قیس محمد قاسم چوراسی سال کے ہیں۔ وہ لاہور جنرل ہسپتال کے عقب میں واقع محلہ میو میں رہتے ہیں۔ جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں رہنے والوں کی اکثریت کا تعلق میو برادری سے ہے جو 1947ء میں میوات سے ہجرت کر کے پاکستانی پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔
ہجرت کے وقت قیس محمد چھ سال کے تھے۔ وہ اپنے والد سہراب خاں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ میوات کے علاقے گڑ گاؤں میں سکول ٹیچر تھے۔
"میرے والد اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر بہت دلبرداشتہ رہتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بڑے آدمی ضرور بننا لیکن اپنی زبان اور ثقافت کبھی مت چھوڑنا۔"
قیس محمد بتاتے ہیں کہ ان کے زمانہ طالب علمی میں 'انجمن اتحاد و ترقی میوات پاکستان' کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی تھی۔ انھوں نے ناصرف اس میں شمولیت اختیار کی بلکہ 70 کے عشرے میں ماہانہ رسالہ 'آفتاب میوات' بھی نکالا جو اردو زبان میں میو برادری کی ترجمانی کرتا تھا۔
قیس محمد اب میواتی زبان کا ابتدائی قاعدہ اور گرائمر کے علاوہ متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں سے کچھ ابھی شائع نہیں ہو پائیں۔ وہ لاہور سے شائع ہونے والے اردو ماہانہ 'صدائے میو' کے ہر شمارے کے لیے میواتی زبان میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
قیس محمد کے بھائی سکندر سہراب میو بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں نثر کے علاوہ اردو اور میواتی شاعری بھی شامل ہے۔ وہ دو ماہانہ رسالوں کے مدیر بھی ہیں۔

میواتیوں کو بھارت اور پاکستان دونوں میں ہی شناختی بحران کا سامنا ہے
تقسیم ہند میو برادری کے لیے ہجرت کے مصائب کے ساتھ ایک شناختی بحران بھی لے کر آئی۔ بھارت میں میواتی کو سرکاری سطح پر علیحدہ زبان کی بجائے ہندی کا ایک لہجہ مانا جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمان میو تین دہائیوں سے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور ان دنوں لاہور گیریژن یونیورسٹی میں اردو پڑھا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میواتیوں کو صرف بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
"ہجرت کر کے آنے والے میو خاندانوں کی خواہش تھی کہ انہیں کسی ایک علاقے میں آباد کیا جائے جہاں وہ اپنی ثقافت و روایات کے ساتھ زندگی گزار سکیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آبادی بکھرنے سے زبان کا تحفظ تو کجا آپسی میل جول بھی محدود ہو گیا۔"
مغلوں کے زمانے سے میوات کا علاقہ کبھی بھی ایک انتظامی اکائی نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنی لسانی اور ثقافتی پہچان کو برقرار رکھا تھا۔
بھارت کی موجودہ انتظامی تقسیم کے مطابق میوات کا علاقہ تین ریاستوں – ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش – کے آٹھ اضلاع میں بٹا ہوا ہے۔ ان میں سے ہریانہ کا گڑگاؤں دارالحکومت دہلی سے متصل ہے اور عملی طور پر اسی کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
تقسیم کے وقت یہ علاقہ تین انتظامی اکائیوں میں تقسیم تھا جن میں سے دو شاہی ریاستیں الور اور بھرت پور تھیں اور ایک برطانوی ہند کے صوبے ہریانہ کا ضلع گڑگاؤں۔

'ہماری اصل آبادی مردم شماری کے اعداد سے تین گنا زیادہ ہے'
میو برادری کو راجپوت مانا جاتا ہے- موتی لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کے سابق پروفیسر سورج بھان بھردواج کے ایک مقالے کے مطابق میواتی صوفیاء کی تبلیغ سے مسلمان ہونا شروع ہوئے تھے۔ ان کے بقول گو میواتیوں کی مذہبی شناخت 19 ویں صدی تک مبہم تھی لیکن اب پاکستان اور بھارت میں رہنے والے تمام میواتی مسلمان ہیں۔
برطانوی یونیورسٹی سے وابستہ محقق راکیش انکت کے مطابق 1947ء میں بھارت میں میواتی بولنے والوں کی کل تعداد چار لاکھ ایک ہزار 596 تھی جن میں سے ایک لاکھ 93 ہزار (یعنی نصف) پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔
بھارت کی 2011ء کی مردم شماری نے میواتی بولنے والوں کی کل تعداد آٹھ لاکھ 56 ہزار 643 بتائی تھی جبکہ پاکستان کی تازہ مردم شماری (2023ء) کے مطابق یہاں ان کی تعداد 10 لاکھ 94 ہزار 219 ہے۔ گویا اس وقت بھی میو برادری دونوں ملکوں میں برابر تقسیم ہے۔
مردم شماری کے مطابق ضلع قصور میں چار لاکھ 70 ہزار سے زائد میواتی بولنے والے آباد ہیں جو پاکستان میں ان کی سب سے بڑی آبادی ہے اور یہ قصور کی کل آبادی کا 12 فیصد بنتے ہیں۔ لاہور میں ڈھائی لاکھ ہیں اور اس کے بعد ضلع سیالکوٹ، ملتان، نارووال اور لودھراں میں پچاس، پچاس ہزار کے قریب میواتی بولنے والے رہتے ہیں۔ پنجاب سے باہر کراچی میں 30 ہزار اور میر پور خاص میں دس ہزار کے قریب میو آباد ہیں۔
میو کمیونٹی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کی صحیح آبادی پاکستان میں مردم شماری کے اعداد سے تین گنا زائد ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمان میو بھی اسے درست مانتے ہوئے کہتے ہیں: "بہت سے لوگ احساس کمتری کے باعث خود کو 'میو' نہیں کہلواتے اور اپنے نام کے ساتھ راؤ، خان یا چوہدری لکھنے کو ترجیح دیتے رہے لیکن اب حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔"

'ہماری ثقافت دم توڑ رہی ہے بس میواتی زبان باقی رہ گئی ہے'
عاصد خاں میو کو بھی دکھ ہے کہ ان کی ثقافت اور رسوم و رواج دم توڑ رہے ہیں۔ وہ ضلع قصور کے گاؤں حویلی رامیانہ کے رہائشی ہیں اور یہاں میو انٹرنیشنل کے نام سے سکول اور کالج چلاتے ہیں۔
"بس صرف میواتی زبان باقی رہ گئی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی مادری زبان کی حفاظت نہ کی تو اپنی شناخت بالکل ہی کھو دیں گے۔"
وہ کہتے ہیں کہ میوات کے لوگ خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے۔ تاہم 70ء کی دہائی کے آغاز میں (بنگلہ، سندھی اردو تنازعات کے بعد) میو برادری کو اپنی شناخت سے محرومی کا احساس ہونے لگا۔
جس کے بعد کئی تنظیمیں وجود میں آئیں جو میواتی کو علیحدہ زبان تسلیم کروانے کے لیے مختلف لائحہ عمل ترتیب دیتی رہیں لیکن کامیاب نہ ہو پائیں تاہم پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ہونے والی کچھ کوششیں کامیاب ہوئیں۔
عابد حمید خان میو ضلع ناروال کے رہائشی اور سماجی و سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے میواتی کو علیحدہ مادری زبان تسلیم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے 2010ء میں 'پاکستان میو اتحاد' کے نام سے تنظیم بنائی۔
"اس تنظیم کے تحت ہم نے 2014ء میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی(نادرا) کو درخواست دی اور شناختی فارم میں دیگر زبانوں کے ساتھ میواتی کا بھی اندراج ہونے لگا۔"
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پھر 2017ء میں انہوں نے قومی ادارہ شماریات سے رجوع کیا اور ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کردی۔ عدالت عالیہ میں ادارہ شماریات نے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ مردم شماری میں میواتی زبان کو شامل کر لیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں 2023ء کی مردم شماری میں میواتی کو شامل کر لیا گیا۔
"فاضل جج نے دیگر اداروں کو بھی میواتی زبان کے اندراج کی ہدایات جاری کیں جس سے ہماری قوم کو شناخت مل گئی ہے۔"

'اب میواتی میں لکھنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے'
عاصد خان نے میواتی کے فروغ کی پہلی کوشش 1995ء میں کی تھی۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کو درخواست دی تھی کہ جامعہ میں میواتی زبان کو پڑھایا جائے۔
"جواب آیا کہ میواتی زبان کا کوئی لٹریچر ہی دستیاب نہیں ہے، اگر وہ مل جائے تو یہ سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ہم نے لٹریچر پر کافی کام کیا ہے۔ "
عاصد خان کہتے ہیں کہ اب میواتی زبان کی تعلیم و ترویج کے لیے پنجاب میں لگ بھگ ایک درجن تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ میواتی زبان کی گرائمر، قاعدہ اور میواتی کہاوتوں پر مبنی کتب مفت دے رہی ہیں جبکہ 100 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں۔
"میں نے جب 2005ء میں ڈیٹا اکٹھا کیا تو اس وقت صرف 12 افراد میواتی لکھ رہے تھے مگر اب یہ تعداد سیکڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ ریسرچ اور تھیسز لکھنےکا کام بھی ہو رہا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ میو برادری کی ترجمانی کے لیے 'صدائے میو' اور 'میو ایکسپریس' کے نام سے دو ماہنامے اور ایک سہ ماہی رسالہ 'اراولی' اردو میں شائع ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں میواتی تحریریں بھی باقاعدگی سے چھپتی ہیں۔
'میواتی دنیا' کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جس پر میواتی زبان و ثقافت سے متعلق مواد دستیاب ہے۔ کئی نوجوان میواتی یوٹیوب چینلز بھی چلا رہے ہیں۔

'میں دس نوجوانوں کو جانتا ہوں ہیں جو میواتی زبان و کلچر پر مقالے لکھ رہے ہیں'
عمران میو امپیریل یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ انہوں نے ایم فل میں 'میواتی ادب' پر کام کیا ہے اور اب 'اردو کی لسانی تشکیل میں میواتی کا کردار' کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ میواتی زبان کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کا اپنا کبھی کوئی رسم الخط نہیں رہا۔ جتنا بھی مواد دستیاب ہے وہ سنسکرت، اردو یا عربی میں ہے۔میواتی ادب و ثقافت تحریر کی بجائے ضرب الامثال اور کتھاؤں کی صورت میں سینہ بہ سینہ اگلی نسل کو منتقل ہوتی رہی۔
عمران میو، عاصد خان کے دعووں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب 2018ء میں وہ ایم فل کے تھیسز پر کام کر رہے تھے تو انٹرنیٹ پر میواتی تاریخ و ادب وغیرہ دستیاب نہیں تھا لیکن اب جب وہ پی ایچ ڈی کررہے ہیں تو یہ معاملہ کچھ بہتر ہوا ہے۔
"میں کم از کم 10 ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں ہیں جو اب میواتی زبان و کلچر پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ رہے ہیں۔"
صدائے میو فورم کے جنرل سیکریٹری پروفیسر سرفراز احمد میو کہتے ہیں کہ میواتی زبان و ادب پر تیزی سے کام ہو رہا ہے لیکن اس قوم کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ میواتی زبان کو پرائمری سکولوں میں بطور اختیاری مضمون شامل کیا جائے۔
نوٹ: یہ پورٹ لاہور سے آصف ریاض اور قصور سے افضل انصاری کی مشترکہ کاوش ہے
تاریخ اشاعت 4 مارچ 2025