس کی بحالی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
محکمے کے ایک افسر نے انکشاف کیا کہ جب 2022ء میں پبلک ہیلتھ نے سروے کیا تو پتا چلا کہ صرف 116 پلانٹ ہی فعال تھے۔ ان میں بھی ریپیئرنگ کا کام موجود تھا۔ پلانٹ آپریٹروں کو تین سال سے تنخواہیں نہیں ملیں اور وہ مسلسل مٹھی پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔
عرفان بجیر 2014ء سے آر او پلانٹ پر ملازم ہیں اور پلانٹ آپریٹرز یونین کے صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اوسلو کمپنی نے ایک سال پلانٹس پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔15 ماہ کے ٹھیکے میں تین سو ملازمین کوصرف تین ماہ کی تنخواہیں دیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آپریٹرزوں کو 36 ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں۔ ان میں 18 ماہ کی تنخواہیں محکمہ پبلک ہیلتھ نے دینی ہیں۔ احتجاج کیا تو چیف انجینیئر سکندر میمن نے انہیں دھمکیاں دیں اور ان پر کئی مقدمات درج کرا دیے گئے۔
اس نمائندے نے اوسلو کمپنی کے معاملے پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ایکسیئن معراج النبی رافع اور چیف انجینئر حیدرآباد سے موقف لینے کی بارہا کوشش کی مگر انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھرپارکر عبدالحمید حمید مغل بتاتے ہیں کہ انہوں نے صوبائی حکومت کو اس بارے میں لکھا ہے۔ امید ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور تمام آر او پلانٹ بھی فعال ہو جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 10 اکتوبر 2023