میاں شبیر احمد کا خاندان تین نسلوں سے ایک ایسی زمین کی ملکیت کا دعوے دار ہے جس پر نہ صرف رہائشی علاقے بسے ہوئے ہیں بلکہ لاہور کا اولین ایئرپورٹ بھی اسی پر بنا ہوا ہے۔
ان کا تعلق لاہور کے ذیل دار خاندان سے ہے جو پاکستان بننے سے پہلے شہر کے جنوب میں واقع دیہات میں وسیع زرعی اراضی کا مالک تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے برطانوی ہند کی حکومت نے ان کے خاندان سے تقریباً نو سو کنال زمین کرائے پر لی تا کہ اس پر والٹن ایئرپورٹ بنایا جا سکے۔ لیکن، ان کے مطابق، بعد میں اس زمین کو "دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا"۔
ان کے تایا میاں اشفاق احمد نے پہلی بار 1976 میں لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ (جسے بعد میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تبدیل کر دیا گیا) کو فریق بنایا اور کہا کہ ان سے لی گئی زمین انہیں واپس کی جائے۔ ان کی وفات کے بعد میاں شبیر احمد کے والد میاں بشیر احمد سالوں اس پٹیشن کی پیروی کرتے رہے۔
اس پٹیشن پر چلنے والا مقدمہ اتنا پرانا ہو گیا ہے کہ اس میں پیش ہونے والے وکلا یا تو ریٹائر ہو چکے ہیں یا ان کی وفات ہو چکی ہے۔ خود میاں شبیر احمد 80 سال کے ہو چکے ہیں۔
لیکن اب جبکہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پہنچنے کے بعد دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ کے سامنے زیرِ سماعت ہے تو پنجاب حکومت نے والٹن ائرپورٹ کی جگہ سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ نامی تعمیراتی منصوبے کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت تجارتی اور کاروباری استعمال کے لئے کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔
اس منصوبے پر عمل درآمد اور اس کی نگرانی کے لئے صوبائی حکومت نے لاہور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے جس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمران امین ہیں جو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بھی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ اس سے پہلے وہ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو وفاق کی ملکیت میں لینے کے لئے بنائی گئی پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پہلے عبوری چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا سنگِ بنیاد وزیر اعظم عمران خان نے 26 فروری 2021 کو رکھا- ٹھیک تین ماہ بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اعلان کیا کہ اب اس جگہ کو ایئرپورٹ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا حتیٰ کہ اس پر قائم فلائنگ کلب بھی اسے تربیتی پروازوں کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔
اس کے کچھ ہی ہفتے بعد اگست کی تین تاریخ کو پنجاب کے محکمہ آبادکاری نے ایک سرکاری اعلامیے میں کہا کہ "گورنر پنجاب نے والٹن ایئرپورٹ/فلائنگ کلب کی 70 ایکڑ زمین مشروط طور پر ریاست کو منتقل کرنے کا حکم دیا ہے"۔ اسی محکمے نے 23 اگست کو ایک اور اعلامیہ جاری کیا جس میں گورنر پنجاب نے کہا کہ سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ سے ہونے والی آمدنی کا 42.6 فیصد سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اور 57.4 فیصد پنجاب حکومت کو جائے گا۔
لیکن میاں شبیر احمد کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ غیر قانونی ہے کیونکہ والٹن ایئرپورٹ کی زمین متنازعہ ہے۔ ان کے مطابق اس پر اس وقت تک کوئی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں جب تک اس کی ملکیت کا حتمی عدالتی فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
ایئرپورٹ سے رن وے تک
والٹن ایئرپورٹ کی زمین ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت فوجی مقاصد کے لیے کرائے پر لی گئی لیکن 1944 میں حکومت نے اس پر ایک رہائشی منصوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ پاکستان بننے کے بعد 1953 میں لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ نے اس منصوبے کو گلبرگ تھری کا نام دیا۔
تاہم 27 جنوری 1960 کو ایک حکومتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ یہ زمین والٹن ایئرپورٹ کو توسیع دینے کے لیے حکومتی ملکیت میں لی جا رہی ہے۔ 30 جنوری 1960 کو ایک تیسرا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کا مقصد دسمبر اعلامیے کو منسوخ کرنا تھا۔ اس کے مطابق لینڈ ریکوزیشن ایکٹ مجریہ 1958 کے تحت اچھرہ، بھابھڑا اور گورو مانگٹ نامی دیہات میں واقع بالترتیب ایک ہزار چار سو 37 کنال 12 مرلہ، ایک ہزار 26 کنال 11 مرلہ اور دو سو 59 کنال 9 مرلہ زمین سرکاری ملکیت میں لے کر سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دے دی گئی تا کہ اس پر لاہور کا بین الاقوامی ائرپورٹ بنایا جا سکے۔
اس زمین کی ملکیت کے دعوے داروں کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل میاں عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے زمین حاصل کرنے کا یہ طریقہِ کار درست نہیں تھا کیونکہ کرائے پر لی گئی زمین صرف دو صورتوں میں ہی سرکاری ملکیت میں لی جا سکتی ہے۔ پہلی یہ کہ اس پر بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو چکی ہو اور حکومت اس سرمایہ کاری کو محفوظ کرنا چاہتی ہو اور دوسری یہ زمین کی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہو کہ اس کی بحالی پر آنے والا خرچہ اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔
اس صورتِ حال میں مزید پیچیدگی 1960 میں پیدا ہوئی جب نیا ایئرپورٹ کسی اور جگہ بنا دیا گیا اور والٹن ایئرپورٹ کو پائلٹوں کی تربیت، فلائنگ کلبوں اور جنگی حالات میں استعمال کے لیے مختص کر دیا گیا۔ کچھ سال بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس ایئرپورٹ کے ایک بڑے حصے کو 99 سال کی لیز پر فضائیہ اور فوج کو دے دیا تا کہ وہ اس پر رہائشی منصوبے بنا سکیں۔
میاں عتیق الرحمان حصولِ زمین کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے تحت سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہرگز یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ اس زمین کو خود ہی دوسرے اداروں کو لیز پر دے سکے کیونکہ، ان کے مطابق، اس قانون کا سیکشن 14 کہتا ہے کہ اگر مفاد عامہ کے لیے حاصل کی گئی زمین اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو رہی جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا ہو تو حکومت یہ زمین اس کے مالکان کو لوٹانے کی پابند ہوتی ہے۔
مئی 1998 میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاہور فواد حسن فواد بھی کم و بیش اسی نتیجے پر پہنچے۔
اُس سال والٹن ایئرپورٹ کی زمین کے حوالے سے مرتب کی گئی ایک تفصیلی سرکاری رپورٹ میں ان کا کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس اب صرف 147 ایکڑ (1176 کنال) اراضی رہ گئی ہے جس میں کچھ ایسی بھی ہے جو اسے دی ہی نہیں گئی تھی مگر اس نے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس رپورٹ کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے حکم دیا کہ یہ زمین سول ایوی ایشن اتھارٹی سے واپس لے کر اسے دوبارہ لیز پر دینے کا عمل شروع کیا جائے۔
اسی موقف کی تصدیق 2008 میں لکھی گئی ایک اور سرکاری رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جسے اس وقت کے محکمہ آباد کاری پنجاب کے سیکرٹری نجم سعید نے لکھا تھا۔ یہ نشان دہی کرنے کے بعد کہ والٹن ایئرپورٹ کی زمین میں سے 50 ایکڑ کے قریب رقبے پر فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں جبکہ اس کے ایک بڑے حصے پر دیگر سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے، انہوں نے لکھا کہ یہ زمین اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا رہی جس کے لیے اسے سرکاری ملکیت میں لیا گیا تھا۔ اس لیے، ان کے مطابق، سول ایوی ایشن اتھارٹی کو چاہیے تھا کہ ایئرپورٹ کی دوسری جگہ تعمیر کے فوراً بعد ہی وہ اسے پنجاب حکومت کے حوالے کر دیتی۔
ان دونوں سرکاری رپورٹوں کا ذکر کرتے ہوئے میاں عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایسا نہ کرنے کے نتیجے میں اس زمین کے ایک بڑے حصے پر نہ صرف نِجی اور سرکاری اداروں نے رہائشی منصوبے بنا لیے ہیں بلکہ گلبرگ مین بلیوارڈ نامی شاہراہ کا مغربی حصہ اور منی گولف کلب نامی پارک بھی اسی پر بنا دیے گئے۔
ان تمام تعمیرات کی وجہ سے حکومت کے پاس اس وقت صرف 122 ایکڑ (976 کنال) زمین بچی ہے جس میں سے 52 ایکڑ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قبضے میں اور 70 ایکڑ پنجاب حکومت کے قبضے میں ہیں۔
اب اس زمین پر آبادی میں گھرا ایک تنگ رن وے اور چند اجڑی ہوئی نرسریاں قائم ہیں۔
زمین کا اصل مالک کون؟
حکومتِ پنجاب کے مختلف محکموں کے نمائندے 3 نومبر 2020 کو یہ طے کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے کہ آیا والٹن ایئرپورٹ سے محض ایک کلومیٹر شمال مغرب میں فیروز پور روڈ پر ایک ایسی کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کی منظوری دی جا سکتی ہے جو اس ایئرپورٹ سے اڑنے والے جہازوں کے عین رستے میں ہو۔ میاں عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں تین فیصلے کیے گئے: 1) والٹن سے جہازوں کی پرواز شہری آبادی کے لئے بڑا خطرہ ہے اس لیے اس ختم کرنا ہو گا، 2) اس کی جگہ ایک تجارتی مرکز بنایا جائے گا، اور 3) ایئرپورٹ کی اراضی اس کے اصل مالکان کو واپس کر کے دوبارہ لیز پر لی جائے گی۔
ان فیصلوں کے بارے میں پتہ چلنے پر زمین کی ملکیت کے دعوے داروں نے اس اجلاس کے دوران ہونے والی گفتگو کے تصدیق شدہ مندرجات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں میں درخواستیں دائر کیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اجلاس کے شرکا نے زمین پر ان کا حقِ ملکیت تسلیم کر لیا ہے۔ میاں عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ ان کے موکلوں نے ان مندرجات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے معلومات کے حق کے قانون کے تحت بھی درخواستیں دیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
اس ناکامی کے بعد ان دعوے داروں نے 2021 کے شروع میں لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ تصدیق شدہ مندرجات انہیں فراہم کرنے کا حکم جاری کرے اور حکومت کو پابند کرے کہ وہ زمین کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ان کا موقف سنے گی۔ اس درخواست کی سماعت کے بعد جسٹس شاہد کریم نے 20 مئی 2021 کو پنجاب حکومت کے محکمہ مالیات کو حکم دیا کہ وہ 30 دن کے اندر دعوے داروں کا موقف سنے۔
لیکن میاں عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے باوجود زمین مالکان کا موقف سنے بغیر ہی حکومت پنجاب نے ایئرپورٹ کی زمین سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی کے حوالے کر دی۔
جون 2021 میں اس اتھارٹی نے اس زمین کو نیلام کرنے کی پہلی کوشش کی جس کے تحت اخبارات میں اشتہار دیے بغیر چند مخصوص کمپنیوں کو اس عمل میں مدعو کیا گیا۔ لیکن نیوز میڈیا میں اس طریقہِ کار کے بارے میں خبریں نشر ہونے کے بعد اس نیلامی کو منسوخ کر دیا گیا۔
ایک ماہ بعد اتھارٹی نے اخبارات میں اشتہار دیا کہ والٹن ایئرپورٹ کی زمین کی نیلامی 4 اگست کو کی جائے گی لیکن اس دوران متعدد افراد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں کہ نیلامی کا عمل غیر قانونی ہے لہٰذا اسے روکا جائے۔ ان کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ اس میں شمولیت کے لئے درخواستیں صرف مخصوص افراد اور کمپنیوں سے لی گئی ہیں۔
تیسری دفعہ 22 اگست کو اخبارات میں اشتہار دیا گیا کہ ایئرپورٹ کی زمین میں سے پونے آٹھ ایکڑ رقبہ 7 ستمبر کو نیلام کیا جائے گا۔ یہ نیلامی بالآخر کامیاب رہی اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی نے پانچ تجارتی پلاٹ 21 ارب 59 کروڑ روپے میں چار مختلف کاروباری اداروں کو 90 سالہ لیز پر دے دیے۔
اس بولی میں 13 پاکستانی اور غیر ملکی کمپنیوں نے شرکت کی جن میں سے نووا ڈویلپرز اور ترکی کی کمپنی بائرکتار انسات پر مشتمل کنسورشیم نے 18 کنال کا ایک پلاٹ سات ارب 63 کروڑ روپے میں حاصل کیا۔ 11 کنال پر مشتمل دوسرا پلاٹ اسلام آباد کی کمپنی اے ایس ای حسنات جوائنٹ وینچر نے چار ارب 22 کروڑ روپے میں لیا۔ تیسرا پلاٹ دو ارب 84 کروڑ روپے کے عوض پشاور کے عباس خان گروپ کو ملا جو امریکہ میں الیکٹرانک سگریٹ کا کاروبار کرتا ہے۔ اس پلاٹ کا رقبہ 10 کنال ہے۔ چوتھا پلاٹ، جس کا رقبہ 13 کنال ہے، عارف حبیب گروپ کو چار ارب 6 کروڑ 90 لاکھ روپے میں دیا گیا جبکہ پانچواں پلاٹ بھی اسی گروپ نے دو ارب 84 کروڑ روپے میں حاصل کیا۔
اس بولی کے مکمل ہونے کے بعد 9 ستمبر 2021 کو محمد اعظم نامی ایک شہری نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی کہ پنجاب حکومت نے والٹن ایئرپورٹ کی زمین پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا کہ سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا منصوبہ ماحولیاتی تحفظ کے محکمے سے اجازت لیے بغیر شروع کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں وجوہات کی بنا پر انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ نیلام شدہ پلاٹوں کی منتقلی روکی جائے۔
لیکن ان کی درخواست کی سماعت کرنے والے جج، جسٹس جواد حسن نے ان کی استدعا رد کر دی۔
معاشی اور مالی ترقی کا خواب
سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ والٹن ایئرپورٹ کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پہلا سرکاری منصوبہ نہیں۔ فواد حسن فواد کہتے ہیں کہ1997 میں اُس وقت کی صوبائی حکومت نے لاہور میں مختلف معاشی مراکز قائم کرنے کے لیے کئی جگہوں کا انتخاب کیا تھا جن میں یہ ایئرپورٹ بھی شامل تھا۔ لیکن ان کا کہنا ہے اس کی زمین کے متنازعہ ہونے کی وجہ سے بعد میں یہ منصوبہ ایک دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
اُن کے مطابق اُس منصوبے کے تحت والٹن میں لندن فنانشل ڈسٹرکٹ کی طرز پر تمام بنکوں اور مالیاتی اداروں کے مرکزی دفاتر بنائے جانے تھے تا کہ انہیں یک جا کر کے تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کے برعکس، ان کی نظر میں، موجودہ سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ محض ایک تعمیراتی منصوبہ ہے جس کا بنیادی مقصد دکانیں اور دفاتر بنا کر فروخت کرنا ہے۔
لاہور میں مقیم ماہر عمرانیات و شہری امور عمیر جاوید کہتے ہیں کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے اسی وقت فائدہ مند ہوتے ہیں جب معیشت کے دوسرے شعبے بھی ترقی کر رہے ہوں اور دفتروں، دکانوں اور کاروباری مراکز کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہو۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں ایسی معاشی صورتِ حال نہیں بلکہ لاہور میں ایسی کئی عمارتیں پہلے ہی خالی پڑی ہیں جو پچھلے 10 سال میں تعمیر کی گئی ہیں۔
عمیر جاوید وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے سے بھی متفق نہیں کہ سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کی تعمیر سے حکومت کو زمین کی نیلامی اور مختلف ٹیکسوں کی مد میں چھ ہزار ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔ ان کے خیال میں اس دعوےکی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی ہے کہ یہ منصوبہ ایک ایسی جگہ بنایا جا رہا ہے جہاں دفتر یا دکان بنانے میں ہر کسی کو دلچسپی ہو گی لیکن، ان کے مطابق، اس دلچسپی کی اصل وجہ اس منصوبے کا مرکزی محلِ وقوع نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے دیا گیا وہ عارضی استثنا ہے جس کی وجہ سے زمین کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ان کا ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جا رہا۔
تاریخ اشاعت 30 ستمبر 2021