30 اگست کا دن محنت کش صدر عباس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ اس شام ان کی سات سالہ بیٹی کنیز فاطمہ اور چار سالہ بیٹا مقداد حسین گھر کے قریب ایک جھیل میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔
ضلع ننکانہ صاحب کی تحصیل شاہ کوٹ کے محلہ پہاڑی، وارڈ 15 میں رہنے والے صدر عباس کے بقول اس شام ان کی بیٹی اور بیٹا قرآن پاک پڑھنے کے لیے جا رہے تھے کہ بیٹے کا جوتا کتے نے منہ میں دبوچ لیا اور بھاگ کر جھیل میں چلا گیا۔ معصوم بیٹا بھی ناسمجھی میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے جھیل میں اتر گیا اور پانی میں ڈوبنے لگا۔ بہن نے بھائی کو بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی اور دونوں ڈوب گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ بچوں کی چیخیں سن کر ان کی والدہ عظمیٰ بی بی اور دس سال بھائی عمار یاسر بھی جھیل میں اتر گئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ بیوی اور بڑا بیٹا بھی تقریباً ڈوبنے ہی والے تھے کہ اہل علاقہ نے انہیں بچا لیا۔
صدر عباس سائیکل پر گاؤں گاؤں دال پوڑا اور پاپڑ بیچتے ہیں۔ 29 اگست کو وہ سامان خریدنے کے لیے سائیکل پر ہی 50 کلومیٹر دور شیخوپورہ گئے ہوئے تھے۔ ان کے پاس موبائل فون بھی نہیں ہے، اس لیے انہیں بچوں کے جان بحق ہونے کی خبر تین گھنٹے بعد اس وقت ملی جب گاؤں کے دو نوجوان موٹر سائیکل پر ڈھونڈتے ہوئے انہیں اڈہ مانانوالہ کے مقام پر ملے۔
ایک کلومیٹر طویل اور نصف کلومیٹر عریض اس جھیل کے گرد حفاظتی باڑ ہے اور نہ ہی انسانوں اور جانوروں کو اس سے دور رکھنے کے کوئی اور انتظامات دکھائی دیتے ہیں۔ جھیل کے قرب و جوار میں لگ بھگ دو سو خاندان آباد ہیں جن کی زندگیاں مسلسل خطرے میں ہیں۔ صدر عباس کا گھر جھیل سے چند ہی فرلانگ دور ہے۔
صدر عباس کا خیال ہے کہ یہ جھیل ماضی میں یہاں قریب پہاڑی کو بارودی مواد سے توڑنے کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی جس کا پانی بھی بارود کی وجہ سے انتہائی زہریلا ہے۔
ان کو یہ بھی لگتا ہے کہ ان کے بچے ڈوبنے سے نہیں بلکہ پانی کے زہریلے پن کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔
پچھلے چند سال میں صدر عباس کے ماموں سفیر حسین سمیت تقریباً 20 افراد اس جھیل میں ڈوب کر جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں کی ہے۔ اسی لیے اب اسے "خونی جھیل" کہا جاتا ہے۔
مقامی صحافی عاشق حسین بھٹی تصدیق کرتے ہیں کہ اس جھیل میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہی ہو گی۔ ایسے چند واقعات میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے حوالے سے انھوں نے خبریں بھی شائع کرائی ہیں۔
عاشق کا کہنا ہے کہ اتنے زیادہ حادثات کے بعد اس علاقے میں والدین نے اپنے بچوں کا گھر سے باہر نکل کر کھیلنا محدود کر رکھا ہے۔ اہل علاقہ نے جھیل پر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے خلاف کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا مگر ضلعی انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں پر اس کا کوٸی اثر نہیں ہوا۔
ریسکیو 1122 کے میڈیا فوکل پرسن علی اکبر بتاتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کو جھیل سے نکالنے کے علاوہ ان کے ادارے نے اس جگہ کم از کم نصف درجن لوگوں کی زندگیاں بھی بجائی ہیں۔
یہ جھیل ایک پہاڑی سے متصل ہے۔ پنجاب مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائیٹ کے مطابق یہ پنجاب میں واقع کرانہ پہاڑی چٹانوں کا ایک حصہ ہے جن سے حاصل ہونے والے پتھر تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کرانہ پہاڑیاں سرگودھا شہر سے 12 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیں اور اسی ساخت کی چٹانیں شاہ کوٹ، سانگلہ ہل( ضلع ننکانہ) اور ضلع چنیوٹ میں بھی بعض مقام پر موجود ہیں۔
اس محکمے کے اہلکار تنویر احمد کے مطابق کرانہ پہاڑیاں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو زمین کے اوپر ہوتی ہیں ان کو کرانہ ہل اور وہ جو زیر زمین ہوتی ہیں ان کو شیلڈ راکس کہا جاتا ہے۔
اس ڈیپارٹمنٹ کے سرگودھا ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاروق سلطان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی قدرتی جھیل نہیں بلکہ کھدائی کے بعد بنی ہے اور اس میں بارش اور سیوریج کا پانی جمع رہتا ہے۔
شاہ کوٹ میں واقع اس پہاڑی کو زیر زمین ہی نہیں بلکہ سطح زمین سے اوپر بھی چاروں اطراف سے توڑا جاچکا ہے اور جو بچا کچھا حصہ ہے وہ بھی صرف اس لیے محفوظ ہے کیوں کہ اس کے اوپر معروف صوفی بزرگ سید مراد علی شاہ المعروف بابا نو لکھ ہزاری کی ”منظر کرامت پنجہ شیر بکری“ موجود ہے۔۔
دربار کے گدی نشین صاحبزادہ علی رضا شاہ مجاور بتاتے ہیں کہ 60ء کی دہاٸی کے بعد اس پہاڑی سے سڑکوں کی تعمیر کے لیے پتھر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا جو 2007ء میں اس وقت تک جاری رہا جب پہاڑی کا صرف وہ حصہ بچ گیا جہاں پر اب دربار ہے۔
ان کے بقول پتھر نکالنے کے لیے بارودی مواد کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی دوران پہاڑی کے اس حصے کو جہاں پر جھیل ہے اتنا گہرا کھودا گیا کہ زیر زمین پانی نکل آیا۔ اس جھیل میں زیر زمین پانی کے علاوہ علاقے کا گندا پانی بھی شامل ہو رہا ہے۔
ہر سال 23 مارچ کو بابا نولکھ ہزاری کے عرس کی تقریبات میں ملک بھر سے ہزاروں مریدین اور عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔ ان دنوں میں وقتی طور پر پولیس سیکیورٹی بڑھا دی جاتی ہے تاکہ جھیل کے قریب کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آئے لیکن مستقل بنیادوں پر اس کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔
مقامی سماجی تنظیم شاہ کوٹ کی آواز کے سربراہ شوکت علی شوکت کا بھی یہی ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پتھر نکالنے کے لالچ میں ٹھیکیداروں نے 100 فٹ سے بھی زیادہ کھداٸی کر دی جس کی وجہ سے زیرزمین پانی اوپر آ گیا اور جھیل وجود میں آ گٸی۔
ان کا کہنا ہے کہ جو اس وقت پتھر توڑنے کے لیے بارود استعمال کیا جا رہا تھا اس کے اثرات ابھی تک علاقے کے لوگ بھگت رہے ہیں کیوں کہ یہاں ملحقہ آبادیوں کا پانی بھی مضر صحت ہو چکا ہے۔ تقریبا دس سال قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جھیل سے چند میٹرز کے فاصلے پر پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے خوبصورت فیملی پارک کا افتتاح کیا تھا مگر اس جھیل اور اس میں ہونے والے حادثات کی وجہ سے آج یہ پارک ویران ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی میں نمل ڈیم کی جھیل سوکھنے لگی، زرخیز زمینیں بنجر ہونے کا خدشہ
چیف آفیسر میونسپل کمیٹی شاہ کوٹ ارشد غفور بھی اس جھیل میں ہونے والے جانی نقصان کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق ان کا ادارہ اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ پہاڑی محکمہ معدنیات کے زیر انتظام تھی جس نے یہاں سے پتھر نکالنے کا خود ٹھیکہ دیا۔ حفاظتی باڑ سمیت دیگر حفاظتی اقدامات پر ایک خطیر رقم خرچ ہونی ہے اور میونسپل کمیٹی کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں اور محکمہ معدنیات کو یہ اقدامات اٹھانے چاہیئں۔
لیکن مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ(محکمہ معدنیات) کا کوئی بھی عہدے دار اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، ان کے لاہور آفس میں فون کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے معلومات سرگودھا ریجن سے مل سکتی ہیں لیکن سرگودھا ریجن فون کیا گیا تو ان کا موقف تھا کہ یہ لاہور ریجن کے ڈیپارٹمنٹ کے زیر کنٹرول ہے۔
صدر حسین کہتے ہیں ان کی تو یہی خواہش ہے کہ اس جھیل کو مٹی ڈال کر ختم کر دینا چاہیے لیکن بیشتر اہل علاقہ کے خیال میں یہاں اگر حفاظتی باڑ لگانے کے ساتھ دیگر حفاظتی انتظامات کرکے اس جھیل میں دو کشتیوں کا بندوبست کردیا جائے تو یہ اہم سیاحتی مرکز بھی بن سکتا ہے، کیوں کہ اس کے قریب ایک پارک پہلے سے ہی موجود ہے۔
تاریخ اشاعت 27 اکتوبر 2023