وسطی پنجاب: ' کبھی گندم کی اتنی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جتنی رواں سال دیکھ رہے ہیں'

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

وسطی پنجاب: ' کبھی گندم کی اتنی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جتنی رواں سال دیکھ رہے ہیں'

احتشام احمد شامی

وسطی پنجاب کے اضلاع میں جہاں گندم کی کٹائی آخری مراحل میں ہے وہیں اسے ذخیرہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انتظامیہ نے حالیہ چند دنوں میں کئی کارروائیوں میں اربوں روپے مالیت کی ذخیرہ شدہ گندم کو ضبط کیا ہے۔

گوجرانوالا ڈویژن میں اب تک مجموعی طور پر 26 ہزار 273 میٹرک ٹن گندم قبضے میں لی جا چکی ہے جس کی قیمت دو ارب 57 کروڑ روپے بنتی ہے۔

گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاءالدین، حافظ آباد، نارووال اور وزیر آباد میں 280 کارروائیوں میں 461 گاڑیوں اور مختلف گوداموں میں چھپائی اور ذخیرہ کی گئی 25 ہزار 549 میٹرک ٹن گندم محکمہ خوراک جبکہ 724 میٹرک ٹن گندم ضلعی انتظامیہ نے اپنے قبضے میں لی ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف 16 ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہیں۔

گندم کی ذخیرہ اندوزی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

ذخیرہ اندوز گندم خرید کر اس کی قلت پیدا کرنے کے لئے اسے چھپا دیتے ہیں اور پھر قیمت بڑھنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔

دوسری وجہ گندم کی افغانستان کو سمگلنگ ہے۔ چونکہ ملک سے باہر گندم بھیجنے پر بیوپاریوں کو مقامی مںڈی کے مقابلے میں زیادہ منافع ملتا ہے اس لئے وہ اسے خرید کر مخصوص عرصہ تک گوداموں میں رکھ لیتے ہیں۔

زرعی ماہر عبدالناصر بتاتے ہیں کہ وہ تین دہائیوں سے زرعی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور انہوں نے کبھی گندم کی اتنی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جتنی وہ رواں سال دیکھ رہے ہیں۔ ان کی رائے میں بھی وزیراعظم کی طرف سے گندم کی حالیہ فصل کو 'بمپر کراپ' قرار دینے کے دعویٰ کے باوجود بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کی وجہ اس کی آنے والے دنوں میں متوقع سمگلنگ ہے۔

''ذخیرہ اندوزوں  کو یقین ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس برس بھی اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس وقت پنجاب میں محکمہ خوراک 3900 روپے فی من کے حساب سے گندم لے رہا ہے جبکہ وسطی پنجاب کی منڈیوں میں گندم کا ریٹ 4200 سے 4400 روپے من تک پہنچ گیا ہے اور آنے والے دو مہینوں میں گندم کی قیمت 5500 روپے من سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔''

وفاقی حکومت کے مطابق رواں سال گندم کی پیداوار دو کروڑ 68 لاکھ ٹن رہے گی جوکہ گزشتہ سال سے چار لاکھ ٹن یعنی 1.6 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال ملک میں گندم کی پیداوار دو کروڑ 64 لاکھ ٹن ہوئی تھی۔

محکمہ خوراک کے افسر سردار احمد علوی کا دعویٰ ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف مربوط کارروائی کی جا رہی ہے جس میں مختلف شہروں کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کو خفیہ ایجنسیوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔

انہوں نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ 16 روز میں سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا 58 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے اور باقی بھی جلد حاصل ہو جائے گا۔

<p>ملک سے باہر گندم بھیجنے پر بیوپاریوں کو زیادہ منافع ملتا ہے اس لئے وہ اس کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں<br></p>

ملک سے باہر گندم بھیجنے پر بیوپاریوں کو زیادہ منافع ملتا ہے اس لئے وہ اس کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور اس مرتبہ فصل بھی اچھی رہی ہے۔ اسی وجہ سے امسال گوجرانوالا ڈویژن کو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی لاکھ زیادہ بوریاں اکٹھی کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف موثر کارروائی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے سرکاری ہدف پور اکرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

کامونکی کے زمیندار رانا وقاص کہتے ہیں کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث بااثر زمینداروں، سیاستدان اور سرکاری افسروں پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔

وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وسطی پنجاب کے اضلاع میں بااثر لوگوں نے بڑے گودام بنا رکھے ہیں جہاں بڑی مقدار میں گندم ذخیرہ کی جا رہی ہے۔ انتظامیہ کی تمام تر کوششوں اور دعووں کے باوجود ذخیرہ اندوزی زوروشور سے جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا: 'ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے'

وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے زرعی ماہر اقبال چیمہ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کے افسروں کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔

''جو گندم پکڑی جا رہی ہے اس میں لوگوں کی باہمی عداوتوں کا اہم کردار ہے۔ لوگ انتظامیہ کو اپنے مخالفین کے خلاف ذخیرہ اندوزی کی شکایت کرتے ہیں اور اگر ذخیرہ اندوز عام آدمی ہو تو وہ انتظامیہ کے شکنجے میں آ جاتا ہے۔تاہم اگر کوئی بااثر ہے تو اس کے گودام کی طرف کوئی نہیں آئے گا۔محکمہ خوراک کو صرف چھوٹا زمیندار ہی گندم بیچ رہا ہے۔ آڑھتیوں کی کوشش ہے کہ وہ کچھ مہینے انتظار کے بعد ہی گندم جاری کریں۔''

عبدالناصر شیخ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں گندم کی قیمت نیچے لانے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ اس کی افغانستان کو سمگلنگ روک دی جائے۔ جب ذخیرہ اندوزوں  کو یقین ہو جائے گا کہ گندم سمگل نہیں ہوسکتی تو منڈیوں میں گندم کی قیمت سرکاری قیمت یعنی 3900 روپے من سے بھی کم ہو جائے گی۔

تاریخ اشاعت 8 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.