'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

postImg

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

کوئٹہ شہر میں بلوچی اور پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہے لیکن ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے علاقے 'ہزارہ برادری کا ملک' ہیں جو اپنے منگول نین نقش کی وجہ سے ممتاز ہیں اور  بھیڑ میں بھی با آسانی پہچانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی کی سب سے بڑی آبادی کوئٹہ کی شہری ہے۔

ہزارہ برادری کے لوگ 'دری' زبان بولتے ہیں جسے ہزارگی بھی کہا جاتا ہے لیکن کوئٹہ میں اس کمیونٹی کے لوگ اپنی زبان کو 'آزرہ' کہنا پسند کرتے ہیں۔ عام طور پر ہزارگی زبان کو فارسی کا ایک لہجہ تصور کیا جاتا ہے لیکن ہزارہ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے ایک علیحدہ زبان مانتے ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح ہزارہ نوجوان بھی اپنی زبان میں اردو اور انگریزی الفاظ کا روانی سے استعمال کرتے ہیں۔

عطاء الحق زیرک، کوئٹہ میں مادری زبانوں میں تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھانا ضروری ہے ورنہ نہ تو بچہ کچھ سیکھ پاتا ہے اور نہ ہی زبان فروغ پا سکتی ہے۔

"کسی کی بھی اپنی مادری زبان سے محرومی سے ایک مخصوص ثقافت کے معدوم ہو جانے اور معاشرے کی رنگا رنگی کے خاتمے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ ہزارگی زبان کے ساتھ حکومت نے سراسر زیادتی کی جو اسے فارسی کا حصہ گردان لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے میں کہیں ہزارگی نہیں پڑھائی جاتی بلکہ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی ہزارہ طالب علم مجبوراً فارسی کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔

ہزارگی بولنے والے کتنے ہیں اور کہاں سے آئے؟

ہزارہ کمیونٹی کی تاریخ اور اوریجن کے بارے میں کئی روایات ہیں تاہم عام خیال (myth) یہی ہے کہ یہ لوگ 13 ویں صدی میں چنگیز خان کی فوج کے ساتھ افغانستان میں آئے تھے لیکن اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ ہزارہ چنگیز خان سے پہلے اس علاقے میں آباد تھے۔

مینارٹی رائٹس گروپ  کے مطابق 19 ویں صدی سے پہلے ہزارہ افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروہ اور ملکی مجموعی آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ تھے لیکن افغان بادشاہ امیر عبدالرحمٰن خان (1901-1880ء) کی زیرقیادت ان کے خلاف نسل کشی کی مہم چلائی گئی جس میں نصف سے زیادہ ہزارہ آبادی کا قتل عام ہوا، بھاگنے پر مجبور کیا گیا یا غلام بنا لیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں اب ہزارہ لوگوں کی تعداد ملک کی آبادی کا لگ بھگ 9 فیصد رہ گئی ہے جن کی اکثریت وسطی افغان صوبوں (ہزارہ جات) بامیان، دائی کنڈی کے علاوہ غزنی، اروزگان، وردک، پروان، بغلان، سمنگان اور سرپل کے ملحقہ اضلاع میں رہتی ہے۔

امیر عبدالرحمٰن کے مظالم کے نتیجے میں بہت سے ہزارہ لوگ برصغیر پاک و ہند اور ایران میں نقل مکانی پر مجبور ہو ئے جو مشرقی ایرانی صوبوں اور پاکستان میں زیادہ تر کوئٹہ میں آباد ہو گئے۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران جنگ اور طالبان اقتدار کے باعث افغانستان سے باہر ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ 

ایک اندازے کے مطابق افغانستاں کے علاوہ آسٹریلیا، یورپ اور پاکستان (کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ) میں ہزارہ آبادی 22 لاکھ کے قریب ہے جن میں سے ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب کوئٹہ میں آباد ہیں۔

'ہزارگی کو فارسی کا لہجہ قرار دے کر بہت نا انصافی کی گئی'

ہزارہ ٹاؤن کے سابق رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل بتاتے ہیں کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور حکومت (16-2015ء) میں جب مادری زبانوں کے لیے اقدامات کا اعلان ہوا تو ہزارگی کو فارسی کا حصہ قرار دیا گیا جو اس زبان سے بہت بڑی ناانصافی ہے۔

"ہماری مشاورت کے بغیر ہی سکول کی سطح پر فارسی کا سلیبس تیار کر کے اسے ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے سکولوں پر تھوپ دیا گیا۔ جو ناصرف کمیونٹی کے لیے ناقابل قبول تھا بلکہ اساتذہ بھی اسے پڑھانے سے قاصر رہے۔ مادری زبانوں کے لیے اقدامات کا ہزارگی زبان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"

علی تورانی ہزارہ ٹاؤن میں'کیبلاغِ آزرگی' کے نام سے قائم ہزارگی اکیڈمی کے صدر ہیں۔ وہ ہزارگی کو فارسی کی'شکل' قراد دینے کے سخت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہزارگی اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ماہرِین لسانیات کے مطابق جس زبان کا ایک حرف ابجد بھی دوسری زبان سے مختلف ہو، وہ الگ زبان کہلانے کی حق دار ہے۔

فارسی زبان میں دو حروف تہجی یعنی 'ٹ' اور 'ڈ' کا کوئی تصور نہیں جو ہزارگی میں عام استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہزارگی کے حروف تہجی 24 جبکہ فارسی کے 26 ہیں۔

ان کے بقول ہزارہ نسلی اعتبار سے 'ترک' ہیں اس لیے ان کی زبان کا نصف حصہ ترکش، 40 فیصد فارسی اور 10 فیصد عربی، اردو، ہندی وغیرہ پر مشتمل ہے۔

'ہزارگی ماہنامہ منجی کے 20 سالہ سفر نے 30 لکھاری پیدا کیے' 

ہزارہ ٹاؤن میں ابراہیم شہید لائبریری کے اوپر کی منزل پر واقع 'کیبلاغِ آزرگی' کے اراکین مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دینے میں مصروف تھے جن میں ہزارگی مشاعرہ، ٹیبلو اور تقاریر کا اہتمام شامل تھا۔

علی تورانی بتاتے ہیں کہ اس صدی کے آغاز تک ہزارہ کمیونٹی کو اپنی زبان میں لکھنے اور اسے شائع کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا تھا۔ ہزارگی زبان میں نہ تو کوئی اخبار یا رسالہ چھپتا تھا اور نہ ہی اردو کا یا کوئی اور اخبار ہزارگی تحریریں شائع کرتا تھا۔

"ہمارے لوگوں کو اپنی بات لکھنے کے لیے مجبوراً اردو زبان کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ پھر میں نے چھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر 'اسپلونِ آزردگی' کے نام سے ادارہ بنایا اور اسی پلیٹ فارم سے چار صفحات پر مشتمل ماہ وار ادبی رسالہ منجی( پیغام) نکالا۔"

وہ کہتے ہیں کہ ہزارگی اکیڈمی کو گورنمنٹ کی جانب سے سالانہ کوئی گرانٹ نہیں ملتی اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے۔ ماہنامہ منجی کے 20 سالہ سفر میں ہزارگی اکیڈمی نے 30 لکھاری پیدا کیے جو شاعری، افسانے اور نثر لکھ رہے ہیں۔

"اس دوران ہم نے لگ بھگ 20 ہزارگی کتابیں چھاپی ہیں۔ ان میں بڑا کام ڈھائی ہزار ضرب الامثال پر مشتمل حسین علی یوسفی شہید کی کتاب ہے جس کے اردو، انگریزی اور فارسی میں تراجم بھی ہو چکے ہیں۔"

علی تورانی کا کہنا ہے کہ ہزارگی کتابوں اور رسائل کے لیے اردو سکرپٹ(رسم الخط) استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔ تاہم 2019 میں اکیڈمی نے ہزارگی رسم الخط تیار کیا لیکن کمیونٹی کے ہی ادیب اس کی مخالفت کر رہے ہیں مگر امید ہے یہ لوگ نئے رسم الخط کو اپنائیں گے۔

'ہم کیوں کہیں کہ ہماری زبان کو خطرہ ہے'

قادر نائل کہتے ہیں کہ زبان کی ترویج میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں مگر ایک کامیابی ضرور ملی ہے۔ انہوں نے بطور ایم پی اے ہزارگی زبان کو پی ٹی وی بولان کا حصہ بنانے کی قرارداد منظور کرائی تھی جس کے نتیجے میں اب ہزارگی زبان میں ہفتہ وار ایک گھنٹے کا پروگرام نشر ہوتا ہے۔

نئی دنیا کے میڈیا ماہرین کا ماننا ہے کہ جس زبان کے انٹرنیٹ پر لکھاری کم ہوں اور مواد بھی انتہائی کم دستیاب ہو تو ڈیجیٹل دور میں اس زبان کو محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

 تاہم آن لائن ہزارگی چینل 'نور بن ٹی وی' کے ایڈیٹر محمد حسین چاگر کا خیال ہے کہ نئی دنیا میں جہاں کم بولی جانے والی زبانوں کو خطرات ہیں وہاں ڈیجیٹل میڈیا نے ان کی ترویج کے لیے سہولتیں بھی پیدا کی ہیں، کنٹینٹ بنانا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ ہزارگی زبان میں فلمیں بن رہی ہیں،'بُزِ چنی' کے نام سے 19 منٹ کی فلم بہت لوگوں نے دیکھی اور بڑا پسند کیا ہے۔ اب تھری ڈی اینیمیشن کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا میں ہزارگی ضرب الامثال پر کام ہو رہا ہے۔

"ہزارگی شاعری ہو رہی ہے، ڈرامے بن رہے ہیں، لوگ اپنی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ جب اتنا سب کچھ ہو رہا ہے تو ہم کیوں کہیں کہ ہماری زبان کو خطرہ ہے؟"

ویڈیو و فوٹوگرافی: ندیم جان

تاریخ اشاعت 26 فروری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

شازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.