ویمن ہیلپ ڈیسک کی حقیقت اور گوجرانوالہ کے ویمن پولیس سٹیشن کے گیٹ پر پڑے تالے کی کتھا

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

ویمن ہیلپ ڈیسک کی حقیقت اور گوجرانوالہ کے ویمن پولیس سٹیشن کے گیٹ پر پڑے تالے کی کتھا

احتشام احمد شامی

گوجرانوالہ کے علاقے چمن شاہ میں قائم ویمن پولیس سٹیشن پر آنے والی خواتین سائلین تھانے کے گیٹ پر لگا بڑا سا تالہ دیکھ کر مایوس لوٹ جاتی ہیں۔

یہ ویمن پولیس سٹیشن گزشتہ برس سی آئی اے کمپلیکس سے ملحقہ ایک کنال جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر یہاں ایک خاتون پولیس آفیسر طیبہ حمید کو بطور ایس ایچ او تعینات کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

لیکن یہ پولیس سٹیشن اب تک فعال نہیں ہوسکا۔

ریجنل پولیس آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن عمران اعظم رضا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق صوبائی ہوم ڈپارٹمنٹ سے اب تک اس کی حتمی منظوری کا لیٹر موصول نہیں ہوا اور "جب یہ لیٹر آئے گا تب ہی نیا تھانہ کام شروع کر سکے گا"۔

انہوں نے بتایا کہ آئی جی پنجاب پولیس اس ویمن پولیس سٹیشن کا افتتاح کریں گے۔ آئی جی پنجاب کے دورہ گوجرانوالہ کی تاریخ کا بھی ابھی تعین نہیں کیا گیا۔

ماہر قانون شکیلہ سلیم رانا کے خیال میں علیحدہ پولیس سٹیشن کا قیام خواتین کی انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔

ثریا منظور، شکیلہ سے متفق ہیں۔ وہ غیر سرکاری تنظیم ویمن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی صدر ہیں۔ ان کی تنظیم خواتین کے لیے الگ پولیس سٹیشن کے قیام کی مہم چلاتی رہی ہے۔ ثریا منظور کہتی ہیں کہ مرد پولیس اہلکار کا دیکھنے کا، بیٹھنے کا اور بات کرنے کا انداز اور پولیس تھانوں کا ماحول گھریلو خواتین کو پریشان کر دیتا ہے۔ "جو خاتون گھر سے باہر کم نکلتی ہو وہ ان باتوں کا سامنا نہیں کر پاتی"۔

شکیلہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "خاص طور پر اگر کسی خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آئے تو وہ کسی مرد آفیسر کو اس کی تفصیل کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ نہیں کر سکتی ہے"۔

انہیں افسوس ہے کہ "گو پنجاب میں خواتین کے پہلے پولیس سٹیشن کا افتتاح جنوری 1994ء میں راولپنڈی میں ہو گیا تھا لیکن 27 برس کے طویل عرصے میں بھی ان کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا"۔

پنجاب پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت صوبے کے صرف تین شہروں - لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد - میں خواتین کے لیے مخصوص پولیس سٹیشن فعال ہیں۔

سرکاری اعداوشمار کے مطابق پاکستان میں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں خواتین ملازمیں کا تناسب محض 1.2 فیصد ہے۔ اس وقت ملک بھر کی پولیس میں تین لاکھ 91 ہزار 364 مرد جبکہ پانچ ہزار 731 خواتین اہلکار ہیں۔

پنجاب پولیس میں ایک لاکھ 75 ہزار مرد اہلکاروں کے مقابلے میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والی خواتین اہلکاروں کی تعداد چار ہزار ہے۔

ضلع کے 30 تھانوں میں 'قائم' ویمن ہیلپ ڈیسک کا سروے

پولیس کی ویب سائٹ پر پنجاب کے تمام اضلاع کے ان تھانوں کی تفصیل دی گئی ہے جن میں خواتین کی رہنمائی کے لیے ہیلپ ڈیسک بنائے گئے ہیں۔ ویب سائٹ پر ان خواتین پولیس اہلکاروں کے نام بھی دیے گئے ہیں جو ان تھانوں میں ڈیوٹی دے رہی ہیں اور ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ اقدام خواتین کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ تھانوں میں خواتین اہلکاروں کی ہمہ وقت موجودگی خواتین سائلین کے لیے کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اس فہرست میں ضلع گوجرانوالہ کے تمام 30 تھانوں میں ڈیوٹی دینے والی خواتین پولیس اہلکاروں کے نام بھی موجود ہیں۔ لوک سجاگ نے ان تھانوں میں ڈیوٹی دینے والی خواتین کی موجودگی کی پڑتال کی تو یہ صورت حال سامنے آئی:

1: ضلع کے 30 میں سے چھ تھانوں میں تو خواتین پولیس اہلکار دن کے اوقات میں ڈیوٹی سر انجام دیتی ہیں لیکن باقی 24 تھانوں میں خواتین اہلکار تعینات نہیں کی گئی ہیں۔

ان تھانوں کو اگر خواتین اہلکاران کی ضرورت پڑے تو یہ اشرف مارتھ شہید پولیس لائن رابطہ کرتے ہیں جہاں سے ضرورت کے مطابق اہلکار بھجوا دی جاتی ہیں جو ڈیوٹی ادا کرکے واپس گھروں کو لوٹ جاتی ہیں یا واپس پولیس لائن رپورٹ کرتی ہیں۔

2: گوجرانوالہ ضلع کے 30 میں سے چار پولیس سٹیشن ماڈل قرار دئیے گئے ہیں جن میں کینٹ، ماڈل ٹاؤن، گکھڑ اور صدر کامونکی شامل ہیں۔ان تھانوں میں بہتر سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان ماڈل تھانوں میں خواتین پولیس اہلکاران صبح آٹھ بجے آتی ہیں اور سہ پہر چار بجے گھروں کو واپس لوٹ جاتی ہیں۔ اس کے بعد انہیں صرف اس صورت میں بلایا جاتا ہے جب کسی ملزمہ کو گرفتار کرنا ہو۔

یہ چار تھانے ضلع کے ان کل چھ تھانوں میں شامل ہیں جہاں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

3: نوشہرہ ورکاں سرکل میں تین تھانے آتے ہیں جن میں سے صرف تھانہ نوشہرہ ورکاں میں ایک خاتون اہلکار تعینات ہے۔ تھانہ تتلے عالی اور تھانہ کوٹ لدھا میں کوئی خاتون اہلکار ڈیوٹی پر نہیں۔ضرورت پڑنے پر ڈسٹرکٹ پولیس لائن سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ مگر یہ ضرورت بھی صرف چھاپے یا کسی ملزمہ کی گرفتاری تک محدود ہے۔

4: وزیر آباد سرکل میں چھ تھانے ہیں جن میں سے صرف تھانہ گکھڑ اور تھانہ سٹی وزیر آباد میں خواتین اہلکاران ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ باقی چار تھانوں صدر وزیر آباد، علی پور چٹھہ، احمد نگر اور سوہدرہ کے حکام ضرورت پڑنے پر پولیس لائن سے رابطہ کرتے ہیں۔

5: کامونکی سرکل میں چار تھانے ہیں جن میں سے صرف صدر کامونکی تھانہ میں خاتون اہلکار ڈیوٹی دیتی ہے۔ باقی تین تھانوں سٹی کامونکی، واہنڈو اور ایمن آباد میں کوئی خاتون اہلکار تعینات نہیں۔ یہاں بھی آن کال سسٹم چل رہا ہے۔

6: سیٹلائٹ ٹاؤن سرکل کے تینوں تھانوں سیٹلائٹ ٹاؤن، سول لائن اور جناح روڈ میں خواتین پولیس اہلکاران ڈیوٹی نہیں دے رہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تربت میں خواتین کا پولیس سٹیشن: عورتوں کے خلاف جرائم کم کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟

7: ماڈل ٹاؤن سرکل کے ایک تھانے ماڈل ٹاؤن میں خاتون پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتی ہے جبکہ تھانہ دھلے میں کوئی خاتون اہلکار نہیں ہے۔

8: پیپلز کالونی سرکل کے تینوں تھانوں پیپلز کالونی، صدر اور فیروز والا اور قلعہ دیدار سنگھ سرکل کے دونوں تھانوں قلعہ دیداد سنگھ اور لدھے والا وڑائچ میں کسی خاتون اہلکار کی ڈیوٹی نہیں۔

 9:کھیالی سرکل کے دونوں تھانوں کھیالی اور سبزی منڈی، کینٹ سرکل کے دونوں تھانوں کینٹ اور اروپ اور کوتوالی سرکل کے تینوں تھانوں کوتوالی، باغبانپورہ اور گرجاکھ میں بھی کوئی خاتون پولیس اہلکار ڈیوٹی سر انجام نہیں دے رہی۔

10: پولیس حکام کے مطابق جن تھانوں میں خواتین اہلکاران ڈیوٹی نہیں دے رہیں وہاں کے ایس ایچ اوز اور محررز کو یہ اختیار ہے کہ وہ جب چاہیں پولیس لائن فون کرکے خواتین اہلکاران کو طلب کر سکتے ہیں جس کا پولیس روزنامچہ میں باقاعدہ اندراج کیا جاتا ہے۔

تاریخ اشاعت 21 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.