سو سالہ گارنٹی کس کام کی: پائپ لائن میں متواتر خرابی سے لیاقت پور میں پانی کا بحران

postImg

وحید رُشدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سو سالہ گارنٹی کس کام کی: پائپ لائن میں متواتر خرابی سے لیاقت پور میں پانی کا بحران

وحید رُشدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

حمیدہ جاوید لیاقت پور کے علاقے کچی منڈی میں عثمان کالونی کی رہائشی اور لیڈی ہیلتھ سپروائزر ہیں۔ ان کے علاقے میں ہر دو ماہ بعد کئی کئی روز پانی نہیں آتا۔ اس سے پورے علاقہ کے باسیوں کو اس قدر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔

حمیدہ بتاتی ہیں کہ زیر زمین پانی کھارا ہونے کی وجہ سے کپڑے اور برتن دھونے کے قابل بھی نہیں ہے۔ گھریلو ضروریات کے لیے انہیں 40 روپے فی گیلن کے حساب سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہر ماہ میونسپل کمیٹی کو باقاعدگی سے پانی کا بل بھی ادا کرتی ہیں۔

"جب میونسپل کمیٹی کے اہلکاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ پانی کب آئے گا تو جواب ملتا ہے کہ الہ آباد سے آنے والی مین پائپ لائن پھٹ چکی ہے جس پر مرمت کا کام جاری ہے۔"

لیاقت پوری میں زیرزمین پانی کھارا ہونے کے سبب 1980ء میں یہاں نہری پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیےتحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لیاقت پور کے عقب میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چار بڑے تالاب اور فلٹریشن سسٹم قائم کیے گئے۔ جب شہر کی آبادی 60 ہزار نفوس سے متجاوز ہوئی تو صاف پانی کی ضروریات بڑھ گئیں۔

چنانچہ 2007ء میں اس وقت کے تحصیل ناظم مخدوم سید مبین احمد نے پنجاب میونسپل ڈویلپمنٹ فنڈ کمپنی کی مالی معاونت اور 23 کروڑ روپے سے واٹر سپلائی کا نیا منصوبہ مکمل کروایا۔ اس کے لیے چھ کلومیٹر دور الہ آباد کے اطراف میں ٹیوب ویل نصب کر کے صاف پانی لیاقت پور شہر تک پہنچایا گیا۔

بعد ازاں محکمہ ہائی ویز اور پبلک ہیلتھ کے مابین رابطے کے فقدان کی وجہ سے 2016ء میں الہ آباد سے لیاقت پور آنے والی پائپ لائن کے اوپر ون وے سڑک کی تعمیر شروع کر دی گئی۔

2018ء میں حلقہ پی پی 257 سے منتخب ہونے والے ایم پی اے چوہدری مسعود احمد نےمزید 22 کروڑ روپے کے فنڈ منظور کرائے جس کے تحت سڑک کے نیچے آنے والی پرانی پائپ لائن کو بند کر کے نئی سڑک کے متوازی ایک اور پائپ لائن بچھائی جانا تھی جس کے بارے میں مبینہ طور پر گارنٹی دی گئی کہ یہ 100 سال تک قائم رہے گی۔

محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے اس منصوبے پر کام مکمل کر کے اسے میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے سپرد کرنا تھا مگر مذکورہ پائپ لائن بچھا کر اس میں پانی چھوڑا گیا تو یہ مختلف مقامات پر پھٹنے لگی۔ تب سے اب تک یہ پائپ لائن بے شمار مرتبہ پھٹ چکی ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہے تو شہر کو پانی کی سپلائی بند ہو جاتی ہے۔

ابوہریرہ علوی لیاقت پور کے صحافی ہیں۔ واٹر سپلائی سکیم کے بار بار پھٹنے پر انہوں نے رواں سال 27 جون کو وزیراعلیٰ پورٹل پر شکایت کی تو جولائی میں انہیں جواب ملا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ کے ایس ڈی او اور ایکسیئن کی رپورٹ کے مطابق محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ لیاقت پور نے مذکورہ سکیم مکمل کر کے ایک سال قبل میونسپل کمیٹی کے حوالے کر دی تھی۔ یہ کامیابی سے چل رہی ہے تاہم ایک دو بار کسی جوڑ سے پانی لیک ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تمام معاملات ٹھیک چل رہے ہیں۔ یہ جواب حقیقت کے برعکس تھا۔

میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے چیف سینیٹری انسپیکٹر خالد رفیق بتایا ہے کہ مذکورہ پائپ لائن فنی خرابی کے باعث پھٹتی ہے۔

"الہ آباد سے دو متوازی پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں جن کا باہمی فاصلہ کم از کم چار فٹ ہونا چاہیے مگر محکمہ پبلک ہیلتھ نے دونوں لائنوں میں ایک انچ کا بھی وقفہ نہیں رکھا۔ بعض جگہوں پر دونوں لائنیں ایک دوسرے کے اوپر نیچے بھی ہیں۔"

ان کا کہنا ہے کہ پائپ لائن بچھانے سے پہلےاور  کھدائی کے بعد لائنوں کے نیچے ریت ڈالنا ضروری تھا جو نہیں ڈالی گئی۔

"پائپ لائن کے راستے اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ ان بھٹوں کی پرانی اینٹوں کے ٹکڑے، جنہیں مقامی زبان میں کھنگر کہا جاتا ہے، پائپ لائنوں کے نیچے پڑے ہیں۔ پانی چلنے سے پائپ لائن میں تھرتھراہٹ ہوتی ہے تو اس کے نیچے موجود نوکیلے کھنگر اس میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر یہ نیچے ہی سے پھٹتی رہتی ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ میونسپل کمیٹی کے پاس نہ تو اس کی مرمت کا مناسب انتظام ہے نہ اوزار۔ اس کے علاوہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے ابھی تک سکیم میونسپل کمیٹی کے حوالے ہی نہیں کی۔

محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ لیاقت پور کے سب انجینئر ملک یاسر نے بتایا کہ اس سکیم کے لیے 22 کروڑ روپے رکھے گئے تھے لیکن یہ 16 کروڑ روپے میں ہی مکمل کر لی گئی۔ ان کے محکمے نے یہ سکیم تاحال میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے حوالے نہیں کی تاہم ڈیڑھ سال سے اس کے ذریعے لیاقت پور شہر کو پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سکیم کی حوالگی کے لیے متعلقہ محکموں کو مراسلے لکھے جا چکے ہیں اور سیکرٹریوں کی منظوری کے بعد ہی یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کروڑوں مالیت کی واٹر سپلائی ننکانہ صاحب کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی نہ دے سکی

ملک یاسر نے بھی تصدیق کی کہ پائپ لائنوں کے نیچے آنے والے اینٹوں کے نوکیلے ٹکڑوں سے پائپ لائن پھٹ رہی ہے۔

سابق رکن صوبائی اسمبلی چوہدری مسعود احمد نے بتاتے ہیں کہ یہ سکیم انہوں نے ہی منظور کروائی تھی۔ ان کے مطابق اس سے بچ جانے والے چھ کروڑ روپے سے لیاقت پور شہر میں واٹر سپلائی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اوور ہیڈ واٹر ٹینک بھی تعمیر کیے جائیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس پائپ لائن کا بار بار پھٹنا محکمہ پبلک ہیلتھ کے نگران افسروں اور ٹیکنیکل ٹیم کی صلاحیت اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر پائپ لائن کے روٹ میں اینٹوں کے کھنگر تھے تو ان سے بچاﺅ کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا۔

میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے چیف افسر پرویز اختر گجر نے دو ماہ قبل ہی عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی سکیم میں ناقص منصوبہ بندی اور غفلت کا تعین سکیم کے ہینڈ اوور کے عمل کے لیے بننے والی ٹیکنیکل کمیٹی یا محکمہ پبلک ہیلتھ ہی کریں گے۔

تاریخ اشاعت 24 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وحید رُشدی, لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ علاقائی اور سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.