'جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں' کیا خصوصی افراد کو کبھی حق ملے گا؟

postImg

ملک اکمل

postImg

'جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں' کیا خصوصی افراد کو کبھی حق ملے گا؟

ملک اکمل

چھبیس سالہ عظیم اعجاز جھنگ کی ذوالفقار کالونی کے رہائشی ہیں جو بچپن میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے یہیں سے بی ایس کیا اور پھر چھ سال مقامی کالج میں پڑھاتے رہے مگر آج کل بیروزگار ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ گھر سے ٹرائی سائیکل پر کالج پہنچتے تھے لیکن کلاس روم میں جانے کے لیے رینگ کے سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں یا پھر دوست انہیں مریض کی طرح اٹھا کر اوپر لے جاتے تھے۔ "وہاں مجھے جو تکلیف اور خجالت محسوس ہوتی تھی اسے صرف میں ہی جانتا ہوں۔"

انہیں شکوہ ہے کہ معذور افراد کو کہا تو 'سپیشل پرسنز' جاتا ہے لیکن شہر کے کسی دفتر یا تعلیمی ادارے میں ان کے جانے کے لیے کوئی ریمپ نہیں ہے اور نہ ہی وہیل چیئر کا راستہ ہے۔ ہر جگہ ان لوگوں کو نئی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔

"جب میں کالج میں پڑھاتا تھا تو بعض اوقات تو سارا سارا دن واش روم استعمال نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ٹوائلٹ بلاکس میں ایک بھی واش روم ایسا نہیں تھا جو ہم جیسے افراد کے لیے موزوں ہو۔"

یہ مسئلہ صرف عظیم اعجاز کا نہیں بلکہ ملک میں موجود لاکھوں خصوصی افراد کا ہے جنہیں سکولوں سے دفاتر اور بینکوں تک جانے کے لیے سہولیات میسر نہیں ہیں۔

یواین ڈی پی کی 2023ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ  کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم ایک ارب 30 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 16 فیصد بنتے ہیں۔ جبکہ ورلڈ بینک یہ تعداد ایک ارب یعنی 15 فیصد بتاتا ہے۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق  پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 32 لاکھ 86 ہزار 630 یعنی کل آبادی کا 2.48 فیصد تھی۔ لیکن 2017ء میں یہ تعداد 9 لاکھ 13 ہزار 667 بتائی گئی تھی جو 0.44 فیصد بنتے ہیں۔

معذوری کیا ہے؟

 امریکی ادارہ برائے ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن  (سی ڈی سی) کے مطابق 'معذوری' جسم یا دماغ کی ایسی حالت (خرابی) ہے جو اس خرابی میں مبتلا شخص کی کچھ سرگرمیاں محدود کرتی ہے اور ارد گرد کی دنیا سے اس کے میل جول کو زیادہ مشکل بناتی ہے۔

یہ ادارہ معذوری کی نو اقسام کی نشاندہی کرتا ہے جن میں بصارت اور نقل و حرکت سے لے کر دماغی صحت اور سماجی تعلقات تک کی مشکلات شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق معذوری  کا نتیجہ صحت کی خراب حالت، جیسے دماغی فالج، ڈاؤن سنڈروم اور ڈپریشن، ذاتی منفی رویے، ناقابل رسائی نقل و حمل(ٹرانسپورٹ اور عمارتوں میں جانے میں مشکلات) اور محدود سماجی رابطہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں سرکاری سطح پر صرف نقل و حرکت میں مشکل (جسمانی معذوری)، بصارت و سماعت اور گویائی سے کلی یا جزوی محرومی کو ہی معذوری خیال کیا جاتا ہے۔

2021ء میں محکمہ ادارہ شماریات  نے نادرا کا سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا جو بتاتا ہے کہ ملک میں رجسٹرڈ خصوصی افراد کی کل تعداد تین لاکھ 71 ہزار 833 ہے جن میں پنجاب کے ایک لاکھ 47 ہزار 539 افراد شامل ہیں۔

نادرا کے مطابق ملک میں بصارت سے محروم افراد کی تعداد 19 ہزار 643، قوت سماعت و گویائی سے محروم افرد (گونگے بہرے) کی تعداد 25 ہزار 183 اور جسمانی معذوری کا شکار خصوصی افراد دو لاکھ 95 ہزار 93 ہیں۔

ابھی تک 2023ء کی مردم شماری کے تفصیلی نتائج سامنے نہیں آئے تاہم اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے(یو این ڈی پی)  کے مطابق پاکستان میں تقریباً 6.2 فیصد لوگ کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

ادارہ شماریات کا سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈز میئرمنٹ (پی ایس ایل ایم) سروے 20-2019 بتاتا ہے کہ ملک میں معذور افراد کی شرح 3.41 فیصد ہے، مردوں میں یہ شرح 3.61 فیصد جبکہ خواتین میں 3.20 فیصد پائی گئی۔

اسی سروے کے مطابق پاکستان میں محدود صلاحیت  کے حامل افراد (Persons with Functional Limitations ) 10.69 فیصد ہیں۔ جن کی پنجاب میں شرح سب سے زیادہ 11.47 فیصد، سندھ میں 10.16 فیصد، خیبر پختونخوا میں 9.56 فیصد اور بلوچستان میں شرح نو فیصد ہے۔

اگر اس سروے رپورٹ کے حساب سے ہی دیکھا جائے تو پاکستان کی لگ بھگ 24 کروڑ 15 لاکھ آباد ی میں معذود افراد 82 لاکھ 35 ہزار سے زائد بنتے ہیں۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ  معذور افراد کو اکثر اوقات چھوٹی ملازمت، کمزور صحت، غربت، روزگار و تعلیم کے مواقع کی کمی اور کم اجرت جیسے منفی سماجی و اقتصادی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پی ایس ایل ایم سروے کے مطابق ضلع جھنگ میں معذور افراد کی شرح 4.59 ہے جو 30 لاکھ 77 ہزار 720 کی آبادی کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ 41 ہزار سے زائد بنتی ہے۔ تاہم محکمہ سوشل ویلفیئر جھنگ میں صرف 11 ہزار خصوصی افراد رجسٹرڈ ہیں۔

جھنگ کے رہائشی 32 سالہ قاسم طاہر آرچری (تیراندازی) کے خصوصی عالمی مقابلوں میں کئی بار پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ انہوں نے دو مرتبہ ورلڈ آرچری چیمپیئن شپ اور 2023ء کی ایشین پیرا گیمز میں بھی حصہ لیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی معذور افراد کے لیے ریمپ، سیڑھی یا ٹائلٹ جیسے مسائل نظر نہیں آتے لیکن پاکستان میں انہیں دفاتر سے تعلیمی اداروں تک جگہ جگہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سب سے زیادہ تکلیف لوگوں کے عجیب و غریب رویے سے ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جھنگ کے بھی سرکاری یا نجی دفتر میں ریمپ نہیں ہے نہ ہی خصوصی افراد کے لیے ٹائلٹ کی سہولت ہے۔ انٹرسٹی سفر کرنا کسی امتحان سے کم نہیں کیونکہ ٹرین سمیت ملک بھر کی ٹرانسپورٹ میں خصوصی افراد کے سوار ہونے اور اترنے کی سہولت رکھی ہی نہیں جاتی۔
قاسم طاہر کا کہنا ہے کہ ایسی حالات میں معذور لوگوں کے لیے روزگار تو دور تعلیم کا حصول بھی ممکن نظر نہیں آتا۔

گیلپ پاکستان  نے مردم شماری 2017ء کی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس وقت معذور افراد میں خواندگی کی شرح 31.6 تھی جب ملک میں مجموعی شرح خواندگی 58.04 فیصد بتائی گئی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق معذور افراد کا دوسرا بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

معذور افراد  کی بہبود کے لیے حکومت نے ملک میں پہلی بار1981ء میں 'ڈس ایبلڈ پرسنز (روزگار و بحالی) آرڈیننس' جاری کیا تھا جس کے تحت سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کے لیے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا تھا۔

اس آرڈیننس میں تعلیم اور بحالی سمیت خصوصی افراد کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا اور اس مقصد کے لیے فنڈ اور قومی کونسل قائم کرنے کے اقدامات کی نوید سنائی گئی تھی۔ تاہم اس قانون پر عمل درآمد یقینی نہیں بنایا جا سکا۔

عالمی کنونشنز، خصوصی افراد کی بڑھتی تعداد اور سول سوسائٹی کے دباؤ کے پیش نظر 2002ء میں وفاقی حکومت نے نئی پالیسی بنائی جس میں ملازمتوں کا خصوصی کوٹہ ایک یا دو فیصد بڑھانے کی سفارش کی گئی مگر معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔

2015ء میں ڈس ایبلڈ پرسنز (روزگار و بحالی) آرڈیننس 1981ء میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ تاہم 2020ء میں وفاقی حکومت نے 'رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبلٹی ایکٹ' کے نام سے ایک جامع قانون منظور کیا جس کی پیروی میں صوبوں نے بھی قوانین بنا لیے۔ تاہم ان پر عملدرآمد سے متعلق شکوے اور احتجاج ہمیشہ سامنے آتے رہے۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ 2020ء کہتی ہے کہ معذور افراد (روزگار اور بحالی) آرڈیننس میں ترامیم کی گئی تھیں لیکن پاکستان نے اس قانون کے نفاذ میں کارکردگی نہیں دکھائی۔ سرکاری اور نجی جگہوں کو معذور افراد کے لیے قابل رسائی نہیں بنایا جا سکا جس سے انہیں عوامی زندگی میں مشکلات ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق معذور خواتین کے لیے اضافی مسائل ہیں جنہیں جنسی ہراسانی، امتیازی سلوک اور جبری نس بندی و دیگر خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

2015ء میں نیب کی بھرتیوں کے دوران خصوصی افراد کو کوٹہ نہ دینے پر ایک امیدوار  پیرزادہ وقار عالم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی مگر یہ مسترد کر دی گئی جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے پیرزادہ وقار عالم بنام نیب  کیس کا دسمبر 2022ء میں فیصلہ سنایا جس کے تحت نہ صرف پٹیشنر کا موقف تسلیم کیا گیا بلکہ معذور افراد کا خصوصی کوٹہ بھی تین فیصد کنفرم قرار پایا۔

وفاقی قانون کی طرح پنجاب ایمپاورمنٹ آف پرسنز ود ڈس ایبلٹیز ایکٹ 2022ء ان افراد کے بہت سے مسائل کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن آصف منور اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ایکٹ پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے نہ تو کوئی میکنزم بنایا گیا ہے اور نہ ہی معذور افراد کی معاشی بحالی کے لیے کوئی مستحکم پلان سامنے آیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس قانون پر عمل نہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہےکہ جھنگ کی کسی سرکاری عمارت میں کوئی ریمپ یا خصوصی ٹائلٹ، بصارت سے محروم افراد کے لیے کوئی مدد گار یا گونگے بہرے افراد کے لیے کوئی اشاراتی پوسٹر موجود نہیں ہے۔ شاید فیصلہ ساز ان کے مسائل کو مسئلہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

منور عباس چھ سال سے سوشل ویلفیئر آفس جھنگ میں 'مینٹور فار بلائنڈ' ہیں۔ وہ کہتے ہیں یورپ میں گاڑیاں ڈیزائن کرتے ہوئے وہیل چیئر والے اور نابینا افراد کی ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں سوار ہونے میں آسانی ہو۔ یہاں بڑی بڑی سرکاری ونجی عمارت میں ریمپ تک نہیں رکھا جاتا۔

"زکریا یونیورسٹی میں ہمارے ایک ویل چیئر والے ساتھی مجبوری میں گھسٹ گھسٹ کر سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ جب آپ عمارت بنا ہی رہے ہیں تو وہاں ریمپ بھی بنا دیں جیسے ہسپتالوں میں بناتے ہیں۔ بس دو فٹ جگہ زیادہ لگ جائے گی."

آصف منور کا ماننا ہے کہ معذور افراد کی نقل و حرکت کا معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ جڑا ہوا ہے جبکہ ان سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برا بر ہے۔ اگر حکومت سرکاری اور کمرشل عمارتوں کے نقشے ریمپس اور خصوصی ٹائلٹس کے بغیر منظور ہی نہ کرے تو یہ مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو تمام خصوصی افراد سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں اپنی رجسٹریشن کرائیں اور نادار سے اپنا شناختی کارڈ بنوائیں۔ اس کے علاوہ سفری کارڈ کے لیے ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور بائیومیٹرک کے لیے بینکوں کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سماجی رویے بھی تبدیل کرنا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"حکومت معذور بچوں کو پڑھا لکھا دیتی تو مجھے بڑھاپے میں مزدوری نہ کرنا پڑتی"

غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹیو(سی پی ڈی آئی) کے منیجر پنجاب فیصل منظور انور بتاتے ہیں کہ ان کی تنظیم نے معذور افراد کی رسائی اور سہولیات کے حوالے سے جھنگ میں ڈپٹی کمشنر دفتر اور بنکوں سمیت 12 سرکاری اداروں کا سروے کیا۔

"کسی دفتر میں کوئی سہولت نہیں بلکہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں بھی کوئی ٹائلٹ اس قابل نہیں کہ اسے معذور افراد استعمال کر سکیں۔ ہم نے ڈپٹی کمشنر جھنگ کو خط لکھا ہے جس میں ریمپ کی پیمائش اور ٹائلٹس سے متعلق اقدامات کی درخواست کی گئی ہے۔"

یونیورسٹی آف جھنگ کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر سیدہ راہیا بتاتی ہیں کہ معذور افراد میں نہ صرف جسمانی بلکہ بہت سارے نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں خصوصا اس وقت جب یہ بڑے ہورہے ہوتے ہیں اور سکول جارہے ہوتے ہیں۔

"ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کو بار بار احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے مخلتف ہیں یعنی یا تو انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ خود کو باقی بچوں سے الگ محسوس کرنا شروع دیتے ہیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ ان رویوں سے خصوصی افراد کئی طرح کے مسائل جیسا کہ تنہائی یاڈپریشن یا پھر اینگزائٹی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر جھنگ شاہد امین بتاتے ہیں کہ 11 ہزار سے زائد رجسٹرڈ معذور افراد کو محکمہ دستیاب وسائل میں سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔  روزگار، تعلیم، صحت اور سفری سہولیات کے حصول میں ان کی بلاتفریق مدد دی جاتی ہے۔

" اپنے دفتر میں خصوصی افراد کے واش روم کے لیے ہم نے قطر چیئرئٹی کے ساتھ ایم او یو سائن کیا ہے اور ریمپ کے حوالے سے بھی کام کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں اب تمام نئی یا پرانی عمارتیں میں خصوصی افراد کی رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ معذور افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 2020ء کے ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی اور جب تک یہ عدالتیں نہیں بن پاتیں تو سیشن اور ایڈیشنل سیشن ججوں کو سپیشل کورٹس کا درجہ دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی افرد کو تضحیک کا نشانہ بنانے، ان کے حقوق غضب کرنے یا ہراساں کرنے پر ملزم کو سزا دی جائے گی جو ایک لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال قید بھی ہو سکتی ہے۔

اسسٹنٹ ڈائر یکٹر کے مطابق محکمے نے 'انیبل پورٹل فار سپیشل پرسن' شروع کیا ہے جس میں ڈونر اور معذور افراد دونوں کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے۔ ایسے افراد کو مصنوعی آلات دینے اور ملازمتوں میں تین فیصد کوٹہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 13 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ملک اکمل جھنگ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ہیں۔ کئی ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.