پینتیس سالہ محمد شفیق محلہ فاروق گنج نارووال کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے حجام ہیں۔ غربت کی وجہ سے انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ والدین نے انہیں 17 سال کی عمر میں رشتہ داروں کے پاس کراچی بھجوا دیا تھا جہاں وہ حجامت کا کام سیکھتے رہے اور گیارہ سال کے بعد نارووال واپس آ کر اپنی دکان شروع کر دی۔ اسی دوران ان کی شادی بھی ہو گئی۔ زندگی جیسے تیسے گزر رہی تھی کہ پچھلے چند سال سے آنے والے مہنگائی کے طوفان میں ان کے مالی حالات بگڑ گئے۔
اسی دوران کسی نے انہیں بتایا کہ اگر وہ کورین ویزا لاٹری میں حصہ لیں تو انہیں جنوبی کوریا میں روزگار مل سکتا ہے۔ اپنے حالات بدلنے کی خواہش میں انہوں نے حامی بھر لی اور پاسپورٹ بنوا کر کوریا کی ویزا لاٹری کی پراسیس فیس ادا دی۔ اس کے بعد انہوں نے کورین زبان سیکھنے کے لیے لینگوئج اکیڈمی میں داخلہ لیا لیکن وہ ٹیسٹ میں فیل ہو گئے اور یوں ان کی محنت اور پیسہ ضائع ہو گئے۔
محمد شفیق بتاتے ہیں کہ چند روز قبل ان کی اہلیہ کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے کی تھی۔ ان کے پاس زچگی کے اخراجات کے لیے پیسے نہیں تھے چنانچہ ہسپتال لے جانے میں تاخیر کے باعث بچہ ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ گیا۔
ستائیس سالہ ابراہیم نارووال کے نواحی ٹاؤن بدوملہی کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے سول انجینئرنگمیں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکن اور کورین ویزا لاٹری پر دس لاکھ روپے خرچ کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دو مرتبہ لینگوئج اکیڈمیوں میں داخلہ لیا۔ تربیتی ورکشاپ میں ٹریننگ بھی حاصل کی مگر ہر بار ناکامی ہوئی۔اب انہوں نے کینیڈین لاٹری میں درخواست دی ہے۔
ابراہیم کہتے ہیں کہ گھر والے تو ان کے اس کام سے تنگ آ چکے ہیں مگر وہ اپنے بہتر مستقبل کےلیے کوششں کیے رہے ہیں۔ کینیڈین لاٹری کے لیے بھی ان کے پاس پیسے نہیں تھے جس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ تین لاکھ 10 ہزار روپے میں دودھ دینے والی بھینس بیچ دی۔
اکتیس سالہ محمد وارث نارووال کے نواحی قصبہ کنجروڑ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بھی کوریا جانے کے لیے لینگوئج کورس میں داخلہ لیا تھا مگر ٹیسٹ میں ناکام رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ شہر میں کورین اور دوسری زبانیں سکھانے والی بہت سی اکیڈمیاں قائم ہیں جن میں بیشتر ایک دو کمروں یا دکانوں میں چلائی جا رہی ہیں۔ یہ لوگ بیروزگار نوجوانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کے لئے نہ تو کوئی ضابطہ ہے نہ ہی حکومت ان کی نگرانی کرتی ہے۔
نارووال میں قائم برائیٹ لینگوئج اکیڈمی کے مالک محمد اسلم گجر بتاتے ہیں کہ ضلع میں ویسے تو چار سو سے زیادہ اکیڈمیاں قائم ہیں مگر 25 کے قریب ایسی ہیں جن کا شمار بڑی اور معیاری اکیڈمیوں میں ہوتا ہے جہاں سیکڑوں طلبہ مختلف زبانیں سیکھ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اکیڈمی مالکان شہریوں کو بیرون ممالک بھجوانے کا کام نہیں کرتے بلکہ صرف مختلف زبانوں کے کورسز کراتے ہیں۔ ہر زبان کےلیے الگ فیس ہے۔ کسی ایک زبان کا کورس 50 ہزار سے تین لاکھ روپے میں کرایا جاتا ہے۔
محمد ناصر عظیم کنگ کورین لینگوئج اکیڈمی کے انسٹرکٹر ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ کورین ویزا لاٹری سکیم کے تحت ملک بھر سے 50 ہزار سے زیادہ درخواستیں دی گئی تھیں۔ ان میں 70 فیصد درخواست دہندگان کا تعلق نارووال سے تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے ایک ہزار 445 امیدوار کورین لینگوئج ٹیسٹ میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے 739 ضلع نارووال کے ہیں۔
پروفیسر عاصم ریاض برسوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک ڈیڑھ ماہ میں کوئی بھی غیر ملکی زبان نہیں سیکھی جا سکتی۔ لینگوئج اکیڈمیاں محض پیسے بنا رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کہ ٹیوٹا کے تحت سرکاری اداروں میں نوجوانوں کو فنی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں انہیں لینگویج کورسز بھی کرانے چاہئیں۔ اس طرح روزگار کے لیے باہر جانے والوں کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
لوک سجاگ نے 14 فروری کو بھی ان اکیڈمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں ان کی جانب سے لی جانے والی غیر معمولی حد تک بھاری فیسوں کی نشان دہی کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ان میں سے بیشتر اکیڈمیاں غیرمعیاری اور غیررجسٹرڈ ہیں۔ لیکن تاحال انتظامیہ نے اس معاملے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
ڈپٹی کمشنر نارووال محمد اشرف سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ لینگوئج اکیڈمیوں کی نگرانی کرنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنروں کو احکامات دے دیے ہیں۔ رپورٹ آنے کے بعد ان اکیڈمیوں کو ضابطے پر عمل درآمد کا پابند بنایا جائے گا۔
محمد صالح کاروباری شخصیت اور نارووال کے محلہ اسلام پورہ رہائشی ہیں۔ وہ یہاں ریلوے روڈ پر جوتوں کا بزنس کرتے تھے مگر15 سال قبل لاہور شفٹ ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ نارووال میں صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کو روزگار کے لیے بڑے شہروں یا پھر بیرون ممالک جانا پڑتا ہے۔ بھارتی سرحد قریب ہونے کی وجہ سے یہاں صنعتکار اور حکومت سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ اس لیے نوجوان اچھے مستقبل کی خاطر بیرون ملک جانے کا سوچتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ یہاں زمین بہت زرخیز ہے۔ زرعی اراضی پر فیکٹریاں نہیں لگائی جاتیں۔ اس لیے ظفروال سیالکوٹ روڈ اور قصبہ دھمتھل سے سیالکوٹ جانے والی سڑک پر انڈسٹریل زون بنانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ اس سلسلے میں ماسٹر پلان کی تیاری آخری مراحل میں ہے اور صنعتیں قائم ہونے کے بعد شہر میں روزگار کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں
چلو چلو کوریا چلو: نارووال سے جنوبی کوریا، نان سٹاپ
سماجی کارکن انجینئر فرید اقبال کہتے ہیں کہ نارووال میں انڈسٹریل زون بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ آئی ٹی سنٹر کھولے جائیں تو بہتر ہو گا۔اس طرح تعلیم یافتہ نوجوان گھر ہی میں بہتر روزگار حاصل کر سکیں گے۔ بیرونی سرمایہ پاکستان آئے گا اور معیشت بھی ترقی کرے گی۔
اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق ضلع نارووال میں غربت قریبی اضلاع سیالکوٹ، گجرات، شیخوپورہ اور لاہور سے زیادہ ہے۔ مگر ساہیوال اور جنوبی پنجاب سمیت درجنوں اضلاع کے مقابلے میں یہاں حالات بہتر ہیں تاہم اس کے باوجود یہاں نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کی گویا دوڑ لگی ہوئی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ممتاز احمد بٹ کا خیال ہے کہ شہر میں روزگار کے مواقع کی کمی کے باعث نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ اگر نوکری کے لیے گھر چھوڑنا ہی ہے تو کیوں نہ بیرون ملک جائیں۔ غربت،بےروزگاری اور مہنگائی نے مسائل بہت بڑھا دیئے ہیں۔ شاید نئی نسل ان مسائل سے فرار حاصل کرنے کے لیے بھی بیرون ملک جانا چاہتی ہے
تاریخ اشاعت 24 اگست 2023