خیبر پختونخوا میں تاریخی ورثے کے تحفظ کا قانون کتنا مؤثر ہے؟

postImg

ذیشان اعظم کاکاخیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خیبر پختونخوا میں تاریخی ورثے کے تحفظ کا قانون کتنا مؤثر ہے؟

ذیشان اعظم کاکاخیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں تاریخی مقامات کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ تاریخی ورثے کے تحفظ کے قانون پر عملدرآمد نہ ہونے اور صوبے کے 22 اضلاع میں محکمہ آثار قدیمہ کا سٹاف موجود نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز تاریخی مقامات مسمار کرنے، نوادرات کوغیر قانونی طور پرسمگل کرنے سمیت دیگر واقعات رونما ہونا معمول بن گیا ہے۔

صوبے میں تاریخی مقامات، نوادرات، مجسمے اور دیگر تاریخی ورثے کتنے محفوظ ہیں، اس بات کا انداز محکمہ آثار قدیمہ کی دستاویزات سے لگایا جاسکتا ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ سے لی گئی دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران یعنی 2019ء سے 2023ء  کے دوران 113 تاریخی عمارتوں، سرنگوں، سٹوپاز، آثار قدیمہ، پل ،قبرستانوں، مزارات سمیت دیگر نوادرات کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

یہ نقصان پشاور، ضلع خیبر، ڈی آئی خان، سوات، نوشہرہ، چارسدہ، مردان سمیت ان اضلاع میں پہنچایا گیا ہے، جہاں پر تاریخی مقامات موجود ہے۔

ان الزامات کے تحت 100 سے زائد ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں درخواستیں جمع کی گئیں، جن میں سے 38 ملزمان کے خلاف محکمہ آرکیالوجی نے اینٹیکوٹی ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی آرز تو درج کرلی لیکن کسی پر بھی نہ تو جرمانہ عائد ہوسکا ہے اور نہ ہی کسی کو جیل بھیجا گیا ہے۔

تاریخی عمارتوں کو کمرشل پلازوں اور رہائشی عمارتوں میں تبدیل کرنے، پلوں، نوادرات اور آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے میں پشاور سرفہرست ہے جہاں اب تک 12 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ایک درجن سے زائد درخواستیں تھانوں میں جمع کی گئی ہیں۔

ان میں زیادہ تر مقدمات تاریخی عمارات کو مسمار کرنے پر بنائے گئے ہیں۔

مردان اور صوابی کا نمبر دوسرا ہے، جہاں اب تک چھ چھ افراد کے خلاف مقدمات درج ہوا ہے۔

بدھ مت کا آثار کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ضلع سوات میں اب تک صرف تین افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ مانسہرہ، چارسدہ ،ہری پور میں دو دو، ایبٹ آباد اور خیبر میں ایک ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے، لیکن کسی کو سزا اور جرمانہ کا نہیں کیا گیا ہے۔

اینٹیکوٹی ایکٹ کیا ہے؟

خیبرپختونخوا حکومت نے 2016ء میں تاریخی عمارتوں،نوادارات کو تحفظ دینے کے لیے اینٹیکوٹی ایکٹ پاس کیاتھا۔ قانون کے مطابق جہاں کہیں بھی تاریخی یا ثقافتی مقام یا اشیاء جو 100 سال یا اس سے زیادہ پرانی ہوں، انہیں قومی ورثہ قرار دیا جائے گا اور اسے نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اس ایکٹ کے مطابق کوئی بھی دروازہ، پتھر، لکڑی کا 100 سال پرانا کوئی بھی کام آثار قدیمہ میں شمار ہو گا۔

اس ایکٹ کے نفاذ کے لیے پانچ اراکین پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی جانا تھی جو تاحال قائم نہیں کی جاسکی۔ قانون کے مطابق ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ کی سربراہی میں ایک ہیرٹیج بورڈ بھی تشکیل دیا جانا تھا جس کا مقصد تاریخی عمارات، نوادرات و دیگر اشیاء کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔ اس بورڈ میں آثار قدیمہ کے ماہر، انجینئرز، تاریخ دان، فنکار اور دیگر اہم افراد شامل ہونا تھے۔ تاہم ابھی تک بورڈ بھی تشکیل نہیں دیا گیا ہے۔

اینٹیکوٹی ایکٹ کے باب نمبر تین، سیکشن 18 کے مطابق کسی بھی تاریخی مقام کو نقصان پہنچانا ،اس میں تبدیلی یا مسماری جرم تصور ہو گا جس کے ارتکاب ثابت ہونے پر پانچ سال قید اور 20 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا، یا ان میں سے کوئی ایک لگایا جائے گا۔

سوات میوزیم کے انچارج نواز الدین کے مطابق جب بھی کسی تاریخی ورثہ کو کھودا جائے، آثار قدیمہ کو نقصان پہنچایا جائے یا نوادارات سمگل کرتے ہوئے کوئی پکڑا جائے تو اس کے خلاف اینٹیکوٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاتی ہے لیکن یہ کارروائی برائے نام ہے کیونکہ اب تک نہ توکسی کو جرمانہ کیا گیا اور نہ ہی جیل بھیجا گیا ہے۔

"محکمہ وقتی طور پر اس مقام کو سیل کرتا ہے اور بعد میں اسے پلازے یا مرضی کے مکان میں تبدیل کیا جاتا ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ صرف پشاور کی بات کی جائے تو یہاں کئی ایسے واقعات رونما ہوئےجہاں تاریخی عمارت گرا کرکمرشل پلازے بنائے گئے لیکن تاحال ان کے خلاف کوئی عملی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔

اینٹیکوٹی ایکٹ پر عمل دارآمد سے متعلق محکمہ آثار قدیمہ کے ریسرچ آفیسر بخت محمد نے بتایا کہ جہاں بھی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، وہاں محکمہ آثار قدیمہ کا عملہ کارروائی کرتا ہے۔

بخت محمد کے مطابق خیبرپختونخوا کے 12 اضلاع میں آثار قدیمہ کے دفاتر، میوزیم اور متعلقہ ادارے قائم ہیں، اس لیے ان اضلاع میں اینٹیکوٹی ایکٹ کی خلاف ورزی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے اور ان اضلاع میں کوئی بھی اینٹیکوٹی ایکٹ  کی خلاف وزری باآسانی نہیں کر سکتا۔

"2022ء میں اینٹیکوٹی ایکٹ میں مزید ترامیم کر کے نوادرات کے سمگلنگ، آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے والوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا گیا ہے لیکن کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں محکمے کے دفاتر موجود نہیں اور وہاں اہلکار بھی تعینات نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں اینٹیکوٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔"

 بخت محمد کے مطابق خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ سائٹس کی تعداد آٹھ ہزار 600 سے زائد ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ سائٹس کی تعداد 20 ہزار سے بھی زیادہ ہے. ان کے مطابق 86 سائٹس کو پروٹیکٹڈ سائٹس قرار دے کر اس کو محفوظ بنایا گیا ہے۔

ماہرین کی نظر میں پشاور کی اہمیت

ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دان و مصنف ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کے مطابق، 17 ویں صدی میں تعمیر ہونے والے قلعہ بالاحصار، مسجد مہابت خان، وکٹوریائی طرز تعمیر پر بنے والا عجائب گھر، ہندوستان کے اداکار دلیپ کمار (یوسف خان مرحوم) کا گھر، راج کپور حویلی اور درجنوں دوسری عمارتیں، پل، مقبرے اور مساجد موجود ہونے کی وجہ سے پشاور کافی اہمیت کے حامل ہے۔

ہر سال ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں اور اس تاریخی شہر کی یادیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے جاتے ہیں۔

ماہر آثار قدیمہ اور پروفیسر شعبہ ارکیالوجی جامعہ پشاور ڈاکٹر ذاکر اللہ جان  کے مطابق اگر پشاور کے تاریخی عمارتوں کو اسی طرح پلازوں میں تبدیل کیا جاتا رہا تو اس کی تاریخ مٹ جائے گی۔

ان کے مطابق، پشاور میں اب تک 20 سے زائد عمارتوں کو مسمار کرکے پلازوں میں تبدیل کردیا گیا ہے لیکن محکمہ کے پاس اس کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔یہاں کئی تاریخی عمارتیں بحالی کی منتظر ہیں جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

"پشاور کے دلازاک روڑ پر واقع شاہ قطب الدین کا مزار یا شیخ ڈھیرئ ، امام الدین کا مقبرہ اور مسجد، یا سید کا باغ یہ عمارتیں فنڈز نہ ہونے کے باعث انتہائی مخدوش حالت میں ہیں اور یہ کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں۔ ان تاریخی عمارتوں کی بحالی کے لیے کسی دور میں بھی کسی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا ہے۔"

مسجد مہابت خان اور گھور کھٹری کی مخدوش صورتحال کا ذمہ دار کون؟

مغلیہ دور کی تاریخی مسجد مہابت خان کو اپنی اصلی حالت میں دوبارہ بحال کرنے کے لیے 2017ء میں شروع کیا گیا، یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے اب تک مسجد کے اطراف سے تجاوزات ختم کیے جا سکے ہیں اور نہ ہی منصوبے کو بروقت مکمل کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جون 2024ء میں مکمل ہونا والا بحالی کا منصوبہ اب 2026ء میں مکمل ہو گا یعنی یہ منصوبہ مزید دو سال کی تاخیر سے مکمل ہو گا۔

ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ عبدالصمد  نے مسجد مہابت خان کی بحالی سے متعلق بتایا کہ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، کمنشر پشاور ڈویژن، ڈی سی پشاور اور متعلقہ ادارے مسجد کی بحالی کے حوالے سے کام کی نگرانی کر رہے ہیں اور مسجد مہابت خان کے گرد تجاوزات کے خاتمے کیلیےکوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ جب تک تجاوزات کا خاتمہ نہیں ہوتا اس منصوبے پر کام مکمل کرانا ممکن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

وسے تہ تھر نہ تہ بر: محکمہ سیاحت کی توجہ کے طالب تھر پارکر کے آٹھ تاریخی مقامات

پشاور کے تاریخی علاقے گور کٹھری کو اصلی حالت میں لانے کے لیے کروڑوں روپے تو خرچ کر دیے گئے، لیکن یہاں جگہ جگہ پڑے گندگی کے ڈھیر اور ٹوٹ پھوٹ بحالی کے عکاس ہرگز نہیں ہیں۔

سابق قبائلی اضلاع تک محکمہ آثار قدیمہ کی رسائی نہیں؟

قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں اںضمام کے پانچ سال گزر گئے ہیں مگر یہاں محکمہ آثار قدیمہ کے دفاتر قائم ہوئے اور نہ ہی یہاں صوبے کے دوسرے اضلاع کی طرح انسپکٹر اور دوسرے سٹاف کی تعیناتی ہو سکی ہے۔ جس کے باعث ان علاقوں میں نہ تو اینٹیکوٹی ایکٹ کے خلاف وزری روکنے کا کوئی بندوبست ہے نہ ہی وہاں تاریخی مقامات کو نقصان پہنچے یا نوادرات کی سمگل کا محکمے کو کوئی علم ہوتا ہے۔

 18ویں ترمیم اور آثار قدیمہ

ماہر آثار قدیمہ اور پروفیسر شعبہ آرکیالوجی جامعہ پشاور ڈاکٹر ذاکر اللہ جان  کے مطابق، 18ویں ترمیم کے بعد تاریخی مقامات کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے۔

بخت محمد کہتے ہیں کہ خیبرپختوںخوا میں چھ ہزار آثار قدیمہ کے مقامات موجود ہیں۔ تجربہ کار ٹیموں کی مدد سے تین ہزار سائٹس کی نشاندہی کر کے اسے ریکارڈ پر لایا گیا اور انہیں محفوظ بنانے پر کام بھی شروع کیا گیا جبکہ باقی سائٹس کا سروے شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

آثار قدیمہ کا تحفظ، سب کی یکساں ذمہ داری

نواز الدین گزشتہ کئی سال سے سوات عجائب گھر میں بطور انچارج کام کر رہے ہیں اور آثار قدیمہ کےامور پر مہارت رکھتے ہیں۔ ان سے تاریخی مقامات کو نقصان پہنچانے کے واقعات اور محکمے کی کارکردگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 2016ء میں خیبرپختونخوا  نے قانون بنایا اور اس پر عملی طور پر کام شروع کیا لیکن آثار قدیمہ کا تحفظ صرف ہماری نہیں بلکہ سب کی ذمہ داری ہے۔

"یہ ہمارا مشترکہ ورثہ اور تاریخ ہے، اس لیے اس کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہے، تعلیمی اداروں میں اس بات پر زور دینا چاہیے کیونکہ ذمہ دار قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ رکھتی ہیں۔"

تاریخ اشاعت 9 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

پشاور سے تعلق رکھنے والے ذیشان اعظم کاکاخیل 2015 سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ذیشان اعظم گورننس اور سماجی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.