واسا اور میونسپل کارپوریشن کی تُو تُو میں میں: گوجرانوالہ میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے فلٹر آخری بار کب تبدیل ہوئے تھے؟

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

واسا اور میونسپل کارپوریشن کی تُو تُو میں میں: گوجرانوالہ میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے فلٹر آخری بار کب تبدیل ہوئے تھے؟

احتشام احمد شامی

گوجرانوالا کی نوشہرہ روڈ پر صغیر شہید پارک میں واٹر فلٹریشن پلانٹ سے پانی بھرنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس پلانٹ کا فلٹر آخری مرتبہ ساڑھے تین سال پہلے تبدیل کیا گیا تھا۔

انتظامیہ نے اس پلانٹ کا فلٹر تبدیل کرنے کے بجائے فلٹر والا سسٹم ختم کر کے ٹونٹیوں میں بورنگ کا پانی براہِ راست جاری کر دیا ہے جسے لوگ فلٹر شدہ پانی سمجھ کر لے جاتے ہیں۔

شہر میں بیشتر فلٹریشن پلانٹ ایسے ہیں جن کے فلٹر آخری مرتبہ جنوری 2020ء میں تبدیل کئے گئے تھے اور اس کے بعد مالی وسائل کی کمی کو جواز بنا کر فلٹر کی تبدیلی کا کام بار بار ملتوی ہوتا رہا۔ اب ایسے تمام پلانٹ لوگوں کو بور کا پانی مہیا کر رہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فضل الرحمان کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل شہر کے مختلف علاقوں میں زیرزمین پانی کا سروے کیا گیا تو اس میں آرسینک، فلورائیڈ اور دیگر دھاتوں اور نمکیات کی بھاری مقدار پائی گئی۔ اگر اس پانی کو فلٹر کئے بغیر پیا جائے تو اس میں شامل یہ اجزا جگر، معدے اور ہڈیوں کی سنگین بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

عابد رضا گھروں میں استعمال ہونے والے واٹر فلٹر فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر بھر کے سرکاری فلٹریشن پلانٹ خستہ حال ہیں اور ان سے بھرا جانے والا پانی بدبودار ہوتا ہے۔ اسی لئے جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ گھروں میں اپنے فلٹر لگوا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا: "لیاقت پارک میں نصب پلانٹ میں چھ سو فٹ بور کا پانی مہیا کیا جا رہا ہے لیکن یہ پانی رنگ دار ہے۔ اسی طرح ماڈل ٹاؤں فلٹر کا پانی کثیف اور بدبودار ہے۔ فی الوقت شہر اور گردونواح میں کسی پلانٹ کا پانی صاف نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی پلانٹ پر فلٹر بروقت تبدیل نہیں کئے جاتے۔"

شہر کے مصروف علاقے زیرو پوائنٹ کے قریب رہنے والے دل نواز خان کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار میونسپل کارپوریشن کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ان کے علاقے کا پلانٹ کام نہیں کر رہا لیکن کارپوریشن کے افسر کہتے ہیں کہ "پلانٹ ٹھیک کرانا ہمارا کام نہیں، آپ واسا سے رابطہ کریں۔"

دل نواز کئی مرتبہ واسا کے دفتر بھی جا چکے ہیں جہاں افسر انہیں کہتے ہیں کہ "فلٹریشن پلانٹ میونسپل کارپوریشن نے لگائے تھے اور ان کی مرمت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔"

گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ کے ترجمان حافظ عبد الوحید کا موقف ہے کہ شہر کے تمام واٹر فلٹریشن پلانٹس کی مرمت اور فلٹرز کی تبدیلی کی ذمہ داری اس وقت واسا کے پاس ہے کیونکہ واسا حکام شہریوں سے فراہمی و نکاسی آب کے بل وصول کرتے ہیں۔

جن چھوٹے اضلاع میں واسا کا ادارہ موجود نہیں وہاں کی میونسپل کارپوریشن فلٹریشن پلانٹس کی مرمت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی واسا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ واسا کے اہلکاروں کی ہی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پلانٹس کی صفائی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہاں شہریوں کی آمدورفت اور صاف پینے کے پانی کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

شہر کے مختلف علاقوں میں نصب فلٹریشن پلانٹ نہ صرف صاف پانی مہیا نہیں کر رہے بلکہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سرے سے ہی غیرفعال ہو چکے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر گورنمنٹ ہائی سکول کے باہر فلٹریشن پلانٹ پر اب نشئیوں کا بسیرا ہے۔ اسی طرح سیٹلائٹ ٹاؤن میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے باہر واقع پلانٹ کی کوئی ٹونٹی سلامت نہیں رہی اور اس کے تھڑے پر آوارہ کتے پائے جاتے ہیں۔

شہر کے مصروف علاقے زیرو پوائنٹ پر نصب فلٹریشن پلانٹ تین سال سے غیرفعال ہے۔ اس پلانٹ پر پانی کی آٹھ میں سے چھ ٹونٹیاں غائب ہیں، ساتویں خراب ہے اور آٹھویں پر فروٹ چاٹ بیچنے والے دکاندار کا قبضہ ہے جس نے اس ٹونٹی کے ساتھ مستقل پائپ لگا رکھا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے برتن دھوتا ہے۔

دوسری جانب کنٹونمنٹ اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تمام فلٹریشن پلانٹ درست کام کر رہے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آنے والے علاقے راہوالی میں رہنے والے ذیشان علی بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں سرکاری عملہ ہر تین ماہ کے بعد فلٹر تبدیل کر دیتا ہے۔

یہی صورتحال گوجرانوالہ کی نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی ہے جہاں رہنے والے لوگوں کو پینے کے پانی سے متعلق کسی پریشانی کا سامنا نہیں اور وہاں جو فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں وہ اچھی حالت میں ہیں۔
محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ نے 2005ء اور پھر 2014ء میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں کروڑوں روپے کی لاگت سے فلٹریشن پلانٹ نصب کئے تھے۔ اس سلسلے میں گنجان آباد علاقوں کو ترجیح دی گئی کیونکہ وہاں پینے کے پانی کی ضرورت زیادہ تھی۔

2005ء میں ہر پلانٹ کی تنصیب پر اوسطاً گیارہ لاکھ اور 2014ء میں اوسطاً 23 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ منصوبے کے مطابق فلٹریشن پلانٹس کی مرمت اور فلٹر کی تبدیلی کا کام میونسپل کارپوریشن اور واسا کے ذمے لگایا گیا۔ جن شہروں میں واسا موجود نہیں ہے وہاں میونسپل کارپوریشن کو یہ دونوں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پیاس جب بڑھتی ہے تو ڈر لگتا ہے پانی سے: حیدرآباد میں آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ۔

منصوبے کے مطابق پلانٹ کو چلانے کے لئے تربیت یافتہ عملہ متعین کیا جانا تھا اور ایک فلٹر پلانٹ پر تین ملازم تعینات ہونے تھے لیکن تین پلانٹس پر ایک ملازم کی ڈیوٹی لگائی گئی جسے ضروری تربیت بھی فراہم نہ کی گئی۔

فلٹریشن پلانٹ خراب اور غیرفعال ہونے اور ان کے فلٹر بروقت تبدیل نہ کئے جانے کی بابت جب کمشنر کے دفتر سے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ چند روز پہلے حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع سے خراب فلٹریشن پلانٹس کے بارے میں رپورٹ مانگی گئی تھی۔

گوجرانوالا ڈویژن کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹ کے مطابق ضلع گوجرانوالہ 43 میں سے 25 پلانٹ خراب ہیں اور 18 کام کرر ہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے فنڈ جاری ہوتے ہی خراب پلانٹس کی مرمت شروع کر دی جائے گی۔

ترجمان ضلعی انتظامیہ کے مطابق وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی مرمت اور بند پلانٹس کو چالو کرنے کے احکامات حال ہی میں موصول ہوئے ہیں جن پر عمل درآمد کے لیے ضروری کارروائی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں فلٹریشن پلانٹس کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور جہاں کوئی مسئلہ ہو یا فلٹریشن پلانٹ خراب یا ناکارہ ہوچکا ہو اس بارے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کو مطلع کریں تاکہ مرمت و بحالی کے بارے میں فوری احکامات جاری کئے جاسکیں۔

تاریخ اشاعت 23 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.