"پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ مخصوص طلبہ کو نسلی بنیادوں پر نشانہ بنا رہی ہے"

postImg

عروبہ سیف

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ مخصوص طلبہ کو نسلی بنیادوں پر نشانہ بنا رہی ہے"

عروبہ سیف

loop

انگریزی میں پڑھیں

کچھ روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک "خط" گردش کررہا تھا جس میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ قانون کی طالبہ سعدیہ بلوچ کی معطلی کا ذکر تھا۔دلچسپ بات یہ تھا کہ اس مبینہ معطلی کے بارے میں خود سعدیہ بلوچ کو علم نہیں تھا۔

انہیں اس خط کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ  کی جانب سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ان کے جاننے والوں میں سے کسی نے انہیں اس کے بارے میں بتایا تھا۔

معطلی کا خط، پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر احمد اسلم نے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود اور ہیڈ آف سیکیورٹی کرنل ریٹائرڈ کرنل عبید اسلم کی ہدایات پر جاری کیا تھا جس میں پنجاب یونیورسٹی ایکٹ 1973 کی خلاف ورزی کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے۔

"بتایا جاتا ہے کہ 10 جون 2024ء کو تقریبا ساڑھے چار بجے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی طلباء نے بغیر اجازت یونیورسٹی کے احاطے میں غیر قانونی ریلی نکالی۔

ریلی کے اختتام پر سعدیہ بلوچ ولد صلاح الدین نامی ایک طالبہ نے یونیورسٹی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے طالب علموں کے سامنے اپنی تقریر کے دوران انتہائی قابل اعتراض اور پراپیگنڈا آمیز الفاظ استعمال کیے تاکہ دیگر طالب علموں کے ذہنوں کو سرکاری اداروں کے خلاف آلودہ کیا جا سکے۔ …"

سعدیہ یونیورسٹی کے ایڈمشن آفس گئیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جاسکے کہ آیا واقعی ایسا کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر انتظامیہ نے اس سے انکار کیا لیکن جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے آخر کار انہیں رجسٹرار کے دستخط شدہ معطلی کے احکامات دکھائے۔
''یہ وارننگ لیٹر یا چارج شیٹ نہیں تھی، بلکہ اپنے آپ میں معطلی کا خط تھا۔"

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس نوٹیفکیشن کے برعکس، جس میں ریلی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، چیف سکیورٹی آفیسر (سی ایس او) ریٹائرڈ کرنل عبید اور انتظامیہ کو اس کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا اور انہوں نے پہلے ہی اس کی اجازت دے دی تھی۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے بلوچ سٹوڈنٹ کونسل کے ساتھی ارکان کے ہمراہ سعید بلوچ اور اس کے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف کیمپس میں ایک ریلی کی قیادت اور تقریر کی تھی۔ دونوں لاپتہ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔

اس خط کے کچھ دن بعد سعدیہ کے امتحانات تھے۔

لوک سجاگ نے اس معاملے پر مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے تعلقات عامہ کے افسر ڈاکٹر خرم شہزاد سے رابطہ کیا۔ اگرچہ انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔لیکن اور نوٹس شئیر کیا، جس میں کہا گیا کہ طالبہ کو صرف 15 دن کے لئے معطل کیا گیا تھا اور معطلی سے پہلے داخلہ بحال کر دیا گیا ہے جس سے  سعدیہ کو بقیہ کلاسوں میں شرکت کرنے اور اپنے امتحانات دینے کی اجازت مل گئی ہے۔

نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ  سعدیہ  کی ڈگری ڈسپلنری کمیٹی کے حتمی فیصلے کے بعد ہی دی جائے گی جبکہ اس دوران طالبہ زیر نگرانی رہیں گی۔

کچھ تگ و دو  کے بعد انتظامیہ نے سعدیہ بلوچ کو 22 اگست سے شروع ہونے والے امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری کر دی۔

قانونی جنگ

اس یکطرفہ کاروائی اور ناروا سلوک کی وجہ سے سعدیہ نے ایڈووکیٹ اسد جمال کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب یونیورسٹی کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔

درخواست میں سعدیہ بلوچ کے وکیل کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ وائس چانسلر (پروفیسر خالد محمود) اور ہیڈ آف سیکیورٹی (ریٹائرڈ کرنل عبید مسعود) کے پاس طالبہ کو کسی بھی الزام میں معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس طرح کے اختیارات صرف ڈسپلنری کمیٹی کی طرف سے مناسب طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے استعمال کیے جاسکتے ہیں، وہ بھی مقررہ وقت میں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سکیورٹی کے سربراہ کی جانب سے نگرانی کے نام پر طلبہ کی نگرانی کا عمل آئین پاکستان کے مختلف آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے جن میں آرٹیکل 4 (قانون کے مطابق برتاؤ کا حق)، آرٹیکل 14 (وقار اور رازداری کا حق)، آرٹیکل 10-اے (مناسب عمل اور شفافیت کا حق) شامل ہیں۔  آرٹیکل 16 (پرامن اجتماع کا حق)، آرٹیکل 17 (انجمن/وابستگی کا حق)، آرٹیکل 19 (اظہار رائے کی آزادی)، آرٹیکل 25 (مساوات اور عدم امتیاز کا حق) شامل ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے سعدیہ بلوچ کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے دوسرا نوٹس جاری کیا ہے لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں، انتظامیہ نے ایسا صرف اس لیے کیا کیونکہ انہیں معلوم ہوا کہ وہ اس معاملے کو قانونی طور پر آگے بڑھا رہی ہیں۔

نسلی طور پر ہدف بنانے کا منظم طریقہ

سعدیہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یونیورسٹی کا یہ اقدام طلباء کے پرامن احتجاج کرنے اور آئین کے ذریعہ فراہم کردہ اپنے سیاسی حقوق کے لئے کھڑے ہونے کے حق کو کمزور کرتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ تعلیمی اداروں میں اب یہ ایک عام رواج بن چکا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کو ان کے حقوق کے استعمال کے لیے ڈراتے دھمکاتے ہیں۔

انہوں ںے الزام لگایا کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ ان کے کیس کو دوسرے طالب علموں، خاص طور پر بلوچ طالب علموں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

" ادارے ریاست کے ہتھکنڈوں کی نقل کرتے ہوئے پہلے بغیر کسی مناسب کارروائی کے طلباء کے خلاف الزامات عائد کر رہے ہیں اور ان الزامات کو ان سے چھپا رہے ہیں۔"

سعدیہ کہتی ہیں کہ انتظامیہ مخصوص طلبہ کو نسلی بنیادوں پر نشانہ بناتی ہے جبکہ ایک مخصوص سٹوڈنٹ یونین کی پرتشدد سرگرمیوں سے آنکھیں بند کر لیتی ہے جس کی انضباطی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔

وہ شکایت کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے قوانین صرف پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کے خلاف نافذ کیے جاتے ہیں۔

سعدیہ کے دعوے کو 2017 میں پنجاب یونیورسٹی میں پیش آنے والے ایک واقعے سے تقویت ملتی ہے جہاں بلوچ طلباء اور دیگر کے درمیان نسلی تصادم کے نتیجے میں صرف بلوچ طلباء کو یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا، نسلی بنیادوں پر کیے گئے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ادارے انصاف، شناخت اور طالب علموں کے حقوق میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

سعدیہ بلوچ کا معاملہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ بار بار پیش آنے والے رجحان کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پنجاب یونیورسٹی: احتجاج میں بیٹھے بلوچ طلبا پر انتظامیہ کا تشدد

انہوں نے بیبگر معاملے کا حوالہ دیا۔ نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم بیبگر امداد عید سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے کزن سے ملنے آئے لیکن کیمپس کی سکیورٹی نے اس کو ایک ہفتہ تک حراست میں رکھا۔

تئیس اکتوبر 2023ء کو بی ایس ایجوکیشن کے طالب علم فرید بلوچ، جو پنجاب یونیورسٹی بلوچ کونسل کے رکن بھی ہیں، کو مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے دو پولیس والوں کے ساتھ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے حراست میں لے لیا تھا۔

جب وہ طالب علم کو ایک نجی گاڑی میں ڈال رہے تھے تو یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈز نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔

سعدیہ بلوچ  کہتی ہیں کہ وہ نسلی پسماندگی کے خلاف بولنا جاری رکھیں گی، بلوچ طلباء کی آواز بن کر ان کے مسائل اٹھاتی رہیں گی تاکہ عوام ان کے بارے میں جان سکیں۔

" پسماندہ طبقات کی آواز کو بلند کرنا میرے آئینی حقوق میں شامل ہے۔"

تاریخ اشاعت 27 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.