محمد ناہر کو اپنی گھریلو ضرورت کا پانی لوگوں سے مانگنا پڑتا ہے۔ ان کا 27 افراد پر مشتمل کنبہ اپنے گاؤں کے قریب واقع ایک قدرتی چشمے سے پانی بھرتا ہے جہاں اس کی باری ہر دو ہفتوں میں ایک بار آتی ہے لیکن اس کی ضروریات اتنی زیادہ ہیں کہ اس کا بھرا ہوا پانی اس کی باری آنے سے بہت پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انہیں اپنے ہمسایوں اور محلے داروں کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے کہ وہ انہیں باقی دنوں کے لیے پانی فراہم کریں۔
جواں سال محمد ناہر خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام کے گاؤں لنڈئی جئی میں رہتے ہیں جس کے نواح میں واقع چشمہ روزبروز خشک ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں پانی کی کم ہوتی ہوئی مقدار کے باعث گاؤں کا ہر خاندان ہر روز اس میں سے اپنی ضرورت کا پانی نہیں بھر سکتا اس لیے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانی بھرنے کے لیے باریاں مقرر کر رکھی ہیں۔
لیکن پانی کی قلت کا مسئلہ صرف اسی گاؤں کو درپیش نہیں بلکہ شانگلہ کی سات لاکھ سے زیادہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ مقامی لوگ اپنی پانی کی ضروریات جن قدرتی ندی نالوں اور چشموں کے ذریعے پوری کرتے ہیں وہ تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ضلعی صدرمقام الپوری کے مشرق میں آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شلمانو میاں کلے نامی گاؤں میں 60 سال سے بہتا ہوا قدرتی چشمہ خشک ہو چکا ہے۔
اسی طرح الپوری سے تقریباً 20 کلومیٹر مشرق میں دونئی نامی گاؤں میں چھ سال پہلے ایک درجن سے زیادہ قدرتی چشمے ہوا کرتے تھے جو سارے کے سارے خشک ہو چکے ہیں۔ ساڑھے چار ہزار آبادی پر مشتمل اس گاؤں کے رہنے والے لوگ اب گاڑیوں کے ذریعے کئی کلومیٹر اترائی میں جاتے ہیں اور خان خوَڑ نامی ندی سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔
دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع قصبے بشام کے قریبی گاؤں وَچ خوَڑ کے رہنے والے فضل معبود کو بھی اپنے علاقے میں پانی کی کمی کی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک تین قدرتی چشمے پانی کی تمام مقامی ضرورتیں پوری کر رہے تھے لیکن 2015 اور 2021 کے درمیان وہ تینوں خشک ہو چکے ہیں جس سے، ان کے مطابق، ان کے "گاؤں میں 50 کنال زرعی رقبہ بنجر ہو چکا ہے"۔
گاؤں والے اس زمین پر گھریلو استعمال کے لیے سبزیاں کاشت کرتے تھے لیکن فضل معبود کہتے ہیں کہ "اب انہیں یہ سبزیاں بازار سے خریدنا پڑتی ہیں"۔
بشام ہی کے نواحی علاقوں باسی اور پندیاڑ میں بھی بیشتر قدرتی چشموں میں پانی کی مقدار بہت کم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ان سے پانی بھرنے والے لوگوں کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ انتظار کئی پرتشدد تنازعات کا سبب بھی بن چکا ہے۔ الپوری کے تھانیدار فضل الہٰی کے مطابق ان کے زیرِ نگرانی علاقے میں بھی ہر ماہ اس طرح کے کم از کم پانچ تنازعات سامنے آ رہے ہیں۔
'دریا سارے سوکھ گئے ہیں'
شانگلہ کی ضلعی انتظامیہ اور سرکاری خدمات کی فراہمی میں بہتری لانے کے لیے بنائے گئے ادارے، کمیونٹی ڈریون لوکل ڈویلپمنٹ (community driven local development)، کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس ضلعے میں قدرتی چشموں کے سوکھنے کا ایک اہم سبب زیرزمین پانی کی سطح میں ہونے والی کمی ہے۔ ان کے مطابق تین سال پہلے بشام سے تقریباً 24 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع کشمیر آباد مانڑئی میرا نامی جگہ پر حکومت نے مقامی آبادی کو پانی مہیا کرنے کے لیے ایک ٹیوب ویل لگایا تھا جس کے لیے ایک سو 85 فٹ گہرا بور کیا گیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیوب ویل اب بے کار ہو چکا ہے کیونکہ زیرِ زمین پانی کی سطح ایک سو 85 فٹ سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ اسی طرح الپوری سے 12 کلومیٹر مشرق کی جانب بانڈہ میرا نامی جگہ پر بھی سرکار کی طرف سے تین سو 15 فٹ گہرا بور کر کے ایک ٹیوب ویل لگایا گیا تھا جو کچھ عرصے بعد ہی خشک ہو گیا تھا۔
رواں سال کے آغاز سے پانی کی قلت کا مسئلہ اور بھی شدت اختیار کر گیا ہے کیونکہ موسم سرما میں بارشوں اور برف باری میں تاخیر اور کمی کے باعث پانی کے زیرِ زمین ذخیرے پوری طرح بھر نہیں پائے۔ محکمہ موسمیات کے اعدادوشمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر 2021 میں شانگلہ سمیت خیبرپختونخوا میں صرف 1.6 ملی میٹر بارش ہوئی جو اس مہینے میں ہونے والی اوسط بارش سے 90.8 فیصد کم تھی۔ اسی طرح اپریل 2022 میں اس صوبے میں 15.9 ملی میٹر بارش ہوئی جو اس مہینے میں ہونے والی اوسط بارش سے 78.6 فیصد کم تھی۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر میں پانی کی قلت: 'ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی'۔
ان منفی موسمی اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ علاقوں میں حکومتی ترقیاتی منصوبے بھی پانی کی قلت کا سبب بن رہے ہیں۔ دونئی کی ویلج کونسل کے نومنتخب ناظم نثار احمد اس طرح کے ایک منصوبے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گیارہ عشاریہ آٹھ میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کے لیے تعمیر کیا جانے والا کروڑہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ مقامی چشموں کے خشک ہونے اور مقامی ندی نالوں میں پانی کی سطح کے گرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔
ان کے مطابق مقامی لوگوں نے اس مسئلے کی طرف حکومتی توجہ مبذول کرانے کے لیے کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا ہے لیکن سرکاری حکام نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
ڈان اخبار میں 25 فروری 2022 کو شائع شدہ ایک خبر ظاہر کرتی ہے کہ صوبائی حکومت کو اس مسئلے کے بارے میں معلوم ہے کیونکہ، اس کے مطابق، وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ایک ایسے منصوبے کے لیے 32 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے جس کا جزوی مقصد کروڑہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار ہونے والے علاقوں کو ان کی ضرورت کا پانی فراہم کرنا ہے۔ (تاہم نثار احمد اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے بارے میں لا علم ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہی۔)
کمیونٹی ڈریون لوکل ڈویلپمنٹ میں کام کرنے والے انجینئر عدنان منیر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت شانگلہ میں پانی کی قلت سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس کے حل کے لیے عملی اقدام بھی اٹھا رہی ہے۔ اس لیے، ان کے مطابق، ان کے ادارے نےحالیہ سالوں میں کئی ایسے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے ہیں جن کا مقصد پانی کی کمی کا سامنا کرنے والی آبادیوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے قدرتی چشموں کا پانی مہیا کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ "بہت سے علاقوں میں چشمے اور ندی نالے خشک ہونے سے یہ منصوبے بے کار ہو چکے ہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک پر پندرہ لاکھ سے پچیس لاکھ روپے خرچ آیا تھا"۔
خیبرپختونخوا کے وزیر محنت و انسانی حقوق شوکت یوسفزئی (جن کا تعلق شانگلہ ہی سے ہے) بھی اسی طرح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ضلعے کے جن علاقوں میں قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں وہاں ٹیوب ویل نصب کیے جا رہے ہیں۔ تاہم جن علاقوں میں یہ ٹیوب ویل لگائے جا رہے ہیں وہاں کی آبادی کو شکایت ہےکہ ابھی تک ان میں سے چند ایک ہی فعال ہوئے ہیں جبکہ باقیوں کی تنصیب بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی۔
تاریخ اشاعت 19 جولائی 2022