بی بی زرسانگہ ضلع قلعہ عبداللہ کے گاؤں سپینہ تیژہ کی رہائشی ہیں۔ ان کی عمر 30 سال ہو گئی ہے لیکن انہوں نے کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اب تک ان کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا اس لیے ووٹ نہیں ڈال سکیں۔ تاہم ان کے گھر کی دوسری خواتین نے بھی آج تک حق رائے دہی استعمال نہیں کیا کیونکہ یہاں صرف مرد ہی ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔
زرسانگہ نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کا مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں پڑھ پائیں۔ یہاں آج بھی گرلز مڈل سکول نہیں ہے جب تعلیم نہ ہو تو شناختی کارڈ یا ووٹ کی اہمیت کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔
"میری شادی پانچ سال پہلے اپنے کزن سے ہوئی تھی۔ اب شوہر کے شناختی کارڈ کی میعاد ختم ہوئی تو ان کے ساتھ میں نے بھی اپنا کارڈ بنوا لیا ہے۔ اب میں الیکشن میں ووٹ ڈالنا چاہتی ہوں لیکن شاید شوہر اجازت نہ دیں۔ انہوں نے اجازت دے دی تو میں ووٹ ڈالنے والی اس خاندان کی پہلی عورت ہوں گی۔"
الیکشن کمیشن کے مطابق 2018ء میں بلوچستان میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 18 لاکھ 13ہزار 562 تھی۔ اس وقت ان میں سے صرف سات لاکھ 14ہزار 914 خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا جو رجسٹرد خواتین ووٹرز کا 37.64 فیصد بنتا ہے۔
غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن ) کے مطابق گزشتہ انتخابات میں اس صوبے میں خواتین کا سب سے کم ٹرن آؤٹ ضلع کوئٹہ کے حلقے این اے 266 میں نظر آیا جہاں یہ شرح تقریباً 25 فیصد تھی۔
صوبے کے دو قومی حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے کم رہا جبکہ سات میں یہ شرح 31 سے 40 فیصد کے درمیان رہی تھی۔ یہاں خواتین نے سب سے زیادہ ووٹ این اے 268 چاغی کم نوشکی کم خاران میں ڈالے تھے جہاں ان کا ٹرن آؤٹ لگ بھگ 57 فیصد تھا۔
ضلع قلعہ عبداللہ میں 2 لاکھ 32 ہزار 613 رجسٹرڈ ووٹرز میں 83 ہزار 891 خواتین ووٹرز تھیں جن میں سے صرف 31 ہزار 474 خواتین نے ووٹ ڈالا تھا جو یہاں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کا 37 فیصد بنتا ہے۔
نگراں صوبائی مشیر برائے وومن ڈیویلپمنٹ شانیہ خان بتاتی ہیں کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کے لیے مسلسل مہم کا مثبت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان میں خواتین تمام تر رکاوٹوں کے باوجود سیاسی میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ صوبے میں 2018ء میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز 18 لاکھ 13 ہزار 562 تھیں جن کی تعداد اب 23 لاکھ 55 ہزار 783 ہو چکی ہے۔ یوں پانچ سال کے دوران صوبے کی خواتین ووٹرز میں 5 لاکھ 42 ہزار 221 کا اضافہ ہوا ہے اور یہ کل ووٹرز کا 43 فیصد سے زیادہ ہے۔
نگراں صوبائی مشیر سمجھتی ہیں کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان کی خواتین نے امن و امان کی مخدوش صورتحال میں بہت جدوجہد کی ہے۔ یہ خواتین اب سیاسی عمل میں پیش پیش ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کی بڑی تعداد اب ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے گی۔
الیکشن کمیشن کے نئے اعداد وشمار کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں کل ایک لاکھ 63 ہزار 753 رجسٹرڈ ووٹر ہیں جن میں ایک لاکھ چار ہزار 161مرد اور 59 ہزار 592 خواتین ووٹر ہیں جو رجسٹرڈ ووٹرز کا صرف 36 فیصد بنتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 2018ء میں قومی حلقہ 263 قلعہ عبداللہ/ چمن میں رجسٹرڈ ووٹرز دو لاکھ 32ہزار 613 تھے اور اب موجود حلقہ این اے 266 میں تین لاکھ 57 ہزار 834 ووٹر ہو چکے ہیں۔ جن میں سے زرسانگہ جیسی سیکڑوں خواتین آئندہ انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پر امید ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات نصیر ننگیال بتاتے ہیں کہ ووٹ ڈالنا ہر مرد اور خاتون ووٹر کا قومی فریضہ ہے۔
"اگرچہ اکثر مقامات پر خواتین کا پولنگ سٹیشن الگ ہوتا ہے تاہم کم آبادی والے علاقوں میں مشترکہ پولنگ سٹیشن قائم کیا جاتا ہے لیکن پردے کا انتظام بھی ہوتا ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ پشتونخوا میپ اور جے یو آئی سمیت سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مردوں کی طرح خواتین بھی ووٹ کاسٹ کرنے جائیں اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ووٹر جینڈر گیپ پر ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں خواتین ووٹرز کی کم رجسٹریشن کی بڑی وجہ ان کے کمپیوٹرائزد شناختی کارڈز نہ ہونا بتائی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شناختی کارڈز نہ بننے کی اہم وجوہات میں پسماندگی اور تعلیم کی کمی کا بڑا کردار ہے۔ جس کے باعث یہ خواتین نہ صرف ووٹ کے حق بلکہ بینظیر انکم سپورٹ سکیم جیسی سہولیات سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔
کوئٹہ میں عورت فاؤنڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علاؤ الدین خلجی بتاتے ہیں کی ان کی تنظیم نے 'جذبہ پروگرام' کے تحت ملک کے 25 اضلاع میں کام کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد خواتین کے شناختی کارڈ بنوا کر ان کے ووٹ کی رجسٹریشن کرائی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انتخابی قوانین (الیکشن ایکٹ2017ء) الیکشن کمیشن کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم کاسٹ ہوں تو وہ اس حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دے سکتا ہے۔
الیکشن ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین کو حق رائے دہی سے روکنے کے لیے کہیں کسی طرح کا معاہدہ ہوتا ہے یا ووٹ کے استعمال میں طاقت کے ذریعے خلل ڈالا جاتا ہے تو تب بھی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شانگلہ: کیا آئندہ عام انتخابات میں خواتین کے ٹرن آؤٹ کا مسئلہ حل ہو پائے گا؟
الیکشن کمیشن کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نادرا کے تعاون سے موبائل وینز کے ذریعے سیکڑوں خواتین کے شناختی کارڈز بنوائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں بالخصوص تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم بھی چلائی گئی لیکن خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب آگاہی سیشن کے دوران تعلیم یافتہ جوان لڑکیوں سے شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے "گھر والے کہتے ہیں کہ آپ شادی کے بعد شوہر کے نام سے شناختی کارڈ بنوا لینا۔"
ان کا کہنا تھا کہ کہ خواتین کے ٹرن آؤٹ میں بہتری کے لیے ایک تو والدین کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے، سیاسی جماعتیں خواتین کو پولنگ سٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کریں۔ البتہ پولنگ سٹیشنز اور خواتین عملے کی تعیناتی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی شمائلہ اسماعیل کہتی ہےکہ ان کی سیاسی جماعت خواتین تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور انہیں پولنگ سٹیشنز تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتطام بھی کرتی ہے۔ مگر جب تک خواتین انتخابی مہم کے لیے نہیں نکلیں گی تب تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
تاریخ اشاعت 19 جنوری 2024