عمرکوٹ: زیر زمین پانی کڑوا، فلٹریشن پلانٹ چھ ماہ سے بند، شہری کہاں سے پانی پیتے ہیں؟

postImg

الیاس تھری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

عمرکوٹ: زیر زمین پانی کڑوا، فلٹریشن پلانٹ چھ ماہ سے بند، شہری کہاں سے پانی پیتے ہیں؟

الیاس تھری

loop

انگریزی میں پڑھیں

دیوان مالھی عمرکوٹ شہر کے علاقے چندی رام نگر کے رہائشی ہیں۔ ان کا گھر سرکاری واٹر فلٹریشن پلانٹ سے نصف کلومیٹر پر ہے لیکن انہیں پینے کے لیے صاف پانی بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے گھر میں واٹر سپلائی کا کنکشن لگایا ہوا ہے اور ہر ماہ میونسپل کمیٹی کا سو روپے کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں لیکن پانی مہینے میں ایک یا دو بار آتا ہے اور وہ بھی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسے صرف برتن اور کپڑے دھونے کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر عمرکوٹ کی میونسپل کمیٹی میں ایک لاکھ 44 ہزار سے زائد افراد رہتے ہیں۔ مگر شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے والا واحد فلٹریشن پلانٹ چھ ماہ سے بند پڑا ہے۔ شہریوں کے کبھی کبھار تالابوں سے نہر کا پانی فراہم کر دیا جاتا ہے۔

یہاں صرف دیوان مالھی ہی نہیں پورا شہر ہی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ چھور روڈ، کنری روڈ، چھاچھرو روڈ اور رتنور روڈ پر واقع راہموں کالونی، مینگھواڑ کالونی، جیون نگر، ہاری کیمپ سمیت 20 کے قریب علاقے ویسے ہی پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔

میونسپل کمیٹی عمرکوٹ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت فلٹر پلانٹ پر بیلداروں سمیت 22 ملازم کام کر رہے ہیں۔

برھان کنبھر پیپلز پارٹی کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میونسپل کمیٹی اور گردو نواح کی آبادی دو لاکھ کے قریب بنتی ہے جبکہ فلٹریشن پلانٹ چھوٹا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے شہر میں ٹینکر مافیا کا راج قائم ہو چکا ہے۔

میونسپل کمیٹی سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق شہر عمرکوٹ میں واٹر سپلائی کے سات ہزار کنکشن ہیں اور ہر صارف سے ماہانہ 100 روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔

جھامن کمار مالھی عمرکوٹ کے شوانی محلہ کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شہر میں 50 سے زائد نجی واٹر ٹینکر ہیں جو مختلف کالونیوں اور دیہات میں پانچ سے چھ ہزار روپے فی ٹینکر پانی دیتے ہیں۔ شہر میں چنگچی رکشوں اور گدھا گاڑیوں پر پانی لایا جاتا ہے۔

 مگر یہ نہر سے لایا جانے والا پانی بھی صاف نہیں کیا جاتا۔ اسے پینے سےعمرکوٹ اور گرد و نواح میں پیٹ کے امراض اور گیسٹرو میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سول ہسپتال عمرکوٹ کے تین وارڈز (مرد، خواتیں اور بچوں کے وارڈز) سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023ء کے ابتدائی 20 دنوں میں یہاں گیسٹرو اور ڈائریا کے 573 مریض داخل ہوئے جن میں 70 مرد، 93 خواتین اور 410 بچے شامل تھے۔

ریکارڈ کے مطابق گذشتہ سال کے انہیں 20 دنوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کے عورتوں، بچوں سمیت 181 مریض سول ہسپتال عمرکوٹ میں داخل ہوئے تھے۔

ڈاکٹر اللہ داد راٹھور سابقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر عمرکوٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمرکوٹ شہر اور دیہات میں پیٹ کی بیماریوں کی اہم وجہ نہری پانی ہے۔ جو یہاں پہنچتے پہنچتے آلودہ ہو چکا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیسٹرو اور پیٹ کے امراض کی 50 فیصد وجہ خراب پانی اور 50 فیصد دیگر فیکٹر یعنی مختلف وائرس ہیں۔ لوگوں کی مجبوری یہ ہے کہ شہر میں زیر زمین پانی کڑوا اور پینے کے قابل نہیں ہے۔

ڈاکٹر وشنداس سوٹھڑ، سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام میں سوائلسائنسز ڈیپارٹمنٹ کے اسٹنٹ پروفیسر اور سب کیمپس عمرکوٹ میں تعینات ہیں۔ انہوں نے یہاں نہری اور زیر زمیں پانی کی تجزیاتی رپورٹ تیار کی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ شہر کی واٹر سپلائی یعنی نہری پانی کے 25 اور مختلف مقامات سے زیر زمین پانی کے 85 سیمپل (نمونے) حاصل کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق عمرکوٹ میں نہری اور زیر زمین پانی کی کوالٹی مجموعی طور پر تسلی بخش نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بیشتر مقامات پرنہری پانی کا ٹی ڈی ایس لیول 50 ملی گرام فی لیٹر سے کم ہے اور یہ پانی پینے کے لیے قطعی ٹھیک نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں زیر زمیں پانی کا پی ایچ لیول 8 ہے۔ جبکہ آدھے نمونوں میں ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزالوڈ سالڈز ) دو ہزار سے اوپر ہے اور اس میں آرسینک کی مقدار بھی زیادہ ہے۔

"یہ پانی پینے تو کیا زرعی استعمال کے بھی لائق نہیں"۔

عمر کوٹ کا واٹر فلٹریشن پلانٹ اب میونسپل کمیٹی چلا رہی ہے۔ یہاں واٹر سپلائی انچارج اشوک کمار مالھی بتاتے ہیں کہ کوٹ واہ اور تھر واہ سے پائپ لائن کے ذریعے پانی لا کر تالابوں میں سٹور کیا جاتا ہے اور یہاں سے شہر کو سپلائی ہوتا ہے۔

 وہ تصدیق کرتے ہیں کہ پلانٹ چھ ماہ سے بند ہونے کی وجہ سے فلٹرشدہ پانی تو شہریوں کو نہیں مل رہا۔ البتہ نہروں سے آنے والا دریائے سندھ کا پانی جو نسبتاً بہتر اور میٹھا ہوتا ہے وہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

سید حیدر شاہ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں سینیئر سب انجینئر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عمر کوٹ کے فلٹریشن پلانٹ کا میگا منصوبہ 2006ء میں شروع ہوا اور 2014ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس پر 65 کروڑ روپے لاگت آئی اور اس کا مقصد عمرکوٹ کی ایک لاکھ آبادی کو روزانہ 34 لاکھ گیلن فلٹر شدہ پانی فراہم کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی: "فنڈز ملتے ہی تمام واٹر فلٹریشن پلانٹس کو چلا دیا جائے گا، تب تک ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کریں"

ان کا دعویٰ ہےکہ فلٹریشن پلانٹ کی میعاد 2020ء تک تھی مگر یہ تین سال بعد بھی کام کر رہا ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی کے نو منتخب چیئرمین میونسپل کمیٹی خالد سراج سومرو اس پلانٹ کی خرابی کا ذمہ دار پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کو قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ نے فلٹریشن پلانٹ کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد میونسپل کمیٹی کے حوالے کیا ہے۔

"محکمے کی لاپروائی کے باعث پلانٹ کا اہم پمپ خراب ہوا۔ اس کی کلورینیشنیں مشین، بیک واش مشین، 50 ہارس پاور کی موٹر اور 400 کے وی کا جنریٹر بھی تباہ کر کے کمیٹی کے حوالے کر دیے گئے ہیں"۔

  خالد سراج کا کہنا تھا کہ اب فلٹریشن پلانٹ کے لیے تمام مشینری میونسپل کمیٹی مہیا کرے گی جس کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ شہری آبادی کے ہر ایک وارڈ میں نئے واٹر سپلائی کنکشن جون تک لگا دیے جائیں گے اور پانی کی فراہمی بھی شروع کر دی جائے گی۔

سب انجینئر پبلک ہیلتھ کہتےہیں کہ پی پی حکومت نے کچھ عرصہ قبل عمرکوٹ میں صاف پانی کی گنجائش بڑھانے کے لیے ایک منصوبے کی منظور دی تھی۔

نئی سکیم کے تحت سات میل نہر کے ریگولیٹر کے قریب پانی کے لیے دو بڑے تالاب بنائے جانے ہیں جن کے لیے 29 ایکڑ اراضی درکار ہے۔ یہ معاملہ پبلک ہیلتھ اور محکمہ ریونیو کے درمیان آخری مراحل میں تھا کہ نگران سیٹ اپ آ گیا اور کام شروع ہونے میں تاخیر ہو گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ ایک ارب سات کروڑ 80 لاکھ روپے لگایا گیا تھا اور حکومت نے پہلے مرحلے میں 20 کروڑ کی منظوری دی تھی۔ اندازے کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل سے شہر اور نواح کی دو لاکھ 42 ہزار آبادی کو صاف پانی میسر  آئے گا۔

تاریخ اشاعت 10 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الیاس تھری کا تعلق ضلع عمرکوٹ سندھ سے ہے۔ وہ گذشتہ بیس سالوں سے زائد عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں۔ تعلیم، سیاست، ادب، ثقافت و سیاحت، زراعت، پانی، جنگلی جیوت اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.