وہاڑی 16 سالہ نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت: 'پولیس کے پاس سزا دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے'

postImg

مبشر مجید

postImg

وہاڑی 16 سالہ نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت: 'پولیس کے پاس سزا دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے'

مبشر مجید

وہاڑی سے 11 کلو میٹر کے فاصلے پر بوریوالا کے راستے میں چک 19 ڈبلیو بی آتا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں ڈھڈی جٹ برادری آباد ہے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ پولیس اس گاؤں میں جانے سے کتراتی ہے اس لیے اسے وہاڑی کا نو گو ایریا بھی کہا جاتا ہے۔

اسی گاؤں کا رہائشی 16 سالہ علی شیر چند روز پہلے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔

وہاڑی پولیس کے مطابق اتوار نو اپریل کو چک 557 ای بی کے قریب تین نامعلوم ملزم موٹر سائیکل چھین کر فرار ہوئے تھے۔ پولیس ہیلپ لائن 15 پر اس واقعے کی اطلاع موصول ہونے کے بعد اہم جگہوں پر ناکہ بندی کر دی گئی۔

چک 4 ڈبلیو بی کے قریب ناکہ بندی پوائنٹ پر ملزموں کا پولیس سے سامنا ہو گیا۔ پولیس نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا تو ملزموں نے فائرنگ کر دی۔ اہلکاروں نے آڑ لے کر جوابی فائرنگ کی اور اس دوران ایک نامعلوم ڈاکو اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ اس کے دونوں ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔

"ہلاک ہونے والا نوجوان علی شیر ولد شکیل احمد تھا۔''

علی شیر کے دادا طالب حسین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کا پوتا دسویں جماعت میں پڑھتا  تھا اور ان دنوں اس کے سالانہ امتحان تھے۔ وہ دو پیپر دے چکا تھا اور جس روز اس کی ہلاکت ہوئی اس دن وہ ماچھی وال کے ایک سکول میں بنائے گئے امتحانی مرکز میں فزکس کا پیپر دے رہا تھا۔

"میں امتحانی مرکز کے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک پولیس کی گاڑی آئی اور اہلکار ڈیوٹی پر کھڑے گارڈ کو دھکا دے کر اندر داخل ہو گئے اور علی شیر کو باہر لے آئے۔ جب میں نے پولیس اہلکاروں سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جا رہے ہیں تو انہوں نے مجھے دھکا دے کر پرے کیا اور اسے گاڑی میں ڈال کر چلے گئے۔''

<p>درمان میں کھڑے 16 سالہ علی شیر میٹرک کے طالب علم تھے<br></p>

درمان میں کھڑے 16 سالہ علی شیر میٹرک کے طالب علم تھے

طالب حسین بتاتے ہیں کہ وہ فوری طور پر تھانہ ماچھی وال گئے۔ان کے ذہن میں یہی تھا کہ شاید یہ امتحان میں نقل کا کوئی معاملہ ہے۔ تھانے پہنچ کر انہیں پتا چلا کہ علی شیر کو سی آئی اے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

"سی آئی اے سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا اسی دوڑ بھاگ میں شام ہو گئی۔ گاؤں کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ صبح ڈی پی او وہاڑی سے جا کر ملیں تو وہ داد رسی کریں گے اور آپ کے پوتے کی ضمانت ہو جائے گی۔ لیکن اگلے روز اس وقت ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی جب علی الصبح سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ علی شیر کو پولیس مقابلے میں جان سے مار دیا گیا ہے"۔

طالب حسین سوال کرتے ہیں کہ پولیس 16 سالہ طالب علم کو سکول سے اٹھا کر رات کے اندھیرے میں قتل کر دے تو اس سے بڑی لاقانونیت اور کیا ہو گی؟

علی شیر کے خاندان نے گاؤں کے سیکڑوں لوگوں سمیت احتجاج کرتے ہوئے وہاڑی کا مرکزی وی چوک بلاک کر دیا جس سے کئی گھنٹے ٹریفک بلاک رہی۔ علی شیر کے خاندان کے دو بڑے مطالبات تھے کہ قاتلوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس کی میت ورثا کے حوالے کی جائے۔

علی شیر کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ پولیس میت دینے سے انکار کررہی تھی اور ان سے کہا جا رہا تھا کہ وہ خود اس کی تدفین کر دیں گے لیکن علی شیر کی والدہ اور بہنوں کو یہ بات کسی صورت قبول نہ تھی۔

سوشل میڈیا پر جب اس ہلاکت کو لے کر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا تو پولیس کی جانب سے یہ معلومات جاری کی گئیں کہ علی شیر پانچ مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھا جبکہ اس کے بھائی ثاقب پر 12 مقدمات، دوسرے بھائی آصف پر تین، جبکہ والد شکیل احمد پر 45 مقدمات قائم ہیں۔

سینئر قانون دان عبدالوہاب بلوچ کہتے ہیں کہ ملزم اور مجرم میں فرق ہوتا ہے۔ قانون شکنی پر مقدمہ درج ہونے کے بعد جس پر الزام ہوتا ہے وہ شخص ملزم کہلاتا ہے۔ اس کے مجرم ہونے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتا ہے اس لیے پولیس کا ملزم کو ریکارڈ یافتہ ظاہر کرکے صفائی پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔

علی شیر کی والدہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے معصوم بچے کو سکول سے اٹھا کر بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔

"میرے بچے پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں توڑ دی گئی تھیں۔ پورے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ اس کے سر میں تیز دھار آلے سے ضرب لگا کر زخمی کیا گیا۔ آخر اس نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ اس سفاکیت کے ساتھ اس کی جان لی گئی اور 40 گھنٹے  تک ہمیں اس کا چہرہ تک دیکھنے نہیں دیا گیا۔ میں روتی رہی فریاد کرتی رہی لیکن ظالموں کو رحم نہ آیا میرے بیٹے کو جان سے مار کر سڑک پر پھینک دیا گیا اور سینے پر پستول رکھ کر پولیس مقابلہ ظاہر کیا گیا"۔

علی شیر کی پھوپھی سکول ٹیچر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ بتایا کہ جب طالب علم پیپر دینے جاتا ہے تو سب سے پہلے امتحانی مرکز کے دروازے پر گارڈ اور اس کے بعد امتحانی عملہ اس کی اچھی طرح تلاشی لیتا ہے۔ رول نمبر سلپ کی تصویر سے شناخت مکمل کرنے کے بعد اسے پیپر دینے کی اجازت ملتی ہے۔

"ایسے میں اس کے پاس پستول کیسے ہو سکتا ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس پستول تھا۔ اس کے علاوہ پولیس نے سکول گارڈ کی اجازت، وارنٹ گرفتاری اور امتحانی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ سے اجازت لیے بغیر علی شیر کو کمرہ امتحان سے پیپر دیتے ہوئے گرفتار کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس مقابلہ ایک من گھڑت کہانی کے سوا کچھ نہیں"۔

<p>پولیس کے مطابق علی شیر پانچ مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھا<br></p>

پولیس کے مطابق علی شیر پانچ مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھا

علی شیر کی بہن بی ایس انگریزی کی طالبہ ہیں۔ انہوں ںے لوک سجاگ کو بتایا کہ  ان کے بے قصور بھائی کو قتل کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔

جس بھائی کو ہم نے کبھی تھپڑ تک نہیں مارا تھا اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا 40 گھنٹے تک مردہ خانے میں رکھا لیکن اس ایک جھلک تک نہ دیکھنے دی گئی"۔

پچھلے تین سال کے دوران وہاڑی میں 21 مبینہ پولیس مقابلے ہو چکے ہیں جن میں 24 افراد ہلاک اور تین پولیس اہلکاروں سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔

رواں سال پولیس مقابلوں میں تیزی آئی ہے اور اب تک ایسے 12 مبینہ واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں 12 افراد ہلاک اور ایک کانسٹیبل سمیت تین زخمی ہوئے۔

جب اس مبینہ پولیس مقابلے کے بارے میں ڈی ایس پی صدر سرکل وہاڑی رانا سلیم سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ علی شیر کا سارا خاندان جرائم پیشہ ہے۔

"پولیس نے کسی سے زیادتی نہیں کی بلکہ میرٹ پر اپنی ڈیوٹی انجام دی ہے۔ پولیس مقابلہ ہوا جس میں علی شیر ہلاک ہوگیا۔اس کے بعد اس کے خاندان کی جانب سے احتجاج کے نام پر جو حالات پیدا کیے گئے وہ نہیں ہونے چاہیے تھے۔ انہوں نے پولیس کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن ہم اپنی ڈیوتی کرتے رہیں گے۔ ہم نے آئی جی پنجاب کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے لیے کوشش کرنی ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

باڑہ میں سکول ٹیچر کی پولیس کے ہاتھوں موت: 'وہ دہشت گرد نہیں، علم دوست انسان تھا'۔

ایک سوال کے جواب میں رانا سلیم نے کہا کہ علی شیر کے خاندان کے مطالبے پر معاملے کی تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے اگر اس میں پولیس اہلکار قصور وار ہوئے تو انہیں بھی سزا ملے گی۔

قانون دان عبدالوہاب بلوچ کا کہنا ہے کہ علی شیر کی عمر 16 سال تھی جو قانوناً کم عمری ہے اور اگر ایسا فرد کوئی سنگین جرم کر لے تو وہ بھی قابل ضمانت ہوتا ہے اور نوعمر افراد کے لیے جیل کے اندر بھی الگ سیل بنائے جاتے ہیں۔

"کریمنل پروسیجر کوڈ کی شق 173 کے تحت پولیس اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ شواہد اکٹھے کر کے ملزم کو عدالتی کارروائی کے لیے پیش کر دے۔ پولیس کے پاس سزا دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ علی شیر کو پولیس مقابلے میں قتل کر کے اس کا منصفانہ قانونی کارروائی کا بنیادی حق بھی غصب کیا گیا ہے۔

 سینئر قانون دان میاں جعفر علی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد پولیس کے خلاف صرف "رپٹ ورشن" درج ہوئی ہے۔جس کا مطلب ''تفتیش کا آغاز''  ہے۔

"اگر ابتدائی تفتیش میں واضح ہو کہ پولیس اہلکار قصوروار ہیں تو تب ہی ان کے خلاف مقدمہ درج ہو سکے گا"۔ 

تاریخ اشاعت 24 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مبشر مجید وہاڑی کے رہائشی اور گذشتہ چھ سال سے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔ زراعت، سماجی مسائل اور انسانی حقوق ان کے خاص موضوعات ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.